9 ؍دسمبر کے روز دارالحکومت دہلی میںزعفرانی وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی )نے دھرم سبھا نامی ایک ریلی منعقد کی ۔ اس میں شرکت کرنے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں خود ساختہ رام بھکت جمع ہوئے۔بھکتوں میں بڑی تعداد بے روزگار نوجوانوں کی تھی۔میڈیا کے کیمرے دیکھ کر یہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اُٹھا کر اُچھل جاتے اور پھر زور سے کہتے’’جے شری رام‘‘۔یہ سارے رام بھکت رام لیلا میدان کی طرف مارچ کر رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں بھگوا ’’دھوج‘‘ (پرچم) تھا۔ ان میں سے بہت سارے بھکت چوٹ کرنے والا اسلحہ ’’گَدا‘‘ بھی تھامے ہوئے تھے۔یہ سب دیکھ کر ایسا گمان ہو رہا تھا کہ یہ کسی ریلی کی نہیں بلکہ کسی جنگ کی تیاری ہو۔جب صحافیوں نے ان بھکتوں سے پوچھا کہ مندر کیوں بنانا چاہتے ہیں ؟ تو انہوں نے اپنے غصےکا اظہار کرتے ہوئے کہا:بھگوان رام بغیر گھر (مندر) کے ہیں اور باقی لوگ محلوں میں رہ رہے ہیں۔کیا دنیا کا ’’خالق‘‘ کسی گھرکا محتاج ہے؟ ان کو کون سمجھائے کہ بے گھر اگر کوئی ہے تو وہ بھگوان نہیں بلکہ ا س کے غریب بندے ہیں ۔پھر جب پوچھا گیا کہ رام مندر بننے سے ’’وکاس‘‘ کیسے ہوگا؟ تو بھکتوں نے خالص سیاسی جواب دیا : ’’مودی جی نے وکاس کر دیا ہے اور اب مندر چاہیے‘‘۔ رام مندر کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس کا فیصلہ صادر ہونے تک سب کو انتظار تو کرنا ہی پڑےگا؟اس سوال پر ان کا جواب بے حد ہی افسوس ناک تھا، جو ہندوستانی آئین کے منافی ہے اور عدالت عظمیٰ کی بے توقیری کرتا ہے۔ جواب یہ تھا ’’ سپریم کورٹ سے بھی پرانے بھگوان رام ہیں اور جو ادارہ صرف ۱۰۰؍سال پرانا ہو اس کی بات وہ کیوں مانیں ؟ یعنی اس منہ میں رام بغل میں چھری کے مترادف بھکتوں کا اصل مقصد سیاسی ہے،خالص سیاسی۔ ان کی باتوں میں’’ آستھا‘‘(عقیدت) کا نام ضرور لیا جاتا ہے، مگر اس کے پیچھے اصل مقصد سیاسی ہے اور بھگوا سیاسی جماعتوں کے لئے زمین تیار کرنا ہے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو میڈیا سے بات کرتے ہوئے وہ بی جے پی کی حریف جماعت کانگریس پر جم کرنہیں برستے۔ انہوں نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ مودی پرتھوی راج چوہان کے بعد پہلا ہندوحکمرا ن ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آزادی کے بعدغیر بی جے پی سرکاریں ہندو مخالف تھیں۔اسی دوران بھکتوں نے پاکستان کو بھی بیچ میں لایا اور اُلٹا سوال کیا کہ اگر 125 ؍کروڑ ہندوؤں کی آبادی والے بھارت میں رام مندر نہیں بنےگا تو کیا یہ پاکستان میں بنےگا؟ اگر پاکستان کا نام آیا تو مسلمانوں کا ذکر بھلا کیسے نہیں آتا؟کئی جگہوں پر رام بھکتوں نےایسے اشتعال انگیز نعرے بھی دئے جن کا واحد مقصد فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، مشترکہ تہذیب اور ملکی سالمیت کو زک پہنچانا تھا۔’’ایک دھکا اور دو جامع مسجد توڑ دو‘‘رام بھکتوں جیسے نعرے دیتے ہوئے بھگتوں کی ایک ٹکڑی مارچ کر رہی تھی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ویڈیو میں صاف صاف دیکھا جا سکتا تھا کہ یہ رام بھکت پورے ملک کے سامنے سر عام مسلم آبادی کے خلاف نفرت پیدر کررہے تھے۔ اس پر ان کے خلاف قانونی کاروائی ہونی چاہیے مگر کر ے گا کون؟ ان بھکتوں کو کون سمجھائے کہ 1857 کے انقلاب کے دوران جامع مسجد ہی انقلابیوں کا مرکز ہوا کرتی تھی۔ اسی جامع مسجد میں سرجوڑے ہندو اور مسلمان مل کر انگریزوں کے خلاف اپنا لائحہ عمل تیار کرتے تھے۔ دیس بھکتی کا دم بھرنے والے ان بھکتوں کو جامع مسجد کے خلاف واہیات بکنے سے پہلے یہ تو سوچنا چاہیے تھا کہ ان کے اس مذموم عمل سے ملک کی آزادی کے لئے مر مٹنے والے شہیدوں کا دل کتنا مجروح ہوا ہوگا۔پیارے دیس کی بدقسمتی دیکھئےکہ یہ بھکت رام مندر تعمیر کے نام پر اپنے ہی بھائیوں اور ہم وطنوں کے تئیں عداوت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ سیاسی ومعاشی طور طور ملک کی سب سےکمزور مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنا کر یہ ملک کی کس ہمہ جہت ترقی کی بات کرتے ہیں؟ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا مطلب کیا ہے ؟وہ کمیو نٹی جس کے حالات کئی معاملوں میں آج دلتوں سے بھی خراب ہیں،وہ کمیونٹی جو تعلیمی، سماجی، اقتصادی طور پر پچھڑتی ہی چلی جا رہی ہے، سرکاری اور نجی اداروں میں جس کے خلاف سر عام بھید بھاؤبرتا جاتا ہے ،وہ کمیونٹی جس کی نمائندگی پارلیمنٹ میں آج آزادی کے بعد سب سے کم ہے، مگر جیلوں میں ان کا تناسب ان کی شرح آبادی سے کہیں زیادہ ہے، کیا اس کمیونٹی کو ٹارگیٹ بناکر بھکت ملک کو پیچھے نہیں دھکیل رہے ہیں ؟ ہاں، مگر یہ سب کچھ یہ لوگ ایک نفرت انگیز جادوئی سیاست کے زیر اثر کر رہے ہیں ۔اسی فرقہ وارانہ سیاست کے نشے میں یہ رام بھکت بھگوان رام کے نام پر سر عام اشتعال انگیزیاںکر تے جارہے ہیں۔ان کے خلاف حکومت کو فوراً کاروائی کرنی چاہیے اور جمہوریت نواز سول سوسائٹی کو ان کی جم کر مذمت کرنی چاہیے،مگر اس حکومت سے کیا امید ہوسکتی ہے،جس کے دکھانے کے دانت ’’وکاس‘‘ کےہیں مگر کھانے کے دانت ’’وناش ‘‘ کاری کے ہیں۔ اب تو مودی جی اور بی جے پی کا جادو پہلے جیسا بھی نہیں رہا۔ حال ہی میں تین ریاستوں میں ان کی سرکار کو عوام نے شکست دی ہے ۔اس لئے اب ان کو صرف بھگوان رام پر سیاست کر نے میں اپنی کرسی محفوظ دکھ رہی ہے۔جوں جوں پارلیمانی انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں، توں توں رام مندر کا معاملہ اور زیادہ گرمایا جا رہا ہے۔ غالباً یہ وجہ ہے کہ وی ایچ پی پھر سے رام مندر بابری مسجد تنازعہ کے گڑے مردے کو اکھاڑ رہی ہے۔یاد رہے کہ رام مندر کو وی ایچ پی نے 19؍اگست 1984 کو چھیڑا اور کچھ ہی سال کے اندر اس نے بابری مسجد منہدم کرانے میں کلیدی رول ادا کیا تھا ،جس کی زد میں آکر سینکڑوں لوگ ہلاک ہو گئے۔ وی ییچ پی اس جن کو بوتل سے بھر سے نکالنے کی کوشش میں ہے۔ رام لیلا میدان کی ریلی کا مقصد ایک بار پھر ہندوؤں کو مذہب کے نام پر غیر ہندوؤں کے خلاف کھڑا کرنا ہے۔تبھی تو وی ایچ پی کے لیڈروں نے رام لیلا میدان سے چیخ چیخ کر کہا کہ مندر تعمیر کا معاملہ 125 کروڑ ہندؤں کی’’ آستھا‘‘سے جڑا ہوا ہے ۔ ہندو اب اور انتظار نہیں کر سکتے ہیں۔ سرکار کو چاہیے کہ وہ رام مندر تعمیر راہ کو ہموار ارنے کے لئے آرڈیننس لائے۔
قومی انتخابات سے عین قبل عدالت عظمیٰ میں زیرسماعت رام مندر جھگڑے کو پھرسےچھیڑنا ایک خالص سیاسی مہم بازی ہے جس کا ’’آستھا ‘‘یا عقیدہ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ بلا شبہ یہ مدعا لوگوں کو بانٹنے اور آپس میں گتھم گتھا کر نےکی سازش ہے۔خود بھاجپا کے سینئر لیڈر اور مودی حکومت میں وزیر خارجہ ششما سوراج نے14 اپریل 2000کو تسلیم کیا تھا کہ رام جنم بھومی آندولن خالص سیاسی ہے اور اس کا دین دھرم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔میری حقیر رائے میں دھرم کو سچا ماننے والا دھرم کے نام پر کبھی سیاست نہیں کرتا ۔میرے نزدیک اگر کوئی سچے معنوں میں رام بھکت ہے وہ میری ماں ہیں جسے بچپن سے ہی میں نے بھگوان رام کی پوجا بڑے عجز وانکسار سے کرتے دیکھا ہے، آج تک کبھی بھی اس نے اکڑ کر ’’جے شری رام ‘‘نہ بولا۔ نہ ہمیں کبھی بھگوان رام کےنام پر تلوار یا ترشول اُٹھانے کو کہا ، نہ ہی کبھی اس بات کا بھولے سےذکر کیا کہ بھگوان رام کا مندرکسی مسلمان بادشاہ نے توڑا ہے۔ان کے جیسے سچے بھکتوں کے لیے رام ان کے دلوں کے تہ خانے میں بستے ہیں جسے لوگوں کی سیوا اور آدر سے پیار ہے۔ جب تک میری ماں جیسی مثبت سوچ اور حقیقی آستھا رکھنے والےہندو ملک میں زندہ ہیں، تب تک نقلی بھکتوں کے منفی عزائم کبھی پورے نہیں ہو ں گے۔کالم ختم کرنے سے پہلے ہندی کے مشہور شاعر عدمؔ گونڈوی کو یاد کرنا چاہوں گا، جن کے پیغام کو اگر شدت پسند عناصر اپنا لیں تو سارا جھگڑا ہی ایک پل میں حل ہو جائے ؎
ہندو یا مسلم کے احساسات کو مت چھیڑئے
اپنی کرسی کے لیے جذبات کو مت چھیڑئے
نوٹ :مضمون نگار جے این یو ، نئی دلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔