نوٹ یہ مضمون اُردو کے معروف نظریہ ساز نقاد حامدی کاشمیری کی تنقیدی تھیوری کے جائزے پر مبنی ہے۔ چونکہ پروفیسر حامدی کاشمیری چندروز قبل داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں ، اللہ ان کی مغفرت فرمائے ۔ اس مضمون کو مرحوم کے خراج عقیدت کے طورنذرِ قارئین کیا جارہاہے۔
حامدی کاشمیر ی ایک شخص ، ادیب یا منتظم کا نام نہیں بلکہ یہ ایک بھر پور عہد کا نام ہے جو ادبی،سماجی ،سیاسی ،ثقافتی ،لسانی اور علمی میدانوں میں متعدد تبدیلیوں کا چشم دید گواہ ہے اور جس کی پیشانی تغیر و تبدل کا ایک ایسا آئینہ ہے جس میں بر صغیر کا کوئی بھی شخص اپنا عکس دیکھ سکتا ہے۔حامدی کاشمیری نے اپنی ادبی زندگی کی صبح کو ادب پاروں کی تخلیق ، تفہیم اور تحسین میں شام کیا اور یوں لوح و قلم کی پرورش اُن کی زندگی کا جزو لایئنفک بن گیا ۔ ان کے ادبی کارنامے اپنی کثیر الجہتی اور کیفیت و کمیت کے اعتبار سے طلسم نہ سہی لیکن ہوش رُبا ضرور ہیں ۔انہوں نے افسانہ نگاری ،ناول نگاری ، شاعری ،سفر نامہ نگاری،خود نوشت سوانح نگاری کے میدانوں میں فنی اور فکری ،لسانی اور جمالیاتی پختگی کے ساتھ اپنی انفرادیت قائم کی ،جس کا سارا زمانہ قائل ہے ۔آپ نے کم و بیش ساٹھ کتابیں تصنیف کی ہیں جو آپ کی ادبی قد و قامت کا واضح اشارہ ہے ۔ آپ نے ادبی صحافت کے میدان میں بھی اپنی ادب شناسی اور ادب نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اَن مٹ نقوش ثبت کیے اور ’’ جہات ‘‘کے عنوان سے سہ ماہی ادبی جریدہ پیش کرکے ادبی صحافت کی تاریخ میں اپنا نام کنندہ کروایا۔علاوہ ازیں آپ کے منفرد ادبی و تنقیدی افکار و تجزیے کی ترسیل و تبلیغ بر صغیر کے موقر ادبی رسائل وجرائد کے صفحات پر عرصئہ دراز سے ہوتی رہی ہے ۔ تنقیدی میدان میں حامدی کاشمیری نے مروجہ اور روایتی تنقیدی نظریات سے برہمی کا اظہار کیا اور اپنی تنقیدی رائے کا سکّہ جمایا۔ ویسے بھی مروجہ اور روایتی تصورات و قوائد سے وہی بغاوت کر سکتا ہے جو فرسودہ اور پامال راستوں پر چلنے کا عادی نہ ہو اور جو اپنی غیر معمولی ذہانت و فطانت کو کام میں لاکر نئے قوانین اور اصول وضع کرتا ہے ۔حامدی صاحب کا تعلق اُسی قبیل سے ہے جس نے تنقید میں مروجہ طریق ہائے کار سے بیزاری کا مظاہرہ کر کے نئی تنقیدی تھیوری کو پیش کیا۔زیر نظر مضمون میں حامدی کاشمیری کی تنقید نگاری موسوم بہ اکتشافی تنقید کے اُن بعض مسائل پر حتی المقدور گفتگوکی جائے گی جو تخلیقی فن کاری سے متعلق حامدی کاشمیری کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہیں ۔
اس سے پہلے کہ یہاں پر حامدی کاشمیری کے تخلیق کاری سے متعلق نکات پر گفتگو کی جائے اِن کے تنقیدی نظرئیے ’اکتشافی تنقید ‘کے بنیادی مقدمات پر ایک سرسری نظر ڈالنا ضروری بن جا تا ہے۔ اردو میں بیسوی صدی کے ربع آخر میں یوں تو تنقیدی نظریات کی یورش نے عام قارئین کو پریشان سا رکھا تھا لیکن اس صورت حال نے اردو میں تنقید کو باضابطہ ایک شعبہ علم (Discipline) کے بطور اپنی شناخت قائم کرنے میں کافی حد تک مدد کی ۔
ثقافتی سطح پر ما بعد جدیدیت نے ۱۹۸۰ء کے آس پاس تخلیق ِادب سے لے کر تحسین ِادب تک کے جملہ مراحل کو انگیز کرنے کی کوشش کی جس نے ادب کی ماہیت کو متاثر تو کیا ہی ساتھ ہی ادب شناسی کے لیے کئی ایک تنقیدی نظریات پیش کیے جن میں پس ساختیاتی تنقید ،تانیثی تنقید ،نو مارکسی تنقید ،قاری اساس تنقید ، بین المتونی تنقید اور امتزاجی تنقید خاص طور سے قابل ذکر ہیں ، حامدی کاشمیری نے اس دوران اپنے تیس سالہ ادبی ریاض کے نچوڑ کے طور پر ادب فہمی کا اپنا نظریہ پیش کیا جسے اردو دنیا میں ’’اکتشافی تنقید ‘‘ سے موسوم کیا گیا ۔ موخر الذکر میں حامدی کاشمیری نے ادبی تخلیق کو کائنات کے حرکیاتی وجود سے مماثل قرار دیا اور اس ادبی تخلیق کے دوران وہ تنقید نگار سے غیر معمولی طور پر ذہین و فطین ہونے کا تقاضا کرتے ہیں ۔ اکتشافی تنقید میں نقاد اُس ’’تخیلی تجربے ‘‘ کے اکتشاف پر زور دیتا ہے جس سے تخلیق کار ادب پارے کی تخلیق کے دوران دو چار ہوتا ہے ۔ ’’ الغرض تخلیق کے رموزی تجربے تک رسائی حاصل کرنا اور قاری کو اس میں شریک کرنا بنیادی کام ہے ۔ یہ کام تخلیق کی لسانی اور ہیئتی ساخت کی تجزیہ کاری سے ہی ممکن ہے ۔‘‘
در اصل لسانی کار گزاری سے ایک ایسا ادبی فن پارہ معرض ِوجود میں آتا ہے جو تربیت یافتہ قاری اور خود تخلیق کار کے جمالیاتی ادراک و عرفان کے ایک ایسے منبع کے طور پر اپنی اہمیت منواتا ہے جس سے کئی نسلیں مستفیض ہوتی ہیں ۔ حامدی کاشمیری تخیلی تجربے تک رسائی حاصل کرنے کو اکتشافی نقاد کا بنیادی کام مانتے ہیںاور ان منازل سے گزر نے کے لیے وہ اس کا لائحہ عمل اس طرح مرتب کرتے ہیںـ:
’’ تجربے تک رسائی حاصل کرنے کے لئے نقاد کو تجزیہ کاری کی عمل آوری لازمی ہے۔میں نے عملی تنقید میں تجزیاتی طریقہ کار کو برتنے کی سعی کی ہے لیکن مروجہ تجزیہ نگاری سے ہٹ کر میں نے تجزیے کے اکتشافی عمل کو روا رکھا ہے ۔اس کی رو سے متن کے الفاظ کا تجزیہ اس طرح نہیں کیا جاتا کہ اِن سے معنی و مطلب کی کشید کی جائے ۔ایسا تجزیاتی عمل پورسٹ مارٹم کا عمل ہے جسے تخلیقی تجزیہ کاری رد کرتی ہے۔ تخلیقی تجزیہ کاری الفاظ کے رشتوں اور تلازموں کا ادراک کرکے ان کے باہمی تعمل سے ابھر نے والی ایک فرضی صورت حال کو دریافت کرتی ہے ‘‘۔
مذکورہ اقتباس میں حامدی صاحب متن کی جس تخلیقی تجزیہ کاری کی بات کرتے ہیں تو اس سے اِن کا تنقیدی مسلک تنقیدی ہوتے ہوئے بھی تخلیق اسا س معلوم ہوتا ہے ۔
حامدی کاشمیری اپنے نقطہ نظر کی وضاحت نہایت ہی مدلل اور مفصل انداز و اسلوب میں کرچکے ہیں بلکہ اس تنقیدی نظریے کے اطلافی نمونے انہوں نے یکے بعد دیگرے اپنی تصانیف ’’اقبال اور غالب‘‘ (۱۹۷۸ء)، ’’ناصر کاظمی کی شاعری‘‘ (۱۹۸۲ء) اور’’ کار گہہ شیشہ گری ‘‘ (۱۹۸۲ء) میں پیش کیے ہیں۔ حامدی کاشمیری نے اپنی کتاب ’’ناصر کاظمی کی شاعری ‘‘ میں شعر شناسی کا جو تصور پیش کیا ہے اور جس تجزیاتی حکمت عملی کو اپنا کر تحسینِ ادب میں منفرد راہ نکالی ہے وہ یقیناً مروجہ شعری تنقید سے مختلف بھی ہے اور ممتاز بھی ۔ اس کتاب سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ مندرجہ بالا اشعار میں ناصر کاظمی کا ذہن بے رنگ اور جامد حقیقت سے انقطاع کرکے تخیل کے نا دیدہ اور متنوع وقوعوں کا سامنا کرتا ہے ۔یہ وقوعے خواب و اسرار، مہم جوئی ، کشف، داستانویت ،کرب، آگہی،شعورِ ذات اور شعورِ فن کی تہہ در تہہ کیفیات کے خالق بن جاتے ہیں، اندازہ کر لینا چاہیے کہ ناصر کاظمی کا ذہن اپنے عصر کی گرفت سے نجات پاکر کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے، یہ اُن کے داخلی وجود کے آب و سراب کی مہم جویانہ سیاحت ہے ۔شعر نمبر (۱)
آج کی رات نہ سونا یارو!
آج ہم ساتواں در کھولیں گے
میں لفظوں کی ترتیب سے جوداستانوی مہم جوئی کی فضا تعمیر ہونی ہے وہ طائفہ یا ران کے ساتھ اس مہم پر نکلا ہے کہ وہ ایک ایک کر کے سات دروازے کھولیں گے اور اپنے گوہر مراد کو پالیں گے ۔۔۔۔ اُن کا گوہر مراد کیا ہے ؟ وصل محبوب ،تسخیر قلب ،حصول اقتدار ، جان بخشی ،کشف ذات ،شعور ِ فن ، ۔۔ یہ معنوی امکانات لفظوں کے سیاق و سباق سے پیوست ہیں ، ساتوں در کھولنا آسان نہیں ،یہی وجہ ہے کہ وہ سب دن دن بھر کی کڑی مشقت اور قسمت آزمائی کے با وجود کامیاب نہ ہو پائے اور رات کو تھک ہار کے سو جا تے ہیں۔ پہلے مصرع میں ’’آج کی رات ‘‘ پر زور ڈالنے سے یہ معنوی جہت ابھر تی ہے ، آج کی رات بھی حسب معمول وہ سب سونے کی تیاری کر رہے ہیں کہ شعر کا مرکزی کردار اچانک یقین آفرین لہجے میں سبھوں کومخاطب کرکے کہتا ہے کہ آج ہم ساتواں در کھولیں گے،لہجے کا یہ تیقن اُ س وقت پیدا ہوتا ہے جب انسان کشف ذات کی منزل سے گزرتاہے۔ رات کے اندھیرے میں ساتواں علامتی پیکر تخلیقیت کے اسرارکی جانب ذہن کو موڑتا ہے ۔‘‘
اس اقتباس سے حامدی کاشمیری کے اکتشافی نظریہ تنقید کے بنیادی امتیازات کی طرف ذہن ملتفت ہو جاتا ہے اور شعر کی تنقید کے ضمن میں مصنف (حامدی کاشمیری) کے تنقیدی اختصاص کی پزیرائی قاری پر واجب ہوجاتی ہے ۔ ’’ناصر کاظمی کی شاعری‘‘ اس نوع کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ حامدی کا شمیری نے جب یہ تصنیف کی اُس وقت اُن کے آئینہ ٔ ادراک میں بھی اکتشافی تنقید کا موہوم سا عکس نہیں تھا لیکن اِن کی اِس کتاب میں جو تنقیدی زاویے اور اندازے اختیار کیے گئے ہیں اُن کے ڈانڈے کسی نہ کسی سطح پر آگے چل کر اکتشافی تنقید سے جاکر ملتے ہیں اور موخر الذکر سابقہ تنقیدی تحریروں کا نہ صرف ارتقائی روپ ہے بلکہ اُن کی با ضابطہ اور با قاعدہ شیرازہ بندی کی ایک استدلالی اور فن کارانہ کوشش ہے۔ واضح رہے کہ حامدی کاشمیری کی زیر بحث کتاب (ناصر کاظمی کی شاعری) پہلی بار ۱۹۸۲ء میں ادبی اُفق پر نئی تنقیدی وضع داریوں کے ساتھ سامنے آئی تھی جب کہ ’’ اکتشافی تنقید کی شعریات ‘‘ ( جس میں انہوں نے مبسوط اور منضبط انداز میں اکتشافی تنقید کو اردو دنیا میں متعارف کرانے کا کام سر انجام دیا) ۱۹۹۸ء میں ادبی حلقوں تک پہنچ گئی ۔ اس زمانی بُعد سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ موصوف متواتر اور مسلسل اسی تنقید ی روش پر گامزن رہے جو آگے چل کراُردو میں ما بعد جدیدیت کے اہم نظریات کا حصہ بن گئی۔
میر تقی میر ؔ اردو شاعری کا نشانِ امتیاز ہیں ۔انہوں نے اپنی شاعری میں متنوع تجربات و مشاہدات کو جس فنی اور فکری پختگی ، لسانی اور جمالیاتی ادراک کے ساتھ کامیابی کے ساتھ پیش کیا ۔ اس ضمن میں دور دور تک ان کا کوئی ہمسر نظر نہیں آتا ۔بعینہ نقد ِمیر ؔکے میدان میں لکھنے والوں کی کثرت ضرور ہے لیکن شمس الرحمان فاروقی ،گوپی چند نارنگ ،قاضی افضا ل حسین اور حامدی کاشمیری جیسے لوگوں کے نام انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جنہوں نے میر ؔشناسی میں اپنے تنقیدی شعور اور فکری صلابت کا مظا ہر ہ کیا ۔شمس الرحمان فاروقی نے’’ شعر شورانگیز ‘‘، گوپی چند نارنگ نے’’ اسلوبیات ِ میر ‘‘ ، قاضی افضال حسین نے ’’میرؔ کی شعری لسانیات ‘‘ لکھ کر محمد حسین آزادؔ کے اُس مفروضے کو استردار عطا کیا جس نے میر تقی میر ؔ کے بسیار کلام کو ستّردو بہتر نشتروں تک محدود و مقید کردیا تھا ۔ حامدی کاشمیری نے اس میدان میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ’’کار گہہ شیشہ گری‘‘ پیش کی۔ حالاں کہ تقدم ِزمانی کے اعتبار سے حامدی کاشمیری کی کتاب کو اولیت حاصل ہوئی کیوںکہ یہ ۱۹۸۲ء ،میں شائع ہوئی جس نے میر ؔکی اہمیت و معنویت قائم کرنے میں خشت ِاول کا کام کیا ۔حامدی کاشمیری نے زیر نظر کتاب میں میرؔ شناسی کا جو طور قائم کیا وہ بہت دور تک اور دیر تک طالبان علم کے تشنہ قلوب و اذہان کو روشن کرنے کا کام کر ے گا ۔ تخلیق ِشعر کے مختلف مراحل کے ضمن میں حامدی کاشمیری مذکورہ کتاب میں لکھتے ہیں کہ :
’’کیا شاعر تخلیقی دنیا میں سانس لیتے ہوئے فوری طور پر تجربے کا ادراک کرتا ہے؟ ظاہر ہے ایسا ممکن نہیں ، یہ سمجھنا درست نہیں کہ شاعر کے ظاہری آنکھ بند کرنے کی دیر ہوتی ہے کہ تخیل اپنے سارے گنج و اسرار کھول دیتا ہے اور صرف اس کے دستِ طلب بڑھانے کی دیر ہوتی ہے ، معاملہ یہ ہے کہ چشم باطن وا کرکے شاعر تجسس کے ایک پر کشش مگر جان کاہ عمل سے گزرتا ہے ، یہ جذبہ تجسس اُسے سایہ در سایہ فضا میںکسمساتی ہوتی ہے ، چہرہ گریزان پرچھائیو ں کے تعاقب اور شناخت پر آمادہ کرتا ہے ، اور بیک وقت اِن کی پیکری تجسم کی ذہنی اور لسانی جد و جہد سے گزر نا ہے ۔
اسسٹنٹ پروفیسر، نظامت فاصلاتی تعلیم کشمیر یونیورسٹی، حضرتبل، سرینگر۔۱۹۰۰۰۶
اِی میل : [email protected],موبائل : 9419763548
(باقی باقی)