ہریانہ، راجستھان اور مدھیہ پریش میں کشمیریوں کےساتھ پیش آئے زیادتیوں کے واقعات کے بعد اب ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ میں کشمیری تاجروں کی دوکان پر ہوئے حملے اور لوٹ پاٹ کے بعد یہ بات مترشح ہو رہی ہے کہ ہرگزرنے والے دن کے ساتھ بیرون ریاست مقیم کشمیریوں، خواہ وہ طالب علم ہو ں ،تاجرو ہوں یا ہنر مند نوکری پیشہ، کےلئے حالات دن بہ دن مشکل ہوتے جارہے ہیں اور بدقسمتی کا مقام یہ ہے کہ انتہا پسند عناصر کی جانب سے زیادتیوں کے ان واقعات میں مقامی انتظامیہ بروقت اور غیر جانبدارانہ انداز میں کاروائی عمل میں نہیں لاتی، جس کی وجہ سے ایسے عناصر کے حوصلے بلند ہورہے ہیں۔چند روز قبل شملہ کے ایک علاقہ میں کشمیری تاجروں کی دوکانوں پر حملے کرکے انکے مال کو لوٹا گیا، جس پر یہاں کے تاجروں میں زبردست تشویش اور برہمی کا اظہار کیاجا رہا ہے، کیونکہ اس واقعہ کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے باوجو دمقامی اوریہاں کی پولیس کی جانب سے اس بارے میں کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی ہے۔ اگرچہ ہریانہ میں کشمیری طلبہ کی مارپیٹ کے واقعہ پر سابق دور حکومت میں اسمبلی اجلاس کے دوران زبردست ہنگامہ آرائی دیکھنے کو ملی تھی اور ریاستی حکومت کی فوری حرکت پذیری کے ردعمل میں حکومت ہریانہ نے تین حملہ آوروں کی گرفتاری بھی عمل میں لائی لیکن ان حملہ آوروں کےخلاف بعد میں کیا کوئی کاروائی ہوئی؟، اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں، البتہ جموںوکشمیر اور ہریانہ کی حکومتوں کی بروقت کاروائی سے اُن طالب علموں کے اعتماد میں مضبوطی پیدا ہوئی ہے، جو گھروں سے ہزاروں کلو میٹر دور خوف و تذبذب کے عالم میں مبتلاء ہے۔ اسی طرح راجستھان میں بھی بانڈی پورہ کے چھ نوجوانوں کو شکوک و شبہات کی بنا پر گرفتار کیا گیاتھا ، حالانکہ وہ کاروباری سلسلہ میں اُس علاقہ سے گزر رہے تھے۔ ریاست سے باہر کشمیریوں کےخلاف ایسا ماحول کیوں تشکیل پا رہا ہے اور اسکی حوصلہ افزائی کن حلقوں سے ہو رہی ہے انکی نشاندہی کرکے انکے عزائم کو ناکام بنانے کی ضرورت ہےاور اس کے لئے کلیدی ذمہ داری ریاستی حکومت پر عائد ہو تی ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ میڈیا کے ایک حلقے کی جانب سے، جس میں الیکٹرانک میڈیا پیش پیش ہے، کشمیر کی تاریخ، جغرافیہ ،سیاسی تاریخ اور سیاست کےحوالے سے متواتر زہر افشانی کرکے کچے اذہان کو آلودہ کرکے کشمیر دشمنی پر آمادہ کیا جا رہا ہے۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس یورش میں انہیں نئی دہلی میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے کچھ قائدین کی طرف سے بھر پور اعانت مل رہی ہے۔ چنانچہ بھارت بھر میں اس وقت جو سیاسی صف آرائیاں ہو رہی ہیں اس میں کشمیر اور کشمیریوں کو ایک ایشو بنا کر سیاسی عزائم کی تکمیل کےلئے ہاتھ پائوں مارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالانکہ ملک بھر میں سنجیدہ فکر طبقہ کشمیر کے حالات کے حوالے سے پریشان ہے اور اس شبہ کا برملا اظہار کر رہا ہے کہ کشمیر میں حالات کی مسلسل خرابی کے ساتھ کئی حلقوں کے سیاسی اور اقتصادی مفادات وابستہ ہو رہے ہیں۔گزرے ایام میں کرناٹک اور آندھرا میں بھی کشمیریوںکی ہراسانی کے واقعات پیش آئے ہیں، جبکہ مہاراشٹر کے شہر پُنے میں بھی متعددکشمیری تاجروں، طلبہ اور کامگاروں نے پولیس سے رابطہ قائم کرکے ہراسانی سے حفاظت کےلئے امداد و اعانت طلب کی ہے۔ ریاستی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بیرون ریاست مقیم کشمیریوں کی حفاظت کرے اور انہیں ہراسان کرنے والوں کےخلاف کاروائی کرنے کےلئے مرکزی حکومت اور متعلقہ ریاستی سرکاروں کو آمادہ کرے۔ وگرنہ ایک جانب کھیل کود، ادب و ثقافت اور تفرریح کے نام پر ریاستی طلبہ اور نوجوانوں کو بیرون ریاست لے جا کر وہاں کے تمدن اور سوچ سے ہم آہنگ کرنے کے پروگراموں، جن پر کروڑوں روپے خرچ کئے جارہے ہیں، کا مفاد اور مقصد کیا رہتا ہے۔ اور تو اور ان پروگراموں میں فوج اور پولیس پیش پیش رہتی ہے۔ ہراسانی کے یہ واقعات اکثر و بیشتر اُن ریاستوں میں پیش آرہے ہیں ، جہاں بھاجپا کی حکومتیں ہیں ۔ ایسا کیوں ہو رہاہے؟ اس کےلئے ریاستی سرکار کو جواب دینا چاہئے، کیونکہ جموںوکشمیر فی الوقت صدر راج کےنافذ کے توسط سے براہ راست مرکزی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ لیکن جس عنوان سے کشمیر اور کشمیریوں کو بدنام کرنے کی مہم چھیڑ کر انہیں نشانہ بنانے کا عمل جاری ہے، اسکے رہتے افہام و تفہیم کے ماحول کےلئے کون سی جگہ باقی بچتی ہے۔ریاستی حکومت کو کم از کم ایسے عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کےلئے ہمہ تن مہم شروع کرنی چاہئے، جو بیرون ریاست کشمیریوں پر حملے کرنے میں ملوث پائے جائیں۔ وگرنہ ریاستی عوام کے اعتماد میں مزید کمزوری پیدا ہونے سے صورتحال کی مزید ابتری کا اندیشہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔شملہ واقعہ سے یہ صاف لگ رہا ہے کہ ایسے انتہا پسند عناصر کشمیرکی اقتصادیات کونشانہ بنانے کےلئے اُن تاجر طبقوں کو ہراساں کرنے کے درپے ہیں، جو صدیوں سے موسم سرما میں ان علاقوں میں تجارت کر تے آرہے ہیں۔