سرینگر //آبی گذر لال چوک میں ملبوسات کی معروف دکان’لارک‘ کے پاس خریداروں کا بھاری رش لگا ہوا ہے ۔اس بار یہاں مخصوص طرز کے ’فیرن‘ کی زبردست مانگ ہے اور لوگ جوق در جوق یہاں چینی کپڑے سے تیار فیرن خریدنے میں کافی دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔آبی گذر کے علاوہ پائین شہر اور سرینگر کے دیگر مقامات پر بھی چینی ساخت کے مخصوص کپڑے سے تیار کئے جانے والے فیرن کی طرف خریداروں کا کافی میلان نظر آرہا ہے ۔’فہرن‘ جو کشمیر کی روایت و ثقافت کے ساتھ ساتھ سردیوں کی اہم ضرورت مانا جاتا ہے ،وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنی افادیت واہمیت برقرار رکھے ہوئے ہے،اور فیشن ڈیزائن کے اس دور میں بھی یہ کشمیری ملبوس اپنی طلببرقرار رکھے ہوئے ہے ۔حتی کہ اب غیر ریاستی باشندے بھی اس گرم ملبوس کو پسند کرنے لگے ہیں ۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی کشمیر کے بازاروں میں اس وقت جدید طرز کے’’ فیرن ‘‘ کا رجحان بڑھ رہا ہے اور زیادہ تعداد میں لوگ اس فرین کی خرید فروخت میں لگے ہوئے ہیں ،حالیہ دنوں کئی دفاتر میں فرن پر پابندی کی خبریں اور سخت ترین سردی کے بیچ مارکیٹ میں نئے اور جدید طرز کے فرن کی خرید فروخت جوبن پر ہے اس بار نہ صرف مقامی طور ہزاروں کی تعداد میں درزی فیرن بنارہے ہیں وہیں چین کے کپڑے سے تیار کئے گے جدید طرز کے رڈی میڈ ’’فرن ‘‘جسے REGLAN’’فرن ‘‘کہا جاتا ہے کی طلب بھی مارکیٹ میں خوب ہو رہی ہے اس فرن کا استعمال اب نہ صرف سرکاری دفاتروں میں بڑے افیسران کر رہے ہیں بلکہ ٹی وی چینلوں پر ڈبیٹ میں حصہ لینے والے کشمیر نوجوان بھی اس فرن کا استعمال کر رہے ہیں ۔’’لارک ‘‘ کے پاس نئے’’ فرن ‘‘ کو خریدنے کیلئے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی ،دکان کے مالک خالد بخشی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ جون کے مہینے میں انہوں نے اس فرن کیلئے استعمال کئے جانے والے کپڑے کی بکنگ چین سے کی اور اکتوبر کے مہینے میں اُن کی دکان پر 10لاکھ کا مال پہنچاجس کے بعد انہوں نے’’ فرن‘‘ کو بنانے کا کام قریب 12 ماہر درزیوں کو دیا اور فرن کی سلائی پر قریب 5لاکھ کا خرچہ آیا ۔بخشی نے مزید کہا کہ ابھی تک دکان سے قریب 400فرن فروخت ہو چکے ہیں جبکہ روزانہ دکانوں سے 10سے 15فرن فروخت ہوتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہاں کے دکاندار کشمیریوں کیلئے سرما کے دوران خود ہی اُن کیلئے گرم کپڑوں کا بندبست کرتے ہیں کیونکہ کشمیر کے لوگوں کی عادت یہ عام رہی ہے کہ اگر اُن کے پاس کھانے کیلئے کچھ نہ ہو لیکن سرما کے دوران جسم کو گرم کرنے کیلئے اُن کے پاس کپڑوں کی اچھی خاصی تعداد ہونی چاہئے ۔فیرن کی طلب اب وادی سے باہر بھی ہونے لگی ہے ۔رئیس احمد نامی ایک گاہک نے سرینگرکی ایک دکان سے 2 فرن خریدے اور کہا ’’ یہ مجھے اپنے لئے نہیں بلکہ اتراکھنڈ میں رہائشی میرے 2دوستوں کیلئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ پچھلے کچھ دنوں سے یہ دوست فون پر اس ’’فیرن ‘‘کو لانے کی مانگ کر رہے تھے تاہم آج لالچوک پہنچا تو یہ فیرن خریدے ، یہی نہیں بلکہ کشمیر میں نئے طرز پر بنائے جا رہے ہیں۔ان فرنوں کی طلبپاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور مری علاقے میں بھی بڑھ گئی ہے اور یہاں سے لوگ اپنے رشتہ داروں کو خرید کر یہ فرن بھیج رہے ہیں ۔۔معلوم رہے کہ گذشتہ دنوں کشمیری فرن کو سرکاری دفاتروں میں استعمال کرنے کی خبریں آئیں تھی جس پر تنازعہ کھڑا ہوا تھا تاہم بعد میں یہ احکامات واپس لئے گئے