قرآن گواہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز بے کار وعبث نہیں ہے اور نہ ہی بلا وجہ تخلیق کی گئی ہے۔ذرے سے لے کرآفتاب تک جو کچھ بھی کائنات میں موجود ہے، اس کی کوئی نہ کوئی قدروقیمت ہے۔ان تمام ترتؒیقات ِ الہٰیہ کا وجودخود ہی قدرت کی شانوں کا اظہار ہے۔قدرت نے مختلف چیزوں کو مختلف شکلیں اور صورتیں دے کر مختلف ان میںخصوصیات وصفات پیدا کی ہیں،حسن و جمال پیدا کیا، سجایا اور سنوارا۔اس پوری کائنات کو قدرت نے صرف بنی نوع انسانی کے لیے پیدا کیا ہے۔بہ الفاظ دیگر انسان کو تمام اشیاء اور دیگر مخلوقات پر ترجیح دے کراسے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا گیا ہے۔فرشتوں کو بھی تعجب ہوا کہ کس طرح خدا نے آدم ؑکی تخلیق کی اور اسی کو پوری کائنات کی چیزوں کا علم دے دیا۔اب سوال یہ ہے کہ یہ انسان کیسے اللہ کا چہیتا بنا؟دراصل آدمؑ کو پیدا کرنے کے ساتھ ہی رب نے ان کے لیے تمام تر وسائلِ حیات بھی پیدا کر دئے مگر شجر ممنوعہ کی بندش شیطان کے بہکاوے میں توڑکر وہ بشمول ماں حوا ؑ جنت سے نکالے گئے۔جب انہیں اپنی لغزش کا احساس ہوا تو آدم ؑنے اپنے رب کو منانے کے لیے بڑی آہ و زاری کی، توبہ قبول ہوگئی تو آدم ؑ پھر سے اللہ کا چہیتا لاڈلا بنا۔ ابنائے آدم کی سرشت ہی کچھ ایسی بنائی گئی ہے کہ اُن سے خطائیں لغزشیں ہوں گی مگر یہ پھر اپنے رب کی بارگاہ میں پلٹ کر توبہ کی وساطت سے معافی تلافی کریں گے ، شیطان کو چونکہ توبہ کی توفیق نہ ملی اس لئے وہ آدم زادوں کو بہکاتا رہے گا، یہ سلسلہ قیامت تک یوں ہی چلتا رہے گا۔
دنیا میںلوگوں کا آنا جانالگا رہتا ہے لیکن اس آنے جانے کے لامتناہی سلسلے میںکچھ لوگ اپنی اچھی یادگاریں اور یادیں اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔قدرت نے اس کائنات میں مختلف رنگ بھرے ہیں :امیر و غریب،کالے گورے،اونچ نیچ،با صلاحیت و بے صلاحیت،ذہین و کند ذہن،خدا دوست و دہریے،انسان دوست و انسان دشمن،طاقت ور و کمزور، غرض سبھی رنگوں اور مزاجوںکے انسان دنیا میںپیدا کیے گئے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ انسان کو پیدائش کے پیچھے موت کا تعاقب بھی رکھا گیا ہے۔ زندگی کے عرصے میں با صلاحیت اور باکمال لوگ اپنی ایسی یادگاریں اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں جو رہتی دنیا تک قائم رہتی ہیں۔جس کسی انسان کو یہ بات وقت پرسمجھ آئی کہ دنیا ایک پانی کا بلبلہ ہے، وہ کار گاہ ِ حیات کو ایسی ہی نظروں سے دیکھے گا۔ اسی لئے فرمایا کہ مومن کی نظر میں دنیا ایک قید خانہ ہے اور کافر کی کے لیے جنت۔ غافل اور گنوار اس دنیا میں آکر ایسے اوچھے اور بدترین کام کر جاتے ہیںجن سے پورا معاشرہ منفی انداز میں متاثر ہوتا ہے۔وہ اس دنیا کو شاید پائیدار سمجھ کر غفلت کی نیند سوتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ان کو موت آ دبوچتی ہے اور خالی ہاتھ دنیا چھوڑ جاتے ہیں ۔ باایمان ، باضمیر اور باصلاحیت لوگ متاع ِ حیات کو دھوکہ سمجھ کر اس میں ایسے اچھے کارنامے انجام دیتے ہیں، جن سے پورا معاشرہ مستفید ہوتا ہے۔پوری دنیا اور انسانیت کو ان سے فوائد پہنچتے ہیں اور جب وہ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو نفس مطمئنہ لے کر جاتے ہیں۔ایک مشہور حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا کے لوگوں میں وہ شخص بہتر ہے، جس سے اوروں کو نفع پہنچے۔دنیا میں خوشی اور غم دونوں چیزیں توام سے چلتی ہیں۔جدھر دھوپ اُدھر سایہ،جہاں غم وہاں خوشی بھی ہوتی ہے۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
خوشی کے ساتھ دنیا میں ہزاروں غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتی ہے شہنائی وہیں ماتم بھی ہوتے ہیں
اصل کمال والا انسان تو وہی کہلاتا ہے جو عارضی دنیوی زندگی میں دونو متضادچیزوں کا سامنا انسانیت کے جذبے سے کرتے کرتے خد اخوافی و الی زندگی گزارے ،وہ بھی اچھی خاصی بندگی والی زندگی اور انسانیت پر مہر بان زندگی، یعنی قدرت کی بندگی کرتے کرتے دنیوی زندگی بہتر انداز میںبسر کرنے والی زندگی۔
زندگی بے بندگی شرمندگی
زندگی با بندگی تابندگی
دنیا میں آکر جو انسان یہ سمجھے کہ یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے، وہ اسی طرح کے اچھے کام انجام دیتا رہے گا تاکہ پھل اچھا ملے۔اس کا ہر عمل قابل تعریف ہوگا۔وہ خود بھی راہ راست پر ہوگا اور دوسروں کو بھی راہ مستقیم کی طرف مدعو کرے گا۔اس شخص کی زندگی مطمئن اور خوش حال ہوگی۔اس سے پورے معاشرے کو بلکہ پوری دنیا کو فائدہ پہنچے گا۔دراصل اس میں قدرت نے انسانیت کا وہ جوہر ودیعت کیا ہوتا ہے،جس کی بدولت وہ پورے عالم انسانیت کو فائدہ پہنچا کر روحانی تسکین پاتا ہے ؎
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کروبیاں
اس دنیائے فانی میں وارد ہونے سے پہلے ہماری روح سے رب نے اچھا بھلا کر نے کاوعدہ لیا ہے، ان وعدوں کا انسان کو ہر حال میں پابند رہنا ہے لیکن دنیا میں قدم رکھتے ہی انسان اس وعدے کو بھول جاتا ہے اور اپنی من مانیاں کرنے لگتا ہے۔اس دنیا میں غافل انسان کچھ اس طرح کھو جاتا ہے جیسے اسے ادھر دائمی طور پر رہنا ہے۔ انسان کی فلاح و بہبود کا راز اصل میں اس کی وہ خصلت ہے جسے انسانیت اور آدمیت کا نام دیا گیا ہے۔روزِ ازل سے لے کراختتامِ کائنات تک زمین پر رہنے والی مخلوق کے لیے سب سے بیش بہا اور قابل قدر چیز انسان کی انسانیت ہے، ایسی انسانیت جس پر تمام عالم کو فخر ہواور اسی انسانیت میں آدم خاکی کی فلاح و بہبود مضمر ہے۔ اس کے برعکس جہاں انسانیت کا فقدان ہو، وہاں لازمی طور پر سکون و چین،امن و آشتی اور اور طمانیت کا فقدان ہوگا۔چین و سکون کا نہ ہونا انسان کی تربیت و ترقی میں بھی حائل رہتا ہے۔بالفاظ دیگر جس معاشرے میں انسانیت نہ ہوگی، اس میں چین ، سکون اور اطمینان و آشتی بھی نہ ہوگی۔ غم و آلام اور خوشی و شادمانی زندگی کے دو پہیہ اور صبح وشام کی مانندہیں۔ زندگی کی گاڑی ایسے ہی چلتی ہے اور چلتی رہے گی۔ ہمیں کسی حال میں بھی انسانیت کا دامن ہرگز نہ چھوڑنا چاہیے۔ جو صحیح معنوں میں خدا اور رسول ﷺ کے فرمان بردار ہوتے ہیں، وہ تمام پریشانیوں اور مصائب و آلام کو مردانگی کے ساتھ سہتے ہوئے زندگی کو آگے بڑھاتے ہیں اور ہمیشہ انسانیت پر مبنی اعمال سر انجام دیتے رہتے ہیں۔ ان سے یمان کی شرط پر اللہ راضی اور وہ اللہ سے راضی ہونے کا اعزاز پاکر رہتے ہیں ۔
آج مادیت پرستی کا دورہے۔ہر انسان ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتا ہے مسابقت کی دوڑ فطرت کی پکار ہے ،یہ ٹھیک ہے مگر مسابقت انسانیت کے کاموں میں بھی ہونی چاہیے ، صرف مادی مفاد کے لئے نہیں۔ ہمیں اس دوڑ میں کسی حال میں بھی اچھائی سے دامن ہاتھ سے کبھی نہ چھوڑنا چاہیے،چاہے خوشی ہو یا غم ، ہر دم جو بھی کام کیا جائے وہ رضائے مولا اور انسانت کی فلاح و بہبودی کے لئے کیا جائے۔الغرض ہر کام کو سر انجام دیتے وقت دل میں یہ جذبہ ہو کہ یہ کام صرف خدا کی رضا جوئی اور انسانیت کی بقاء کے لیے کرتا ہوں۔بس انہیں لوگوں کو اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں سرخ روئی حاصل ہوتی ہے اور یہی انسانیت کا تقاضا بھی ہے۔
ریسرچ اسکالر سینٹرل یونیور سٹی آف کشمیر
ای میل:[email protected]