کسی زمانے کی وادیٔ گلپوش اور جنت بے نظیر میں بیسویں صدی کے تقریباً چھٹے دہے تک قصۂ حاتم طائی ، قصۂ چہار درویش ، قصۂ عمرعیار ،قصۂ طوطا مینا ، سند بادجہازی کے کارنامے اور الف لیلیٰ کی داستانیں بڑے ذوق وشوق سے پڑھی ،سنی اور سنائی جاتی تھیں ۔ سردیوں کے دوران خاص طور پر گھروں میں کافی رات گئے تک محفلیں جمتی تھیں ۔کہیں کہیں جنگ نامے پڑھنے اور سننے سے لطف اندوز ہواجاتا تھا۔ چائے اور قہوے کے سماوار خوشبو دار بھاپ اُگلتے رہتے تھے ۔ جنگ ناموں کی ابتداء ہی اکثر وبیشتر چائے کے مطالبے سے ہوتی تھی جسے ؎
ولو ساقیا چاؤ چائے لطیف
ونن چُھم میہ جنگ محمد حنیفؓ
عام طور پر وہ داستانیں پریوں ،جنوں ، جادوگروں ،شہزادوں اور شاہزادیوں کی ہوا کرتی تھیں اور جو حصہ عام آدمی سے متعلق ہوتا تھا وہ زیادہ اثر انداز رہتا اور اُن کرداروں کے ساتھ سامعین کو زیادہ ہمدردی رہتی تھی۔ اُن محیرالعقول داستانوں کو نہ سچ مانا جاتا تھا اور نہ جھوٹ سمجھاجاتا تھا بلکہ سننے والے پر ایک عجیب اور سحرزدہ سی کیفیت طاری رہتی اورکہانی کا کچھ حصہ سن کربقیہ داستان کو سننے کی ایسی تڑپ رہتی جو ہرکام ہر مصروفیت اور ہرعمل پر حاوی رہتی۔ اُن داستانوں کی اثر انگیزی اور سحرآفرینی کبھی کبھی اس قدر مؤثر بن جاتی تھی کہ قاری یا سامع خود کو بھی داستان کا ایک حصہ ، ایک کردار سمجھنے لگتا تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے لڑکپن کے زمانے میں ہمارے ایک ہمجولی کوفرضی داستان ’’گلریز‘‘ اس قدر متاثر کر گئی تھی کہ وہ کئی سال تک آہیں بھراکرتا تھا، کبھی کبھی یونہی روتا بھی تھا اور اکثر یہ شعر میٹھی لَے کے ساتھ گنگناتا رہتا تھا ؎
ولو عشقو بو ہاوئی کیا ژے کر تھم
فراقن شراک لائیتھ دل کتُر تھم
سن 1960ء کے بعد لوگوں پر بائیسکوپ یا پردہ سیمیں کا زیادہ اثر پڑتا گیا، حالانکہ یہ شوق کافی عرصہ سے مقبول تھا جو سن 1975ء تک اتنا گہرا ہوگیا کہ ایک چھوٹے سے شہر (سرینگر)میں بیک وقت دس سنیما گھر اس صنعت کے ساتھ وابستہ تھے اور ہر ایک سنیما گھریومیہ چار چار شو کرنے لگا۔ اس کے علاوہ اسلام آباد میں دو ، سوپور میں دو ،بارہمولہ ، ہندوارہ اور کپوارہ میں ایک ایک سنیما گھروں کا ہونا خود ہی فلموں کی مقبولیت کا ثبوت بن گیا۔ سن 1975ء کے بعد نئی پود سنیما گھروں کارُخ کرنے کے بجائے زیادہ تر ٹیلی ویژنوں کے سامنے بیٹھنے لگی ۔ چونکہ ٹیلی ویژن میں اور دلچسپیوں کے علاوہ فلم کے شو بھی ہوتے تھے، اس لئے وہ زیادہ مؤثر اور مقبول ہوگئے اور پھر سن نوے کے آتے آتے وادی میں تحریک آزادی کے شروع ہوتے ہی سنیما گھر مکمل طور سے بند ہوگئے۔ اس وجہ سے ٹیلی ویژن کا درجہ اوّل اور وی سی پی وغیرہ کا درجہ ثانوی ہوگیا کیونکہ وی سی آر، وی سی پی اور کیسٹ تک ہرایک کی رسائی ممکن نہ تھی ۔ اگر تھی بھی تو اُن کے لئے کرایہ دینا پڑتا تھا ۔
سابقہ چند برسوں نے نہ صرف محیرالعقول داستانوں کوختم کردیا بلکہ کمپیوٹر کی ایڈوانس کارکردگی کے متعارف ہونے سے مائیکروویو کے عجائبات سے ، ماس میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا، انٹرنیٹ ، ای میل ، ویب ،موبائل فون وغیرہ کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے عجائباتی اعجاز اور جلوئوں سے اس پسماندہ ریاست کا باشندہ بھی سوچنے لگاکہ ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ‘‘ ۔گرچہ دوسری جانب ’’عشق کے امتحان‘‘ دیتے دیتے پاس اورفیل کے نتائج سے بے بہرہ وہ خود ایک صنم یا روبوٹ ہوگیا ہے جس میں دماغ تو ہے مگر اس کا ریموٹ کنٹرول کسی اور کے پاس ہے ،جس میں سوچ ہے مگر اُس پر پہرے لگے ہیں ،جس کے جذبات اور خواہشات ہیں مگر وہ پابہ جولاں ہیں ،جس میں اُمنگیں اور ولولے ہیں مگر وہ زنجیروں کی جھنکار میں دب کے رہ گئے ہیں، جو ایک راجے کے جانے پر افسوس نہیں کرتا اور دوسرے کے آنے پر خوش نہیں ہوتا کیونکہ یہ راجے خود ہی آتے بھی ہیں اور خود ہی جاتے بھی ۔اس پر ہمیشہ برطانوی مثل صادق آتی ہے کہ : The king is dead; Long live the king اُسے تو صرف چوں چرا کئے بغیر اُن کے راج پاٹ کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔ صدیوں کے اس غلام کے ساتھ یہ کیسا بھونڈامذاق ہے ؟ مالک ہوکر بھی یہ اس سرزمین میں اجنبی بن کر رہ رہاہے ، اس میں سر اُٹھا کر چلنے کا یارا نہیں ہے کیونکہ ؎
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چُرا کے چلے جسم وجاں بچا کے چلے
اُن قصے کہانیوں میں جواب قصۂ پارینہ اور اساطیر الاولین بن چکی ہیں ، میں سب کچھ آناً فاناً اور ایک میکانکی انداز میں ہوجایا کرتا تھا،حالانکہ اُس زمانے میں جب وہ داستانیں اختراع ہوئی تھیں سائنسی عجوبات کا تصور نہیں تھا مگر آج سائنسی عجوبات کے ہوتے ہوئے اُن قصے کہانیوں پر اعتماد کرنے کو جی چاہتاہے بلکہ مانو تو بالکل یقین ہوجاتاہے کیونکہ اِس زمانے میں سچ مچ ہی آناً فاناً سب کچھ ہوجاتا ہے۔اس کی مثال سوپورؔکے ایک واقعہ سے دی جاسکتی ہے ۔چند سال قبل کی بات ہے کہ دن کے دوبجے تک سوپور کے مختلف علاقوں سے تبلیغی جماعت (اللہ والے)سے وابستہ اورتبلیغی مشن پر مسجدوں کے مکین چھ بچوں کو گرفتار کیا جاتاہے اور آناً فاناً انہیں سو کلو میٹر دو ر لےجاکر گولیوں سے بھون ڈالا جاتاہے اورآناً فاناً سات بجے شام کو ٹیلی ویژن سے خبر آتی ہے کہ سرحد پار کرتے وقت تصادم میں چھ’’ دہشت گرد‘‘ مارے گئے اور اُن سے کافی مقدار میں گولہ بارود ضبط کیا گیا۔ایسا بھی آناً فاناً ہی ہوجاتاہے کیونکہ تشبیہ اور استعارے میں تسبیح کے دانوں کو گرینیڈ آسانی سے کہاجاسکتاہے کیونکہ بقول کسے ع
اپنی بلا سے بُوم بسے یا ھُما رہے
اب آپ خود ہی فیصلہ کیجئے اُن داستانوں کو کسی صورت میں فرضی یا خیالی کہاجاسکتاہے جن میں واقعات خود ہی بہتے چلے جاتے ہیں… ایک میکانکی انداز میں ظہورپذیر ہوجایا کرتے تھے جب کہ آپ کے باڈی گارڈآپ کے محافظ عسکری لیبارٹری میں آتشیں آلہ جات سے آپ کے وطن مالوف کے ٹیبل پر آناً فاناً پریکٹیکل کرکے دکھاتے ہیں ۔گویا اُن کے ہاتھ میں بھی ایک جادوئی چھڑی (wand)ہے ، ماتحتی میں سفید یا سیاہ جن ہے یا کم از کم ایک الہ دین کا جیسا چراغ ہے۔ اگر کچھ بھی نہیں پھر بھی طلسم موجودہے…یعنی طلسم ہوش رُبا!!! جس کو بروئے کار لاکر وہ کچھ بھی اور کہیں بھی کر دکھانے کے مجاز ہیں ۔کیا دُنیا بھر کے متمدن ، مہذب ، ترقی یافتہ ، جمہوریت نواز ،انسان دوست اور حقوق بشری سے متصف اقوام کے لئے افسپا جیسا کالا قانون طلسم ہوش ربا سے کچھ کم ہے ؟
انسان آج اپنے نظامِ شمسی کو کھنگالنے کی فکر میں ہے اور تعلیمی وسائنسی تجربات میں بہت آگے تک گیا ہے مگر اس کے باوجود ہمیں بے قیمت وبے وقعت سمجھ کر بھڑوں اور ٹڈیوں کی طرح وادی اور وادی سے باہرماراجارہاہے ،قتل کیاجارہاہے اورواللہ رونے ، منہ پیٹنے اورواویلا کرنے کا مقام ہے کہ کتوں کو تحفظ فراہم کیا جارہاہے مگر انسان بے قیمت ہو کے رہ گیا ہے !!! کتّے جن کی سرشت اور فطرت میں سائنس دانوں نے پاگل پن کے جراثیم دریافت کئے ہیں، وہ آپ کو کاٹیں ،آپ کے معصوم بچوں کو چباڈالیں ، آپ کیا کرسکتے ہیں ؟ آپ کچھ کریں گے بھی تو سننے والا کوئی نہیں ہے کیونکہ اُن کو ایک رانی تحفظ فراہم کررہی ہے ۔آپ ایک وحشی کتّے کو نہیں مار سکتے، ہاں ایک متمدن شہری ،سکالر ، بزنس مین ، پروفیسر ، طالب علم مرتاہے تو کیا مضائقہ ہے۔ ویسے بھی ابھی ہوا کیاہے ……… ع
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟
رابطہ:- پوسٹ باکس :691
جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995