’’ کیا شاعر تخلیقی دنیا میں سانس لیتے ہوئے فوری طور پر تجربے کا ادراک کرتا ہے؟ ظاہر ہے ایسا ممکن نہیں ، یہ سمجھنا درست نہیں کہ شاعر کے ظاہری آنکھ بند کرنے کی دیر ہوتی ہے کہ تخیل اپنے سارے گنج و اسرار کھول دیتا ہے اور صرف اس کے دستِ طلب بڑھانے کی دیر ہوتی ہے ، معاملہ یہ ہے کہ چشم باطن وا کرکے شاعر تجسس کے ایک پر کشش مگر جان کاہ عمل سے گزرتا ہے ، یہ جذبہ تجسس اُسے سایہ در سایہ فضا میںکسمساتی ہوتی ہے ، چہرہ گریزان پرچھائیو ں کے تعاقب اور شناخت پر آمادہ کرتا ہے ، اور بیک وقت اِن کی پیکری تجسم کی ذہنی اور لسانی جد و جہد سے گزر نا ہے ۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تخیلی حقیقت جو جذبہ تجسس کو مہمیز کرتی ہے، ہزاروں پردوں میںپنہاں ہے اور گریز پا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لئے شاعر کا کام بہت مشکل ہے ، اسے پوری شعوری بیداری کے ساتھ لفظ و پیکر کے ایسے صوتی نظام کی تشکیل کرنا ہے، جو اُس عجلت کار اور غیر مرئی لمحہ نور کی تجسیم کرے یہ عمل و اقعاتاً مہم پسندی کا ایک صبر آزما اور جگر گداز عمل ہے جو با لآخر جمالیاتی مسرت انگیزی پر منتج ہوتا ہے ‘‘
مذکورہ اقتباس میں حامدی کاشمیری نے ایک جنیوئن شاعر کے لیے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے اور لسانی ،ادبی،جمالیاتی اور فنّی سطح پر وہی شاعر اپنے تخلیقی خانوں میں رنگ بھر سکتا ہے جس میں یہ اوصاف بہ تمام وکمال موجود ہوں گے۔ حامدی نے تخلیق کے لیے ایسے اوصاف کا انتخاب اس لیے کیا ہے کیوںکہ وہ خود ایک تخلیق کار کی حیثیت سے ادبی حلقوں میں اپنی اہمیت منواچکے ہیں ۔ زیر بحث کتاب’’کار گہہ شیشہ گری ‘‘میں میرؔ کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں :
’’ان (میرؔ )کی کائنات آگہی ،جواسرا ر ِسر بستہ کا کھوج لگاتی ہے اور انکشاف ،حیرت اور گمشدگی کو راہ دیتی ہے ،ان کی’’صاحبِ نظری ‘‘کی توثیق ہوتی ہے ؎
برسوں لگی ہوتی ہیں جب مہر و مہ کی آنکھیں
تب ہم سا کوئی صاحب ، صاحبِ نظر بنے ہے
ان کی نظر حقائق کی گہرائیو ں میں اتر تی ہے ،یہ نظر اس وقت شعری اکتشاف بن جاتی ہے جب فکر اور جذبے کے اتصال ِباہم سے تجربہ وجود میں آتا ہے ‘‘
حامدی کشمیری کی اکتشافی تنقید کا بنیادی سروکار تخلیق کے اس تخیلی تجربے کے اکتشاف سے ہے جس سے تخلیق کار فن پارے کی تخلیق کے دوران دوچار ہوتا ہے ۔میرؔ کے ایک شعر کی تفہیم وتعبیر میں انہوں نے اکتشافی تنقید کا اطلاق کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’میر نے خود کہا ہے ؎
صورت پرست ہوتے نہیں معنی آشنا
ہے عشق سے بتوں کے مرا مدعا کچھ اور
گویا وہ کسی معین یا واضح خیال کا اظہار کرنے کے بجائے ایک مخصوص اور نادر معنوی صورت حال کو خلق کرتے ہیں ۔ان کے گہرے فنی ادراک کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا کہ وہ کسی تبصرے یا رائے زنی کے بغیر ہی قاری کا اس سے سامنا کراتے ہیں اور خود غائب ہو جاتے ہیں۔ اُ ن کے اشعار میں لفظی ترتیب سے نموپزیر تجربے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تخیل کی سایہ آلود اور تجریدی دنیا میں اپنی قوتوں کے امکا نی ارتکاز سے ایسے ناگزیر اور مترنم الفاظ وضع کرتے ہیں جو اس استعجا بیہ اور گریز اں صورت حال کو اپنی گرفت میں لاتے ہیں جو ان کی چشمِ باطن کے سامنے واضح ہورہی ہے۔یہ الفاظ لعل و گہر کی طرح دھمکتے ہیں اور نورانی ارتعاشات کو خلق کرتے ہیں ‘‘۔
اسی طرح حامدی کاشمیری درج ذیل شعر ؎
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیمارئی دل نے آخر کام تمام کیا
کی تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے ـ:
’’ اس شعر میں پہلا مصرعہ یعنی الٹی ہوگئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مایوسی کی کیفیت سے مملو ہے اور محرومی کے نرم بیا نیہ اور شناسا لہجے کو روا رکھتا ہے ، لیکن دوسرے مصرعے میں ’’دیکھا‘‘ پر قدرے زور ڈالنے سے مخاطب کا لہجہ ابھر تاہے اور ’’سب تدبیریں ‘‘ کو ذہنی پس منظر میں رکھ کر تیمارداروں اور غمگساروں کے ہجوم سے مخاطب ہونے کا شخصی لہجہ ابھرتا ہے۔ ’’دیکھا‘‘ کو قدرے بہ زور ادا کرنے سے شعری کردار کے لہجے کے طنزیہ اور خود آگاہانہ انداز کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے ، دوسرے مصرعے کے آخری ٹکڑے یعنی ’آخر کام تمام کیا ‘ سے شعر خموشیٔ مرگ کی تعبیر کرتا ہے ۔‘‘
مذکورہ بالا اقتباسات کے مطالعہ کے بعد یہ اندازہ لگاناقدرے آسان ہو جاتا ہے کہ حامدی کاشمیری نے شعر فہمی کا نیا انداز وضع کیا ہے ۔اب جہاں تک اکتشافی تنقید کے اطلاق کی بات ہے تو’’ ناصر کاظمی کی شاعری‘‘ اور ’’ کار گہہ شیشہ گری‘‘ سے اخذ کیے گئے اقتباسات کے بالاستعیاب مطالعہ سے اِ ن کی تنقید ی تھیوری کا عملی تعارف سامنے آتا ہے اور اس تنقیدی نظر یہ کے جز وی یا کلی اطلاق کا فیصلہ قارئین کرام کی صواب دید آگہی پر چھوڑا جاسکتا ہے ۔تاہم اِ ن کی تنقیدی روش دور ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے جہاں پہنچنا ہر کس و نا کس کی بات نہیں ہے ۔ یہاں پر اس بات کی چندان ضرورت نہیں کہ حامدی کاشمیری نے کثیر تنقیدی نظریات کی موجود گی میں اپنا تنقیدی نظریہ کیوں پیش کیا یا اُن کو مروجہ تنقیدی نظا م کی نارسائی میں کیسی گھٹن محسوس ہورہی تھی ، تاہم اُن کے قائم کردہ ڈسکورس نے اردو تنقید کے ٹھہرے ہوئے پانیوں میں کسی قدر ہلچل ضرور پیدا کردی ۔اردو کے سر بر آوردہ ناقدین مثلاً گوپی چند نارنگ ، شمس الرحمان فاروقی ،وزیر آغا ،وہاب اشرف،عتیق اللہ، قاضی افضال حسین وغیرہ نے اُن کے نظریہ نقد پرکھل کر مباحثے اور مکالمے قائم کیے اور سیّد محمد عقیل، فضل امام اور قمر رئیس نے یہاں تک کچھ اعتراضات بھی قائم کیے جو اس تنقیدی نظریہ کی علمی اور ادبی اساس ہونے پر دال ہیں ۔ ان کی تنقیدی بصیرت پر اردو کے ایک معتبر اور نظریہ ساز نقاد پروفیسر وزیر آغا کو کہنا پڑا کہ :
’’ پچھلے برسوں میں ڈاکٹر حامدی کاشمیری نے اکتشافی تنقید کی تر کیب وضع کرکے نہ صرف اس کے امتیازی خطوط کو واضح کیا ہے بلکہ اپنی عملی تنقید میں بھی اسے آزمایا ہے ‘‘
جہاں تک تخلیق کاری کے عمل میں حامدی کاشمیری کے موقف کا تعلق ہے وہ تخلیق ِشعر کے تفاعل کو شاعر کا انفرادی اظہار مانتے ہیں اور اس تخلیقی جذبے کو نا قابل تسخیر مان کر اسے کائناتی حیثیت عطا کرتے ہیں ۔ جس طرح کائنات اپنے آپ میں مختلف عناصر کی متوازن اور متناسب ترتیب و تنظیم اور تشکیل و تعمیر کا نام ہے اُسی طرح ایک تخلیقی فن کار کے باطن میں نادیدہ صوتوں اور وقوعوں کی قلب ماہیت کا عمل جاری و ساری رہتا ہے اور جب تخلیق کار اِن عناصر کو اپنے وجدان کی بھٹی میں تاپ کر کندن بناتا ہے اور اپنے فنی اور جمالیاتی شعور و ادراک کے مطابق اُسے منصہ شہود پر لاتا ہے تو وہ داد و تحسین وصول کر کے شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں اپنی نشست مخصوص کرلیتا ہے ۔ دراصل اس سارے کھیل کا مرکز و محور فن کار کا تخلیقی پوٹینشل ہے ۔ اس حوالے سے حامدی کاشمیری کا یہ اقتباس کئی اعتبار سے قابل توجہ ہے :۔
’’ یہ تخلیقی توانائی ہی کا فیضان ہے کہ شاعر زبان پر متصرف ہوکر اپنے لئے ایک مناسب و موزون ذریعہ اظہار کے طور پر برتنے پر قادر ہوجاتا ہے۔ اسی طرح موسیقار کو اس کی بدولت صوت و صدا کے زیر وبم کو خلق کرنے کی صلاحیت نصیب ہوتی ہے ۔ رقاصہ اسی کے زیر اثر اپنے خوبصورت جسم کو متوازن حرکتوں کے طفیل بجلیوں کی نمود سے آشنا کرتی ہے ۔ مصور اسی سے تحریک پا کر رنگوں کی آمیزش سے متنوع صورتوں کو خلق کرتا ہے اور سنگ تراش پتھروں کی ہیئت سازی میں ’’ رقصِ بتان آزری‘‘ کا تماشا کرتا ہے ، اسی طرح شاعر اپنے ذریعہ اظہار یعنی زبان پر قادر ہو کر اپنی تخلیق قوت کو لفظ و پیکر میں پیش کرتا ہے ‘‘۔
یہ تخلیقی توانائی فنکار کو معمولی سے غیر معمولی اور فانی سے لا فانی بنانے کا کام انجام دیتی ہے ۔ حامدی کشمیری فن کار کے وجود کوکارگہہ شیشہ گری سے کم اہمیت نہیں دیتے بلکہ اس کے تخلیقی فن کاروں کے تجزیاتی مطالعہ میں بھی وہ فن کار کے باطن تک رسائی حاصل کرنے پرنا دانستہ طور پر اشارہ کرتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں اکتشافی نقاد اور نفسیاتی نقاد کی سرحدیں مٹ جاتی ہیں ۔ دونوں فن کارتخلیقی متن کے علامات، استعارات اور دوسرے ادبی وسائل کے ذریعے فن کار کی اُن ناکتخدا آرزوئوں اور امنگوں ،حسرتوں اور نا امید یوں تک یکسان طور پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور منزل پر پہنچ کر اکتشافی نقاد لسانی تشکیلیت سے ابھرنے والی اُن کیفیات اور تخیلی تجربات کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتا ہے جو بقول حامدی کاشمیری تخلیق کا جوہر ہوتے ہیں جب کہ نفسیاتی نقاد الفاظ اور علامتوں کے راستے سے تخلیق کار کی ذہنی اُپج اور داخلی تہوں اور طرفوں تک رسائی حاصل کرتا ہے۔
شعری تخلیقیت کی ماہیت کے ضمن میں حامدی کشمیری فن کار کے انفرادی وجود کا قائل ہے لیکن وہ شاعری کو شاعر کے شخصی کوائف ، نفسیاتی الجھنوں اور داخلی مسائل و میلانات کا اظہار ماننے میں تامل سے کام لیتے ہیں بلکہ اُن کے مطابق :
’’ شاعری تکمیل پزیر ہوکر ایک آزاد اور حرکی وجود کی حامل ہوجاتی ہے ۔ اس نظریئے کی رو سے شاعری کی مقصدیت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ لسانی تشکیلیت سے ایک تخیلی تجربہ خلق کیا جائے، جو جمالیاتی اور تفکیر ی امکانات کو خلق کرنے پر قادر ہو ، اس مقصد کے علاوہ اس سے کسی اور سماجی ،اصلاحی یا سیاسی مقصد کے حصول پر زور دینا اس کی ماہیت سے چشم پوشی کرنے کے مترادف ہے ‘‘ ۔
حامدی کاشمیری نے لسانی تشکیلیت سے تخیلی تجربہ خلق کرنے کی ذمہ داری نقاد کے کندھوں پر ڈالی ہے ۔ اور اس طرح اکتشافی تنقید کی تخلیقیت اساس خصوصیت پر ہماری نظر مرتکز ہو جاتی ہے ۔ یہ بات بھی خاطر نشان رہے کہ نقاد تخلیق کار کے باطن کی گھتیوں کو لسانی ذرایعہ سے کیسے سلجھا سکتا ہے ؟ کیوںکہ انسان کا باطن ایک ایسی پر اسرا ر دنیا ہے جس کا کولمبس ابھی تک پیدا نہیں ہوا ۔باطن کے پُراسرار عالم کی طرف مرزا غالبؔ نے بہت ہی خوب صورت اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے ؎
کوئی آگاہ نہیں باطنِ ہم دیگر سے
ہے ہر فرد جہاں میں ورقِ ناخواندہ
حامدی کاشمیری نے اکتشافی تنقید کی شعریات میں اپنے تنقیدی نقطہ نظر کی وضاحت بہت ہی شرح و بسط کے ساتھ کی ہے ، نیز اپنی پہلی تنقیدی کتاب ’’معاصر تنقید : ایک نئے تناظر میں ‘‘ پر کیے گئے اعتراضات کا بھر پور اور مکمل جائزہ لینے کی علمی انداز میں کوشش کی ہے ۔ اِن کے تنقیدی نظریہ پر کیے گئے اعتراضات اور اُن کے جوابات کے تفصیلی مطالعہ کے بعد راقم الحروف اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ حامدی کاشمیری کے پیش کردہ ’’ اکتشافی تنقید‘‘ کو مروجہ تنقید ی نظریات سے الگ دیکھنا ہوگا تبھی ہم غیر جانبداری کے ساتھ حامدی کاشمیری کی تنقیدی خدمات کا شناخت نامہ تیار کر سکتے ہیں ۔
انہوں نے ادب شناسی میں جس پیرا ڈائم شفٹ کا مظاہرہ کیا ہے وہ اُن کے وسیع المطالعہ ذہن ، غیر معمولی تخلیقی بصیرت اور ادبی روایات و اقدار سے مکمل آگہی کا غماز ہے ۔اکتشافی تنقید کے ضمن میں جو سوالات ابھرتے رہے ہیں وہ اس نظریے کی صحت مندی کی جانب خوبصورت اشارہ کرتے ہیں ۔ میری ناقص رائے میں اکتشافی نقاد تنقیدی اصول و روایات سے بہرہ مند ہونے کے علاوہ تخلیقی قوت سے بھی مزین ہونا چاہیے ، تبھی وہ تخلیقی متن میں مضمر اُس تخیلی تجربے کا اکتشاف کر سکتا ہے جو زبان کے غیر معمولی تخلیقی استعمال سے معرض وجود میں آتا ہے ۔گویا تخلیقیت ہی تخیلی تجربے کے اکتشاف کے لیے راستہ ہموار کرتی ہے ۔ وزیر آغا نے نہایت خوب صورتی اور ذمہ داری کے ساتھ حامدی کاشمیری کی اکتشافی تنقید کے تخلیقی عنصر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’’اصلا ًیہ ایک عارفانہ روّیہ ہے جو مظاہر کے کنہ میں موجود اس پرُ اسراریت کو دریافت کرنے کی کوشش میں ہے جس کی کوئی نہایت نہیں اسے غیب بھی کہا جا سکتا ہے ‘‘۔
(ختم شدہ)
اسسٹنٹ پروفیسر، نظامت فاصلاتی تعلیم کشمیر یونیورسٹی، حضرتبل، سرینگر۔۱۹۰۰۰۶
اِی میل : [email protected],موبائل : 9419763548