ناحق کیلئے جو اٹھے وہ شمشیر ہے فتنہ
شمشیر کیا ؟ نعرئہ تکبیر ہے فتنہ
۲۸ ؍دسمبر ۲۰۱۸ء جمعتہ المبارک کے مقدس ، عظیم اور متبرک دن پر نماز جمعہ کے بعد تاریخی اور مرکزی جامع مسجد شہر خاص سرینگر جو کشمیری مسلمانوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ اور رُشد و ہدایت کا سب سے بڑا مرکز ہے ،میںعصری تاریخ میں کچھ سر پھرے اور شرپسند عناصر نے جس غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکت کا مذموم اوربدترین مظاہرہ کیا ، اُس سے مسلمانان ِ کشمیر میں غم وغصہ پیدا ہوا ،اُن کے جذبات مجروح اور قلوب پاش پاش ہوئے ۔ اس نازیبا حرکت کےخلاف جموںوکشمیر کی تمام دینی، ملی ، سماجی اور سیاسی جماعتیں بیک زبان مرتکبینِ گناہ کی مذمت کررہی ہیں ۔اس شرم ناک حرکت کے خلاف جو شدیدعوامی ردعمل سامنے آیا وہ حق بجانب ہے۔ کس قدر دُکھ اور افسوس کی بات ہے کہ چند نقاب پوش نوجوان اللہ کے اس مقدس و محترم گھر کی عظمت و تقدس کی بےحرمتی پر اُتر آئے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات مبارکہ اور رسول برحق ﷺ کے ارشاداتِ عالیہ خانہ ٔ خداکی عظمت و بڑائی پر شاہد ہیں۔ حضرت حق جل مجدہٗ کا ارشاد ہے :ترجمہ۱:للہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو اُن کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰۃ دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں ۔( القرآن ) ۔پیغمبر اسلام حضرت نبی رحمت ﷺ کے یوں تو بے شمار ارشادات ہیں۔ فرمایا:ترجمہ: ’’زمین کا بدترین حصہ اس کے بازار ہیں اور بہترین حصہ اس کی مسجدیں‘‘۔ ایک اور حدیث پاک کا مفہوم ہے جب صحابہ کرامؓ نے رسو ل رحمت ﷺ سے مسجد کے تقدس اور عظمت کے بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مسجد کا مقام مجھ سے بھی اعلیٰ و بالا ہے کیونکہ مجھے مسجد تک جانے کا حکم دیا گیا ہے‘‘ ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ مسجد اللہ کا گھر ہے ،شعائر اسلام ہے ، مسلمانوں کی شناخت اور پہچان ہے ۔ اسلام ، مسلمان اور مسجد لازم و ملزوم ہیں۔ اس لئے مر کزی جامع مسجد شہر خاص سری نگر کے تئیںتمام اسلامی ، ایمانی اور اخلاقی آداب واقدار کو بالائے طاق رکھنے کی جو ناپاک کوشش شرپسند عناصر نے کی ہے، اُسے ہرگز معاف نہیں کیا جاسکتا۔ اس طرح کی مجرمانہ حرکت میں صرف اسلام دشمن، مسلمان دشمن اور تحریک دشمن افراد یا گروہ ہی ملوث ہو سکتے ہیں ۔ اس حقیقت سے ہم سب واقف ہیں کہ تاریخی مرکزی جامع مسجد سرینگر مسلمانان ِکشمیر کی سب سے عظیم اور بڑی عبادت گاہ ہی نہیں ہے، بلکہ اسے کئی ایک پہلوؤں سے بھی اہمیت و عظمت کا مقام حاصل ہے ۔ دنیا کے دیگر خطّوں کی طرح جب کشمیر میں نور اسلام کا باقاعدہ آغاز داعیٔ اسلام حضرت شیخ شرف الدین عبدالرحمن بلبل شاہ ؒ کے بعد داعیٔ کبیر حضرت میر سید علی الہمدانی ؒ کے توسط سے ہوا تو وادی کشمیر میں جابجا مساجد تعمیر کی گئیں۔مرکزی جامع مسجد سرینگر کی تعمیر کا سہرا سلطان سکندر کو حاصل ہے، روزِ اول سے کشمیری مسلمانوں کی عقیدت اور روحانیت کا مرکز رہی ہے ۔ اپنے یوم تاسیس سے لے کر آج تک یہ عبادت گاہ مسلمانانِ کشمیر کی دینی حرکت و حرارت کا ایک مضبوط قلعہ ہے جس کامنبر و محراب سے وقت کے میرواعظان ِ کشمیراور مصلحینِ قوم قال اللہ وقال الرسولﷺکے ساتھ ساتھ دعوت و ارشاد اور اصلاحِ معاشرہ کے حوالے سے اپنا دینی اور تبلیغی فریضہ انجام دیتے رہے ہیں ۔ صدیوں سےیہ سلسلہ دینی ودعوتی جوش وجذبے کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔ مسلمانانِ کشمیر خاص طور جمعتہ المبارک کو یہاں سر بسجود ہونے کو باعث ِسعادت سمجھ کر ذوق وشوق سے نماز جمعہ ادا کر تے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ میرواعظ کشمیر کے مواعظ اور پند و نصائح سے بھی فیض یاب ہوتے ہیں۔شہر کی اس مرکزی جامع مسجد میں صحیح احادیث مبارکہ کی روشنی میں ایک نماز کا ثواب ۵۰۰ ؍نمازوں کے برابر ہے، جہاں مسجد کی بنیاد رکھنے سے لے کر آج تک ہزاروں اہل اللہ ، دوستان ِ خدا اور بزرگانِ دین نے عبادات و ریاضات اور دینی مجاہدے کئے ہیں، جہاں ماہ ِرمضان میں نمازیوں اور زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے،جہاں جمعہ کے مبارک دن کشمیر کے طول و عرض اور شرق و غرب اور شہر ودیہات سے لوگ نمازِ جمعہ کے علاوہ میرواعظ کشمیر کی زبانی قرآن و حدیث پر مشتمل مواعظ ِحسنہ، اصلاحی بیانات اور سیاستِ حاضرہ پر اُن کا نقطہ نظر سنتے ہیں ، جہاں ہر سال جمعتہ الوداع کی عظیم تقریب میں لاکھوں فرزندان توحید بارگارہ رب ذوالجلال میں اپنا سر جھکا کر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رسول رحمت ﷺ کی اتباع کا درس حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار میں محو رہتے ہیں۔ اس خانہ ٔ خداکے تقدس اور حرمت کی پامالی کسی مسلمان سے ہونا فہم سے بالا تر ہے۔کوئی مسلمان تو دور کی بات باشعور انسان بھی ایسا نہیں کر سکتا۔
دنیا جانتی ہے کہ مسلح جدوجہد کے آغاز میں ۲۵ ؍اگست ۱۹۸۹ ء کو جب سرکردہ مذہبی اور دینی قائد میرواعظ مولوی محمد فاروق صاحب ؒ جامع مسجد کے منبر ومحراب سےمسلمانوں کی رہنمائی کا شاندار فریضہ انجام دے رہے تھے، تو اُس وقت کے حکمرانوں نے عسکریت پسندوںکو پکڑنے کی آڑ میں پولیس آپریشن کرکے سرکاری طور اس عظیم عبادت گاہ کی بے حرمتی کا گناہ کیا۔ اس کے بعدہم نے دیکھا کہ آثار شریف حضرت بل ، خانقاہِ فیض پناہ ترال، آستانِ عالیہ حضرت علمدار کشمیرؒ ، وادی کی لاتعداد مساجد ،خانقاہوں، آستانوں، امام باڑوں اور بقعہ جات کی بے حرمتی کا بدترین سلسلہ شروع ہو گیا ۔ ۲۸ ؍دسمبر کا افسوس ناک واقعہ اسی نا ہنجار سلسلے کی کڑی محسوس ہوتا ہے ۔ اس مجرمانہ حرکت کے خلاف کشمیر کی مشترکہ مزاحمتی قیادت کے علاوہ تمام دینی و سیاسی تنظیموں اور عوام الناس نے اس الم ناک سانحہ پر شدید رعمل کا اظہار کرتے ہوئے یہ با صاف لفظوں میں واضح کردی ہے کہ جوعناصر اس ناپاک حرکت میں ملوث ہیں یا جن سے دانستہ یا نادانستہ طور یہ مذموم حرکت سرزد ہوئی ہے،وہ اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب سے بچنے کے لئے اپنی اصلاح کے لئے فوراً توبہ و استغفار کریں اور اس نازیبا غیر اسلامی حرکت کے ارتکاب پرمسلمانان ِ ریاست سے معافی مانگیں۔
نوٹ: مر سلہ عوامی مجلس ِ عمل ، جموں وکشمیر