ریاست کے درالحکومتی شہروں سرینگر اور جموں میں پبلک ٹرانسپورٹ کی دن بہ دن خراب ہوتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے عام مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ، جب دن بھر کی مصروفات سے فراغت حاصل کرکے لوگ شام کے وقت گھروں کو جانےکی کوشش کرتے ہیں تو سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہوا ہوتا ہے اور انہیں دربدر کی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ اگر چہ میڈیا کے توسط سے بار بار یہ مسئلہ سامنے آتارہا ہے لیکن انتظامیہ کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ حال ہی میں حکومت کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ مسافروں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کو الیکٹرک بسیں فراہم کی جائینگی۔ یہ ایک خوش آئند قدم ہے تاہم اس کےلئے بھی بہت ضروری ہے کہ پہلے ایس آر ٹی سی، جو کسی زمانے میںریاست کےا ندر ٹرانسپورٹ کی فراہمی کا سبب سے بڑا ذریعہ تھا، کو موجودہ بدحالی سے نکال کر فعال بنانے کے جتن کئے جائیں اور کارپوریشن میں موجودہ مارکیٹ رجحانات کے مسابقتی عمل میں سرخرو ہو کر آگے نکلنے کاجذبہ پیدا کیا جائے۔ عوامی ٹرانسپورٹ پر پرائیوٹ ٹرانسپوٹروں کے ایک طرح سے مکمل کنٹرول کی وجہ سے مسافروں کو بے بیان مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ بس اڑوںسے نکل کر منزلوں پر پہنچنے کےلئے وہ کسی قسم کے اوقات کار کے تابع نہیں اور ان کا جب جی چاہئے چل پڑینگے اور جس رفتار کے ساتھ چلنے کا من کرے، چلیں گے نیز جہاں جہا ں چاہیں طویل وقفوں کےلئے گاڑیوں کو سائیڈ میں کھڑا کرکے مسافروں کو بلانے کےلئے چلاتے رہیں۔اور لوڈنگ کی وجہ سے مسافروں باہر لٹکے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہ اور ایسی صورتحال عام مسافروں کےلئے سوہان روح سے کم نہیں اور دھکم پیل میں جیب کترے اور چور اُچکے بھی اپنی کاروائیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ایک طرف یہ مصیبت ہے اور دوسری جانب سڑکوں پر بڑھتے ہوئے ٹریفک کے طوفان بدتمیزی سےنت نئے مصائب اور مشکلات سامنے آتے رہتے ہیں خاص کر صبح اور سہ پہر کے وقت جب دفتری عملہ کی نقل و حرکت اپنے شباب پر ہوتی ہےایک ایک چوراہے کو عبور کرنے میںبعض اوقات آدھ آدھ گھنٹہ صرف ہو جاتا ہے ، جبکہ ٹریفک کے بھاری جمائو کے بعد سگنل کھل جانے پر گاڑیاں اور ٹووہیلر ڈرائیو کرنے والے متعدد حضرات سانپ کی چال ڈرائیونگ کرکے ایک دوسرےپر سبقت لینے کی کوشش میں اکثر اوقات کسی نہ کسی پرچڑھ دوڑ بیٹھتے ہیں، جس سے نہ صرف ان گاڑیوں کو نقصان ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات خوفناک قسم کے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ ٹریفک جاموں میں وقت ضائع ہونے کے بعد اپنے کام پر پہنچنے کی جلدی ہمیشہ حادثات کا سبب بنتی رہتی ہے ، لیکن ہم ہیں کہ نہ توسماجی سطح پر اور نہ ہی انتظامی سطح پر مسئلے کا حل تلاش کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ ٹریفک جاموں کے اس سلسلہ سے عام لوگوں کے زندگی کے معمولات بُری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے نہ صرف انہیں معیشی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے بلکہ لوگ بُری طرح نفسیاتی دبائو سے دو چار ہور ہےہیں۔ سنیچر کی سہ پہر اور سوموار کی صبح کو شہر وںکی غالباً ہی کوئی ایسی سڑک رہی ہو گی جس پر سہ پہر کے وقت بدترین جامنگ کے بہ سبب سفر کرنے والے گھنٹوں اس طرح اٹکے رہےکہ کہیں سےکسی کو نکلنے کی جگہ بھی میسر نہ آئی۔ ظاہر ہے جب ہزاروں کی تعداد میں سفر کرنے والے جامنگ کا شکار ہو جائیں تو سینکڑوں کی تعداد اُن میں مریضوں اور جسمانی طور پرکمزور لوگوں کی بھی ہوسکتی ہے۔ مگر جس عنوان سے یہ مصیبت ایک قیامت کی صورت اختیار کرنےلگی ہے، اُس سے یہی لگتا ہے کہ حکومت میں عوام کی مشکلات کے تئیں ذمہ داری کی رمق تک بھی نہیں دکھائی دے رہی ہے۔ اگر چہ اس حوالے سے ٹریفک محکمہ کی طرف سے وقت وقت پر روٹ پلان جاری کئے جاتے ہیں،لیکن زمین پر انکا کوئی اثر نہیں دیکھنے کو ملتا۔مرض بڑھتا گیا ،جوں جوں دوا کی‘ کے مصداق جتنے زیادہ حکومتی ادارے گرمائی دارالحکومتی شہر میں ٹریفک نظام کو چست و درست کرنے کے دعوئے کرتے ہیں،اتنا ہی نظام مزیدبگڑ تا جارہا ہے اور بدیہی طور پر اس مرض کےلئے کوئی دوائی کام کرتی نظر نہیں آرہی ہے ۔انتظامیہ آئے روز نت نئے فارمولے لیکر آتی ہے اور ہر دن کوئی نیا نسخہ پیش کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اب اس روح فرسا تکلیف سے نجات مل کرہی رہے گی لیکن اگلے ہی دن اس نسخہ کی ہوا نکل جاتی ہے۔آئے روز کے ٹریفک جاموں کی وجہ سے سے صرف شہر سرینگر کی اقتصادیات پر پڑھنے والے منفی اثرات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ایک ماہ میں سرینگر ضلع میں ایام ِ کار کےلاکھوں گھنٹے ضائع ہوجاتے ہیں۔2011مردم شماری کے مطابق سرینگر کی آبادی 12لاکھ36ہزار829نفوس پر مشتمل تھی اور اگر ایک دہائی میں آبادی میں23فیصد اضافہ کی شرح کو مدنظر رکھ کر حساب کتاب لگایاجائے تو اس وقت شہر کی آبادی13.5لاکھ ہوگی۔ماہرین اقتصادیات کے ایک جائزے کے مطابق اگر فرض کیاجائے کہ شہر میں صرف40فیصد کام گر ہوںتو ان کی تعداد5لاکھ40ہزار بنتی ہے اور اب یہ بھی مان لیاجائے کہ 40فیصد کی اس آبادی کو روزانہ ٹریفک جام کی وجہ سے ایک گھنٹہ ضائع ہوجاتا ہے تو یہ مجموعی طور روزانہ 1.10لاکھ گھنٹے اور ماہانہ33لاکھ گھنٹے بن جاتے ہیں۔جس شہر میں کام گر طبقہ کو ماہانہ 33لاکھ گھنٹے ٹریفک جام کی وجہ سے ضائع کرنے پڑیں،اُس شہر کی اقتصادیات کا خدا ہی حافظ ہوگا۔یہ ایک سرسری انداز ہ ہے جس میں کم و بیش کا فرق ہوسکتا ہے لیکن حقیقت کہیںاسکے آس پاس ہی ہوگی ،اس سے انکار کی گنجائش نہیں۔یہ تو کشمیر میں ابھی وقت کی اتنی قدر نہیں ہے ،لہٰذا لوگوں کو ٹریفک جام کی وجہ سے ضائع ہونے والے قیمتی وقت کا احساس نہیں ہوتا ہے ورنہ ترقی یافتہ ممالک میں وقت کو سرمایہ کہتے ہیں اور وہاں پیسے سے زیادہ وقت کی اہمیت ہے ۔ٹریفک جام کی وجہ سے سڑکوں پر وقت کا یہ زیاں یقینی طور پر ریاستی معیشت پر بھاری پڑ رہا ہے لیکن شاید حکام کو اس کا احساس نہیں ہے کیونکہ اگر احساس ہوتا تو اس کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جاتے ۔یہ تو اس صورتحال کا ایک منفی پہلو ہے ۔اب اگر اس صورتحال کی وجہ سے دیگر اہم شعبوں پر پڑنے والے منفی اثرات کا جائزہ لیاجائے تو صفحوں کے صفحے بھر جائیں گے لیکن پھر بھی بات مکمل نہ ہوگی اور وجوہات کا پٹارا ختم نہیں ہوگا۔لہٰذا زیادہ طویل بحث میں جائے بغیر ارباب بست و کشاد سے یہی امید کی جاسکتی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم میں بہتری لاکر مسافروں کی مشکلات کا ازالہ کریں نیز ٹریفک جاموں کی مصیبت سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک مربوط راہِ عمل مرتب کرے۔