2019 میں دمشق سے کابل اور کراچی سے کراکرم کی وادیوں تک تبدیلی کی لہرصاف نظر آئے گی۔ دنیا کے واحد سپرپاور امریکہ نے افغانستان میں سولہ سال اور شام میں گیارہ سال تک جو جنگیں لڑیں ڈونلڈ ٹرمپ نے اِن میں واشنگٹن کی شکست کا بالواسطہ اعتراف کرکے گویا ان تبدیلیوں کا سنگ بنیاد رکھ دیا۔ کشمیر میں بھی جوں کی توں حالات (Status quo)تبدیل کرنے کے لئے کئی سطحوں پر کوششیں جاری ہیں۔ عسکری اور سیاسی مزاحمتی حلقوں کا خیال ہے کہ قربانیوں کی وجہ سے عالمی ضمیر جاگ جائے گا اور بھارت کو کشمیر چھوڑنا پڑے گا، پاکستان کا خیال ہے کہ جنوب ایشیا میں تیزی سے بدلتے طاقت کے توازن کو بھارت کے خلاف بارگین کے طور استعمال کرتے ہوئے نئی دلی کو مذاکرات کی میز پر گھسیٹا جاسکتا ہے، اقتدارنواز کشمیری حلقوں کا خیال ہے کہ انتخابات میں لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تو دلی والوں کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ کشمیریوں سے چھینی گئی اُن کی خودمختاری انہیں لوٹا دیں۔ کیا ان سب میں سے ایک بھی تبدیلی سالِ نو میں ظہور پذیر ہوگی؟
کشمیر میں قیام امن یا زمینی حقائق کی تبدیلی کا دارومدار اکثر حلقے بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی نوعیت میں دیکھتے ہیں۔ گو یہ بھی ایک اہم محرک ہے، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ گزشتہ دو سو سال سے افغانستان کے حالات کشمیر کو متاثر کرتے آرہے ہیں۔ بعض فوجی جنرلوں اور پولیس افسروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ فی الوقت افغانستان میں طالبان کی سفارتی اور عسکری جیت کشمیری عسکریت پسندوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی۔ کشمیریوں کی شومئی قسمت کہ جب جب افغانستان جنگ و جدل میں اُلجھا رہا ہے تب تب کشمیر میں نسبتاً امن رہا ہے، اور جب جب افغانستان میں امن کی فضا بحال ہوئی ہے، تب تب کشمیر میں افراتفری، خون خرابہ، کشیدگی اور غیریقینی کا ماحول پیدا ہوا ہے۔ تاریخ کے اس پیٹرن پر ایک سرسری نظرڈالتے ہیں۔
1839میں جب برطانیہ نے رُوسیوں کا نفوذ روکنے کے لئے افغانستان پر حملہ کیا تو کشمیر سکھ حکمرانوں کے تحت تباہ کن قحط سے سنبھل رہا تھا۔ سکھ حکومت نے قحط سے متاثر کسانوں کو بغیرسود قرضے دئے اور زمینوں پر ٹیکس کی شرح میں پچاس فی صد کٹوتی کردی۔ کشمیر تو گویا ایک زرعی انقلاب کی دہلیز پر تھا۔ لیکن افغانستان میں جونہی لندن اور کابل کے درمیان سمجھوتہ ہوکر 1842کا سیز فائر ہوگیا تو کشمیر پر ڈوگرہ آمریت کاسوسالہ قہر نازل ہونے کی تیاری بھی شروع ہوگئی۔ 1846میںانگریزں نے سکھ دور کا خاتمہ کردیا اور مہاراجہ گلاب سنگھ کو یہ خطہ مع آبادی نقد رقم اور چند تحائف کے عوض عملاً بیچ دیا گیا۔ اس طرح کابل میں امن کا قیام کشمیر میں مذہبی جبر، بے گار اور ظلم و ستم کی نوید لے کرآیا۔
1878میں برطانیہ نے پھر افغانستان پر حملہ بول دیا ۔ لیکن اِدھر کشمیر میں انگریزوں نے مہاراجہ رنبیر سنگھ پر دباؤ بڑھایا کہ کشمیر میں ظلم و زیادتیوں کی شکایات آرہی ہیں لہذا سرینگر میں انگریزوں کا ایک پولیٹکل ریذیڈنٹ یعنی سفیر تعینات کیا جائے۔ دوسری طرف سرینگر میں بسکو سکول، میلن سن سکول اور اسلامیہ ہائی سکول کی بنیادیں اُستوار ہوئیں اور جب پرتاپ سنگھ کشمیر کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے،تو نہ صرف یہ کہ انگریز ریذیڈنٹ نے باقاعدہ عہدہ سنبھالا بلکہ کشمیر میں تعلیم کا نشاۃ ثانیہ شروع ہوگیا۔
1919میں برطانیہ نے افغانستان پر پھر حملہ کردیا۔ کشمیر کے نوجوان لاہور اور علی گڑھ کی یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم تھے۔ افغان جنگ کے دوران لگتا تھا کہ اب مہاراجہ مسلمانوں کے حقوق سے متعلق حساس ہیں۔ لیکن کابل میں سیز فائر ہوا تو دستکاروں پر ظلم کی انتہا ہوگئی اور چند برسوں کے دوران ہی انہوں نے باقاعدہ مزاحمت شروع کردی۔ ریشم خانہ پر فوج کشی اور ذالڈگر میں شالبافوں کو غرقاب کرنے کے واقعات ابھی قوم فراموش نہیں کرسکی ہے۔
پھر جب 1979میں سویت یونین کی فوجیں کابل کے ریگ زاروں پر چڑھائی کررہی تھیں تو کشمیرمیں تعمیر و ترقی، صحت عامہ اور تعلیم کے شعبوں میں ترقی کے نئے ابواب لکھے جارہے تھے۔اُھر ایک سپرپاور نے 1989میں طالبان کے آگے گھٹنے ٹیک دئے، اِدھر کشمیراپنی تاریخ کے سب سے نمایاں اور خونین انقلاب سے ہمکنار ہوگیا۔ ہلاکتوں اور خوں آشامی کا یہ سلسلہ کئی سال تک چلا۔ لیکن 1996میں طالبان کی فتح کے ساتھ کشمیرنہ صرف اقتدارنوازوں کے ظلم و جور اور فریب کاری کے چنگل میں پھنس گیا بلکہ جبری گمشدگیوں، سیاسی ہلاکتوں، عصمت ریزیوں ، گرفتاریوں اور ٹارچر کا ایک طویل سلسلہ چل پڑا۔
2001 میں امریکی ٹوِن ٹاورز پر حملوں کے فوراً بعد امریکی افواج نے افغانستان پر چڑھائی کردی۔ اس بیچ پاکستان میں پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ اُدھر افغانستان میں طالبان اور امریکہ کے درمیان گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور اِدھر کشمیر میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی برف پگھلنے لگی، پی ڈی پی کی صورت میں ایک نیا متبادل سامنے آیا، لوگ اقتدار کی سیاست پر اعتبار کرنے لگے، ظلم و ستم میں نستباً کمی آگئی، ہلاکتوںکا سلسلہ قدرے تھم گیا اور ایسا لگتا تھا کہ کشمیر دھیرے دھیرے پٹری پر آرہا ہے۔
جب افغانستان میں سیاسی استحکام پیدا ہونے لگا اور طالبان جنگجوؤں کی پسپائی واضح ہوگئی اور ملک میں انتخابات کرائے گئے تو 2008میں کشمیر پھر ایک خونین چوراہے پر تھا، جہاں ایک طرف بے لگام فورسز کی گولیاں اور آہنی چھرے، دوسری طرف کشمیریوں کی تہذیبی شناخت کو مسخ کرنے کے درپے ڈیپ سٹیٹ کے خفیہ اور عیاں حربے، تیسری طرف بے بس عوام کی یکطرفہ قربانیاں اور چوتھی طرف عالمی اداروں کی طویل خاموشی تھی۔ غور کیجئے 2016سے رُوس، جرمنی، پاکستان وغیرہ نے طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کی کاوشیں شروع کردی ہیں، اور اُسی سال سے کشمیر بھی دہک رہا ہے۔
ایک بار پھر افغانستان میں طالبان کی شمولیت کے ساتھ وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں،جسکے بعد امریکی افواج کا انخلا طے ہے ۔ جنگوں کے خارجی اثرات ہر بار یکساں نہیں ہوتے۔ لیکن تاریخ سے افغانستان اور کشمیر کے حالات کا جو پیٹرن دکھائی دیتا ہے، اُسے دیکھتے ہوئے اس سوال کا جواب مشکل نہیں لگتا کہ کشمیریوں کے لئے 2019خدشات کی سونامی ہوگا یا اُمید کی بہار!
افغانستان میں یہ تازہ تبدیلی ایسے وقت آئی ہے جب بھارت امریکہ اور چین کے درمیان متذبذب ہوکر رہ گیا ہے، اور چین اب کوئی پراسرار قوت نہیں رہا، بلکہ اب وہ معاشی برتری کے ساتھ ساتھ اپنے عسکری دبدبے کا برملا اظہار کرنے لگا ہے۔ ایسے میں اگر تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے، اورپاکستان کشمیر کی جنگ کو نئے انداز سے دہکانے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو آئندہ سال خوف، دہشت اور خوں آشامی کے مہیب سایوں سے عبارت ہوگا۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت بار بار نئی دلی کو مذاکرات کی پیشکش کررہی ہے۔ کیا یہ باتیں آن ریکارڈ رکھی جارہی ہیں، کہ ’’بھائی ہم نے تو کافی منت سماجت کی تھی کہ بات ہی کرتے ہیں، لیکن آپ نے ہٹ دھرمی دکھائی اور بس چھوٹ گئی ہے اور بھگت لیجئے!‘‘ کیا اس نفسیاتی جنگ میں پاکستان کو جیت ہوگی؟ کیا بھارت اپنی سٹیکس کو دیکھتے ہوئے خارجہ پالیسی کو ہندوتوا سے الگ کرکے ملکی مفاد میں کوئی بڑا قدم لے گا؟ کیا کشمیر ایک باقاعدہ اور خطرناک ملی ٹنسی کی دہلیز پر ہے؟ ۔
ظاہر ہے پاکستان کے مقابلے بھارت کی افواج عرصہ دراز سے باقاعدہ جنگ سے دُور رہی ہیں۔ یہ فوج کشمیر میں ناتجربہ کار عسکریت پسندوں کو مارنے اور سنگ بازوں کے ساتھ لڑنے کی عادی ہوچکی ہے۔ یہ خیال اب بھارت کی عسکری قیادت میں تقوت پاچکا ہے کہ ملک کی افواج کو ایک باقاعدہ جنگ کی ضرورت ہے، تاکہ کل کو چین کے ساتھ لڑنا پڑا تو فوجیں تیار ہوں۔ پاکستان پر کسی چھوٹے موٹے حملے کا بھی چانس نظر نہیں آتا۔ ایسے میں بعض مبصرین کو لگتا ہے کہ کابل کی تبدیلی سے اگر کشمیر ایک محدود وارزون میں تبدیل بھی ہوتا ہے ، تو بھارتی فوج کے لئے یہ مشق کا سامان ہوگا۔ اور پھر فوج کو پہلے ہی لامحدوداختیار حاصل ہیں۔ فوجی سربراہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ کشمیر میں ڈرون حملے کئے جاسکتے ہیں، کمانڈوز پہلے ہی یہاں سرگرم ہیں۔ ان تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ سال نہایت پیچیدہ صورتحال کو جنم دے رہا ہے، جس میں حالات کا اُونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔
بشکریہ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر