واشنگٹن// امریکا کی جانب سے ایران پر عائد کی گئیں پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی کرنسی کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے سال 2018 میں ایران میں مقیم تقریباً 8 لاکھ افغان تارکین وطن کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ خبررساں ادارے کے مطابق انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن ( آئی او ایم) کے افغان چیف لارنس ہارٹ کا کہنا تھا کہ ایران سے رضا کارانہ طور پر واپس آنے والے اور ڈی پورٹ کیے گئے 7 لاکھ 73 ہزار ایک سو 25 افغان شہریوں کی 2017 کے مقابلے میں 66 فیصد زیادہ اور یہی رجحان جاری رہنے کا امکان ہے۔ لارنس ہارٹ نے بتایا کہ ’ ایران سمیت خطے کے دیگر علاقوں میں کم ہوتے معاشی مواقع کی وجہ سے بھی تارکین وطن واپس جارہے ہیں‘۔ آئی او ایم نے 2012 میں افغانستان واپس آنے والے افراد کا ریکارڈ جمع کرنا شروع کیا تھا جس کے مطابق 2018 میں افغانستان واپس آنے والے تارکین وطن کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح 2018 میں پاکستان سے بھی 33 ہزار افغان باشندے اپنے وطن واپس لوٹے ، یہ افراد 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد سے وہیں مقیم تھے۔ خیال رہے کہ افغان شہری کئی سالوں سے ملازمت کی تلاش میں ایران سے منسلک سرحد پار کرنے کے لیے اسمگلرز کو پیسے ادا کرتے ہیں۔ انسانی اسمگلر فی شخص کو سرحد پار کروانے کے لیے 3 سو سے 5 سو ڈالر لیتے ہیں۔ ستمبر میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین نے حکومتی اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ ایران میں 15 سے 20 لاکھ غیرقانونی تارکین وطن افغان شہری ہیں جبکہ 10 لاکھ افغان شہری پناہ گزینوں کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہیں۔ تارکین وطن میں سے اکثر کا تعلق کھیتی باڑی سے ہے 17 برس سے جاری افغان تنازع کی وجہ سے بدترین قحط کا شکار ہیں۔ 39سالہ محمد سرور نے بتایا کہ ’ افغانستان میں ملازمت کے مواقع نہیں تھے اس لیے مجھے ایران جانا پڑا، محمد سرور نے ایران میں 4 ماہ مزدور کی حیثیت سے کام کیا جس کے بعد ایرانی پولیس نے انہیں گرفتار کرکے ڈی پورٹ کردیا تھا۔ انہوں نے افغانستان کیمغربی شہر ہرات میں واقع آئی او ایم کے ٹرانزٹ سینڑ میں کہا کہ ’ اگر میں یہاں کچھ پیسے کماسکا تو میں کبھی ایران واپس نہیں جاؤں گا‘۔ 28 سالہ عبدالحکیم کو ایک ماہ کی تلاش کے بعد ملازمت ملی ہی تھی کہ انہیں گرفتار کرکے واپس بھیج دیا گیا، انہیں مستقبل کے حوالے سے کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ عبدالحکیم نے بتایا کہ ’ افغانستان میں حالات بہت خراب ہیں‘، ان کا تعلق افغانستان کے شمال مغربی صوبے باغدیس سے ہے جو شدید قحط سالی کا شکار ہے۔ اسی طرح 75 سالہ نصیر الدین بھی افغانستان واپس آنے والوں میں شامل ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’ میں وہاں 5 مہینے سے مقیم تھا لیکن پولیس نے مجھے گرفتار کرلیا، میرے پاس کوئی رقم نہیں‘۔ ایران سے تقریباً 3 لاکھ 58 ہزار 65 افغان شہری اپنی ملازمت ختم ہونے کے بعد رضاکارانہ طور پر افغانستان چلے گئے۔ خیال رہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے بعد سے ایران کی کرنسی نصف سے زائد قدر کھوچکی ہے۔