کسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
جن کی آنکھوں میں تاب ِ نظارہ نہ ہو
ان کو جلوہ دکھانے سے کیا فائدہ
قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ’’ بے شک اس میں اس شخص کے لئے بڑی عبرت ہے جس کے پاس (فہیم) دل ہو ‘‘۔ (آیت 37: سورہ ق)
قارئین سے آج کچھ ایسی باتیں شئیر کرنے کو جی چاہ رہا ہے جو احقر نے تصوف اور معرفت کے حوالے سے بزرگوں سے سنی ہیں یا بزرگوں کی پڑھی ہیں کیونکہ ادبی حلقوں میں عام طور تصوف کا موضوع زیر بحث لایا جاتا ہے اور تجربہ کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ اس معاملے پر اکثر ادباء میں بہت کنفیوژن ہے۔ احتیاط اس میں ہے کہ اس نازک موضوع پر مجھ جیسے لوگوں سے گفتگو کرنے کے بجائے کسی معتبر بزرگ کی صحبت اختیار کی جائے جو اس راہ کا راہی رہا ہو۔ اس نازک موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں وہ کسی رہبر کامل کی رہ نمائی کے بغیر پڑھنا بھی ضرر رساں ثابت ہوسکتی ہیں۔تصوف کا اصل مغز اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا پر اپنی زندگی کا سرمایہ لگانا ہے اور اپنی عمر کو خرچ کرنا ہے۔ اخلاص یہ ہے کہ اس رضا کے لئے جو بھی کام کیا جائے ،اس میں ذرہ تو دور کی رہی بلکہ ذرہ کے سایہ جیسا بھی کوئی اور غرض شامل نہ ہو بلکہ کسی اور غرض کا خیال بھی نہ آئے۔ یہ دل کا معاملہ ہے اور دل بڑی مشکل سے بن جاتا ہے دل ؎
آئینہ ہوتاہے رگڑے لاکھ جب کھاتاہے دل
کچھ نہ پوچھو دل بڑی مشکل سے بن جاتا ہے دل
علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
دل تو بھیڑ بکریوں کا بھی ہوتا ہے مگر اللہ کی باتیں سننے کے لئے اللہ ایسا دل، جسے قلب بھی کہتے ہیں، چاہتا ہے جو زندہ، فہیم اور سلیم ہو کہ اللہ کی باتوں کو اسی طرح سمجھ سکے جیسا مطلوب ہے۔ اپنے دل کو ایسا ہی دل بنانے کے طریقے کو کچھ لوگ طریقت کہتے ہیں، کچھ معرفت کہتے ہیں، کچھ تصوف کہتے ہیں، کچھ سلوک کہتے ہیں اور کچھ درویشی وقلندری کہتے ہیں۔ اس طریقے کو اختیار کرنے کے لئے کسی رہبر کامل کی صحبت اور تربیت ضروری ہے۔ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے ؎
ہیچ چیزے خود بخود چیزے نہ شد
ہیچ آہن خود بخود تیغے نہ شد
مولوی ہرگز نہ شد مولاےُ روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد
یعنی کہ ہیﯽچ از خود بخود ﮐہ ہﯽچ نہیں بنتی، ﮐہ لوہا خودبخود تلوار نہیں بنتا، مولوی ہر گز مولاناۓرومؒ نہ بنا جب تک شمس تبریز کا غلام نہ بنا۔
یہ راستہ بڑا خطرناک اور صبر آزمابھی ہے۔ اس میں رہزن بھی بہت ہیں، اگر کوئی طالب ان کے ہتھے چڑھا تو پھر اللہ نہ کرے، تباہی اور بربادی ہی اس کا مقدر ہے۔ اگر راہبر کامل ملا تو انشاءاللہ بیڑا پار لگے گا۔رہبر یا پیر کسی کو جنت یا مقصود تک تو نہیں لے جاتا بلکہ جنت یا مقام تک ہر کسی کو اپنے قدموں سے ہی پہنچنا ہے، رہبر یا پیر صرف راستہ بتاتا ہے اور راستے کے پیچ وخم سے خبردار کرتا ہے۔ دل کی نگہبانی اور پہرے داری تو طالب کو خود کرنی ہوتی ہے، پیر یا رہبر نہیں کرسکتا، تاہم ایک رہبر کامل نفس کے کید اور شیطان کی چالوں کو سمجھتا ہے، اس لئے اپنے مرید کو شیطان کے چکمے، نفس کے جھانسے اور دنیا کے ورغلانے سے آگاہ کرتا ہے اور دفاع میں مدد بھی کرتا ہے۔اس راستے کے مسافر کے قلب میں مختلف کیفیات اُبھرتی رہتی ہیں مگر ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ یہ عارضی ہوتی ہیں ،اسی لئے انہیں کیفیات کہتے ہیں کہ آتی ہیں اور گزرجاتی ہیں،مگر جب ان کا آنا جانا برابر لگا رہے تو وہ سالک کا حال بن جاتا ہےاور اگر راسخ ہوگئیں اور پختہ طور انسان کے دل میں قیام کرلیا تو اسے مقام کہتے ہیں۔ درحقیقت یہ باتیں اور ان باتوں کی تفصیل، باریکیاں یا معانی وہی بتاسکتا ہے جو اس راستے کا راہی رہا ہو اور کامل رہبر ہو۔ مجھ جیسے لوگ کمنٹریٹر کی طرح ہوتے ہیں جو وہی کچھ بیان کرتے ہیں جو سنتے ہیں، اصل لطائف کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے۔عالم ربانی حضرت احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
در تنگنائے صورت معنی چگو نہ گنجد
در کابۂ گدایاں سلطاں چہ کار دارد
صورت پرست غافل معنی چہ داند آخر
کو باجمال جاناں پنہاں چہ کار دارد
مطلب یہ کہ صورت کے تنگ مقام میں معنی کیسے آسکتا ہے؟اور گداؤں کے حجرہ میں بادشاہ کا کیا کام؟صورت پرست غافل شخص معنی کو کیا جان سکتا ہے؟یہ معشوق کے جمال پوشیدہ سے کیا تعلق قائم کرسکتا ہے؟وہ شہنشا مطلق بے نیاز ہے کسی کو اس سے چوں چرا کی گنجائش نہیں۔ وہ جس کو چاہے دولت ایمان اور خلعت قبول سے نوازے اور جس کو چاہے راندہ ٔدرگاہ اور مطردد بارگاہ بنادے، جس کو چاہے خاک سے افلاک پر پہنچادے اور جس کو چاہے افلاک سے خاک پر گرادے۔
آگے فرماتے ہیں:پیدائش انسانی سے مقصود وظائف بندگی کا ادا کرنا ہے۔ اور اگر ابتدا اور درمیان راہ میں عشق ومحبت عطا کردیا گیا ہے تو اس سے مقصود یہ ہے کہ بندہ جناب قدس جل سلطانہ کے ماسوا سے ہر طرح کا تعلق قطع کرلے۔ عشق ومحبت بھی مقاصد میں سے نہیں ہیں بلکہ عبدیت کے مقام کے حصول کے لئے ہے۔ انسان خدا تعالیٰ کا بندہ اس وقت کہلانے کا مستحق ہوتا ہے جب غرض کی بندگی وگرفتاری سے پوری طرح نجات پاجائےاور عشق ومحبت کی حیثیت قطع تعلقات ماسوا سے زیادہ نہیں۔ لہٰذا مراتبِ ولایت کی انتہا مقام عبدیت ہے۔ ولایت کے درجات میں مقام عبدیت سے اوپر کوئی مقام نہیں۔بندہ اس مقام پر پہنچ کر اپنے مولیٰ تعالیٰ کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں پاتا، سوائے اس کے کہ وہ اپنے آپ کو محتاج پاتا ہے۔
یہ بھی فرماتے ہیں:
بعض مشائخ قدس اللہ تعالیٰ اسراہم کی عبارات میں غلبہ سکر میں جو کفر کی مدح اور زنارباندھنے کی ترغیب واقع ہوئی ہے، اس کے ظاہری معنی مراد نہیں ہیں اور ان کی تاویل کی گئی ہے، کیونکہ مستوں کا کلام ٹھیک معنی پر محمول کیا جاتا ہے، اور ظاہری اور قریب الفہم معنی پر محمول نہیں کیا جاتا، کیونکہ وہ غلبہ سُکر کے باعث ان ممنوعات کے ارتکاب سے معذور ہیں، ان بزرگواروں کے نزدیک کفر حقیقت اسلام حقیقی کی نسبت سراسر نقص اور خراب ہے، اور غیر مست اور غیر مغلوب الحال لوگ ان کی تقلید کرنے میں ان کے نزدیک اور اہل شرع کے نزدیک بھی قطعاً غیر معذور ہیں‘‘۔
حق تو یہ ہے کہ تمام چیزیں جو کائنات کو کائنات بناتی ہیں مسلسل پکارتی رہتی ہیں کہ ہم تمہیں عرفان کی بلندیوں پر لے جانے کی استعداد رکھتی ہیں، بس تُو اپنی فکرکے پَروں پہ ہم تک تو آ۔دنیا کی ان عارضی ترقیوں اور شان وشوکت پر غرور نہ کراور اپنی دولت، عہدے اور ٹاٹھ باٹھ سے دھوکا نہ کھا! توُ اگر موت سے غافل ہے اور اخروی بازپُرس سے بے پروا ہے تو واللہ پھر تمہارا یہ تکبر ایسا ہے ؎
چیونٹی کے لگے پَر تو وہ کہنے لگی اڑ کر
میں مثل سلیماں ؑہوں ہوا میں کئی دن سے
مگر اس کو خبر نہیں کہ اس کی ہلاکت کے دن قریب آگئے ہیں۔حق یہ ہے کہ خدا کی معرفت ہوتی ہی نہیں بلکہ اُس کی قدرت، مخلوقات اور کرشمہ سازیوں پر جب گہرائی سے غور ہوتا ہے تو عقل پر حیرت حاوی ہوجاتی ہے۔ دیکھا جائے تو یہی حیرت معرفت کا ایک درجہ ہے۔ معرفت سے تب تک حصہ نہیں مل سکتا جب تک آدمی فنا نہ ہوجائے۔ فنائیت کا مقام پانے کے طور طریقے کو ہی تصوف یا راہِ سلوک کہتے ہیں۔ اپنی عقل سے فنا کا مقام نہیں مل سکتا، اس کے لئے ضروری ہے کہ کوئی کامل رہبر ملے۔ رہبر وہی ہوتا ہے جو یہ طریقہ جانتا ہے۔ اِس طریقے کو بعض شیوخ فن بھی کہتے ہیں۔ اگر کسی کامل شیخ نے اس طریقے کے لئے کسی کو قبول کیا تو یہ بہت بڑی دولت ہے جس کی کوئی قیمت نہیں۔ فنا کے مقام پر جو پہنچا تو پھر اُس کے آگے دنیا کی بادشاہی ہیچ ہے مگر یہاں ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی، طالب کا محض اپنا ہاتھ ہی شیخ کامل کے ہاتھ میں دینا نہیں ہوتا بلکہ اپنی عقل وفہم کی لگام بھی اُسی کو سونپ دینی ہوتی ہے۔ پھر اس راستے میں بڑی آزمائشیں ہیں، بڑی دشواریاں ہیں، بڑی لطافتیں بھی ہیں مگر جو آزمائشوں سے نکلا، دشواریوں سے نہیں گھبرایا اور لطافتوں پر نہیں پھسلا وہی منزل پالیتا ہے۔جس نے خود کو مٹادیا ، وہ خدا کو پاگیااور جو پانے میں لگ گیا اُسے مٹادیا گیا۔ ایک بزرگ سے سے سنا ہے کہ معرفت کے معنی ہے دل کی زندگی اور زندگی دل کو تب ہی ملتی ہے جب یہ خدا سے جڑجاتا ہے، پھر اس دل سے نور کا چشمہ پھوٹتا ہے جس سے یہ وہ سب کچھ دیکھتا ہے جو عام آدمی کی ’’آنکھوں‘‘سے اوجھل رہتا ہے۔ اسی لئے عارفین عام آدمیوں کے درمیان رہ کر بھی اجنبی ہوتے ہیں کیونکہ ان کے دل انہیں وہ سب کچھ دکھا پاتے ہیں جہاں عام آدمی کی رسائی نہیں مگر اس دل میں 'اس کا جلوہ تب ہی ظاہر ہوتا ہے جب دل تمام ماسوا سے خالی ہوجائے۔ ایک بزرگ سے سنا ہے کہ جس طرح کچھ لوگ بدنی طور زندہ تو ہوتے ہیں مگر قلبی طور مردہ ہوتے ہیں، اسی طرح کچھ لوگ بدنی طور تو مرجاتے ہیں مگر قلبی طور زندہ ہوتے ہیں۔ اس بزرگ کے مطابق یہی معرفت ہے۔اب اگر کسی شخص کو کسی بزرگ کی صحبت نہیں ملتی یا اس کی کسی بزرگ سے مناسبت نہیں ہوپاتی مگر طلب بہت ہو تو اُسے بھی گھبرانا نہیں چاہے بلکہ مکمل طور اپنے آپ کو شریعت کے تابع کرنا چاہیے اور اکثر وبیشتر اللہ کے حضور رو رو کر اور گڑگڑا کر دعا مانگنا چاہئے کہ اے اللہ! میں ایسا سیاہ کار ہوں، گنہ گار ہوں کہ مجھے میری شقاوت کے سبب کوئی قبول ہی نہیں کرتا، آپ تو احکم الحاکمین ہیں، بادشاہوں کے بھی حاکم ہیں، مجھے سب نے ٹھکرا دیا ہے، مجھے لینے پر کوئی آمادہ نہیں، آپ تو ٹھکرائے ہوؤں کے واحد آسرا ہیں، آپ تو کریم ہیں، آپ کو اپنی عزت کا واسطہ، آپ کو اپنے کریمی کا واسطہ، مجھ کم ظرف کو اپنی رحمت میں ڈھانپ لیجئے، مجھ پر اپنا سایہ ڈال دیجئے، مجھے اپنے دربار میں قبول کیجئے، آپ کی طرف سے ایسا نہ ہوا تو میں برباد ہوگیا، آپ مجھے بربادی کی طرف دھکیل نہ دیجئے، مجھے آپ کے کرم سے اُمیدیں ہیں، میں آپ کی مہربانیوں کا محتاج ہوں، میں اگر آپ کے راستے کی طرف نہیں چلتا تو میرے سر کے بال پکڑ کر مجھے اپنی طرف گھسیٹ لیجئے، میں کمزور ہوں، ناتواں ہوں، مجھ سے چلا تو نہیں جاتا، آپ میرے ساتھ لطف وکرم کا معاملہ کیجئے، مجھے راحت وآرام سے منزل پر پہنچا دیجئے۔پھر ُامید رکھیں کہ انشا اللہ وہ خدا آپ کو ضائع نہیں کرے گا اور آپ کے ساتھ لطف وکرم کا ہی معاملہ کرے گا۔ آپ شریعت پر ثابت قدم رہیں اور پھر اُمید رکھیں کہ آپ کو بھی مقصود حاصل ہوگا اور اللہ تعالیٰ اپنی رضا سے نوازے گا، اور اسی رضا کا نام مقصود بھی ہے، جنت بھی ہے اور قرب بھی ہے اور نجات بھی ہے۔
جسے اللہ کی رضا کے ساتھ دنیا ملی اور جس نے دین کی ترقی کے لئے دنیا استعمال کی وہ کامیاب ہوا، جس نے اپنے نفس کی اصلاح پر محنت کی اور دین کی سربلندی کے لئے محنت کی وہ بلندیوں پر جا پہنچا، اور جس نے اپنے شکم کو معبود بنایا اور اپنے نفس کا غلام بنا وہ پستیوں میں جاگرا۔ آرام وراحت بری چیز نہیں بلکہ بڑی نعمت ہے کہ تشکر میں منعم کی محبت بڑھتی ہے اور روحانی ترقی ہوتی ہے مگر جہاں یہ میسر نہ ہو وہاں دشواریاں ضرور ہیں تو صابر بھی گویا روزہ دار ہے جو اللہ کی خوشنودی پر تکالیف سہہ لیتا ہے۔عالم ربانی حضرت مجدد الف ثانی کے اقوال میں ہے:۔
الظاہر عنوان الباطن (ظاہر، باطن کا عنوان ہے)۔ان دو نعمتوں کو جمع کرنے میں کہ ظاہر کو احکامِ شرع سے آراستہ کیا جائے اور باطن کو حق سبحانہ کے ماسوا سے آزاد کیا جائے۔
کار این است وغیر ایں ہمہ ہیچ(اصل کام یہی ہے ، اس کے سوا سب ہیچ ہے)۔دنیا بظاہر شیریں ہے اور صورت میں تروتازہ دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت میں زہر قاتل اور بے کار سامان ہے اور اس میں گرفتاری بے فائدہ ہے۔ دنیا کی نظر میں مقبول درحقیقت خوار ہے اور اس پر فریفتہ ہونے والا دیوانہ ہے۔ یہ سونا چڑھائی ہوئی نجاست کی طرح اور شکر ملے ہوئے زہر کی مانند ہے۔ عقل مند وہ ہے جو اس خراب سامان میں گرفتار نہ ہو۔ انسان کا نفس اَمارہ جاہ وحشمت اور سرداری کی محبت پر پیدا کیا گیا ہے۔ اس کا ارادہ ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے اقران اور ہم عصر لوگوں پر بلندی اور فوقیت حاصل کرے اور اس کی ذات کا تقاضا یہ ہے کہ ساری مخلوق اس کی محتاج ہو اور وہ خود کسی کا محتاج نہ ہو۔ یہ درا صل اس کی طرف دعویٰ خدائی ہے اور وحدہ لاشریک ذات جل سبحانہ کے ساتھ دعویٰ ہمسری ہے۔حضرت داؤد ؑ کے کلمات قدسیہ میں ہے کہ:اپنے نفس سے عداوت رکھ کیونکہ یہ تیری دشمنی پر کمربستہ ہے۔فقر میں نفس کے لئے نامرادی ہے اور یہ اسے عاجز وبے بس کرتا ہے۔بلند پایہ ہمت انسان اگر بات کرتا ہے تو اسی کی بات کرتا ہے، اگرچہ وہ بھی اس ذات حق کی شان کے سامنے کچھ نہیں ہوتی اور اگر تلاش کرتا ہے تو اسی کو تلاش کرتا ہے، اگرچہ کچھ بھی نہیں پاتا۔ اگر کچھ حاصل کرتا ہے تو اسی کو حاصل کرتا ہے، اگرچہ کچھ بھی حاصل نہیں کرتا۔ اور اگر وصال نصیب ہوتا ہے تو اسی کا وصال نصیب ہوتا ہے، اگرچہ پھر بھی بے حاصل ہی رہتا ہے۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:۔
’’استدلال کے تنگ مقام سے نکل کر کشف کی فراخ اور کشادہ فضا میں آجاتے ہیں۔ذات حق سبحانہ تعالیٰ کا احاطہ اور قربِ ذاتی نہیں بلکہ علمی ہے اور وہ سبحانہ تعالیٰ کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں۔ اور خدا خدا ہے اور عالم عالم ہے۔ وہ سبحانہ تعالیٰ بے مثل وبے مثال ہے اور عالم سارے کا سارا مثل ومثال کے داغ سے داغ دار ہے۔ بے مثل و بے کیف ذات کو ذی مثل وذی کیف کا عین نہیں کہا جاسکتا۔
(باقی باقی)