جہاں موسم سرما شروع ہوتے ہی وادی کشمیر میں بجلی کی غیر معینہ کٹوتی پر ہاہاکار مچی ہوئی ہے وہیں صوبہ جموں کے پہاڑی اور دوردراز علاقہ جات میں صورتحال اس سے کچھ مختلف نہیں اور ان علاقوں میں نہ ہی بجلی سپلائی کرنے کاکوئی شیڈیول موجود ہے اور نہ ہی بجلی کٹوتی کا ۔صوبہ کے خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں محکمہ بجلی موسم گرما میں بھی کسی شیڈیول پر عمل پیرا نہیںرہتالیکن موسم سرما میں بجلی کٹوتی کی پریشانی اور بھی بڑھ جاتی ہے اور اس بار یہ بحران زیادہ ہی شدید ہوگیاہے ۔بجلی کی غیر اعلانیہ کٹوتی پر آئے روز احتجاج اور مظاہرے ہورہے ہیں اور لوگ محکمہ سے شیڈیول کے مطابق سپلائی کی مانگ کررہے ہیں مگر اس نظام میں بہتری کے بجائے دن بدن ابتری آتی جارہی ہے۔ان دونوں خطوں میں بجلی کا نظام ہمیشہ ناقص رہتاہے اور موسم سرما آتے ہی اس میں مزید خرابیاں پیدا ہوناشروع ہوجاتی ہیں اور امسال بھی ایسا ہی کچھ دیکھاجارہاہے۔ہر ایک علاقے سے ایسی شکایات مل رہی ہیں کہ محکمہ کی طرف سے من مرضی کے مطابق گھنٹوں کٹوتی کی جارہی ہے اور کئی علاقوں میں تو چوبیس میں سے دس گھنٹے بھی سپلائی نہیں کی جارہی، جس سے نہ صرف لوگوں کاکاروبار اور معمولات زندگی متاثر ہورہے ہیںبلکہ طلباء کی تعلیم بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ طلباء کے امتحانات قریب ہیں اور وہ ان ایام میں اپنی تمام تر توجہ پڑھائی پر مرکوز کرتے ہیں لیکن رات کے وقت انہیں پڑھنے کیلئے بجلی فراہم نہیں ہوتی، جس سے ان کا تعلیمی طور پر زبردست نقصان ہورہاہے، جو آگے چل کر ان کے مستقبل کو تاریک بناسکتاہے۔اگرچہ مرکزی معاونت سے ریاستی حکومت کی طرف سے آر جی جی وی وائی ، سوبھاگیہ اور دیگر متعدد سکیمیں چلائی جارہی ہیں جن کا مقصد ریاست کے ہر ایک گھر تک برقی رو کی سہولت فراہم کرناہے اور حال ہی میں ریاستی انتظامیہ نے سوفیصد کنبوں کو بجلی فراہم کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے اسے ملک بھر میں بہت بڑی کامیابی قرار دیالیکن خالی ترسیلی لائنیں کھینچ لینے اور لکڑی کے کھمبے نصب کرلینے سے اس نظام میں بہتری نہیں آسکتی بلکہ اس کیلئے سپلائی اور طلب میں پائی جانے والی تفاوت کو دور کرناہوگا،جس کی طرف بدقسمتی سے کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ریاست کے پہاڑی علاقوں میں جس قدر بجلی سپلائی کا نظام ناقص ہے اسی قدر ان علاقوں میں بجلی کا بنیادی ڈھانچہ بھی غیر مستحکم ہے ۔اگر گائوں دیہات میں صورتحال کا مشاہدہ کیاجائے تو آج کے اس جدید دور میں بھی ترسیلی لائنیں سرسبز درختوں سے لٹکتی نظر آتی ہیں اور سیمنٹ یا لوہے کے کھمبوں کے بجائے لکڑی کے عارضی کھمبے نصب کئے گئے ہیں جو انسانی جانوں کیلئے ایک بڑا خطرہ ہے ۔ساتھ ہی یہ امر بھی پریشان کن ہے کہ ان علاقوں میں بجلی ٹرانسفارمر کے خراب ہونے پر اس کی ہفتوں بعد بھی مرمت نہیں کی جاتی ۔زبانی دعوے کرنے سے نظام تبدیل نہیں ہوجائے گابلکہ اس کیلئے سنجیدگی سے عملی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور جہاں بجلی کے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم بنایاجائے وہیں سپلائی کے شیڈیول پر عمل کیاجائے ۔یہاں ریاست کے ہر ایک شہری کے ذہن میں یہ سوال ابھرتاہے کہ جب ہرسال نئے نئے پروجیکٹوں کے شروع ہونے سے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہورہاہے تو پھر کیوں سپلائی کا نظام دن بدن خراب ہوتاجارہاہے اورایسے اضلاع کو بھی ان کا حق نہیں ملتا جن کے قدرتی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے یہ پروجیکٹ تیار کرکے ان سے پیدا ہونے والی بجلی سے بیرونی ریاستوں کو روشن کیاجارہاہے ۔