اپنے کپڑوں کی گٹھری لیکر وہ بیگم صاحبہ کے گھر کے اندر آئی اور کمرہ دیکھنے چلی گئی۔اس کو کمرہ کرایہ پر چاہئے تھا۔حاجی صاحب کو کرائے کی کوئی ضرورت نہیں تھی مگر انہیں ایک ایسی فیملی کی ضرورت تھی جوانکے گھر کی رکھوالی بھی کرتے اور کرایہ بھی دیتے۔یہ کمرہ ان کے آوٹ ہاوس میں تھا۔رقیہ کو کمرہ پسند آیا اور بیگم صاحبہ نے بھی اسکو بہت کم روپیوں کے عوض میں کرایہ پر دے دیا۔رقیہ کے ساتھ اسکا شوہر اور اس کا ایک بچہ بھی تھا۔وہ ملک کے کسی مسلمان علاقے سے تعلق رکھتی تھی اور اس کا رہن سہن پنجابیوں جیسا تھا۔
رقیہ دن میں ہزار بار بیگم صاحبہ کے پاس آتی۔کبھی روٹی مانگتی،کبھی پلیٹ،کبھی جھاڑو ، کبھی یہ کبھی وہ کیونکہ آہستہ آہستہ اس کو گھر بنانا تھا۔اس کو جس چیز کی ضرورت پڑتی تو پہلے بیگم صاحبہ کے پاس پوچھنے کے لئے آتی۔اصل میں بیگم صاحبہ نے ہی اسے یہ ہدایت دی تھی کیونکہ اس کے گھر میں اتنی فالتو چیزیں پڑی تھیں کہ وہ سوچتی تھی اگر کسی کے کام آئیں تو بہتر ہے۔
انکے اپنے بچے تو باہر کے شہروں میں پڑھتے تھے۔میاں بیوی ماں کو لیکر اکیلے اتنے بڑے بنگلے میں رہتے تھے۔اسی لئے سوچا تھا کہ ان کو اوٹ ہاس میں رکھا جائے۔
رقیہ بھی کچھ کم نہ تھی۔وہ ان کا احسان نہیں لیتی تھی۔وہ کچھ بھی پکاتی تو بیگم صاحبہ کے لئے پلیٹ میں لیکر آتی۔وہ بیگم صاحبہ کو دیدی کہہ کر پکارتی تھی، حالانکہ وہ اس کی آنٹی کی عمر کی تھی۔مگر دیدی دیدی کہتے اس کا منہ نہیں تھکتا تھا۔کبھی پلاؤ،کبھی گوشت،کبھی پکوڑیاں،کبھی یہ تو کبھی وہ لیکر آتی ۔بیگم صاحبہ اس کو منع کرتی رہتی مگر وہ ماننے والوں میں کہاں تھی۔کچھ دنوں پہلے ہی تو بریانی لائی تھی اور وہ بھی گوشت کی۔پکاتی تو وہ بڑامزے دار تھی۔مگر حاجی صاحب جونہی اس کو دیکھتے تھے آگ بگولہ ہوجاتے تھے یا اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی کوئی چیز اپنے گھر میں دیکھتے تو ان کا منہ غصے سے لال پیلا ہوتا۔
’’آخر آپ کو غصہ کیوں آتا ہے۔؟‘‘اسکی بیگم اسے پوچھتی۔
اسکی چیزیں نہ لیا کرو بیگم ۔اس سے بدبو آتی ہے۔جونہی وہ گھر میں داخل ہوتی ہے سارے گھر میں اسکی بدبو پھیل جاتی ہے۔مجھے تو اس کو دیکھ کر ہی گھن آتی ہے۔پلیز بیگم اسے یہاں آنے سے منع کیجئے۔‘‘
’’میں ایسا نہیں کر سکتی ہوں ۔کیسے کہوں گی اُسے کہ اُسکے بدن سے بدبو آتی ہے۔‘‘ اُن کی بیگم نے منع کردیا۔
دن گذرتے گئے ۔رقیہ کا شوہر کشمیر آکر ترکھانی کا کام کرتا تھا۔صبح سویرے گھر سے نکلتا اور شام گئے واپس لوٹتا تھا۔رقیہ پاؤں میں پائل پہن کر دن بھر چھم چھم کرتی کبھی اُدھر سے اِدھر آتی اور اِدھر سے اُدھر جاتی۔
بیگم صاحبہ کسی سکول میں پرنسپل تھیں۔اور حاجی صاحب ایک بہت بڑے آفیسرتھے۔ بیگم صاحبہ نے رقیہ سے صرف اتنا کہہ دیا کہ’’ جب صاحب گھر کے اندر ہوں تو تم اندر مت آیا کرو۔اچھا نہیں لگتا۔‘‘ ایسے دونوں کی بات رہ گئی۔
اب تو اس نے ان کے وہاں آنا ہی کم کردیا تھا۔چاہے حاجی صاحب گھر میں ہوں یا نہ ہوں ۔اس نے اب آہستہ آہستہ چیزیں لانا بھی کم کردیاتھا۔
بیگم صاحبہ کو بھی اچھا لگتا تھا کہ وہ اپنے گھر کے کام اپنے گھر کے اندر ہی کرے۔انہیں بھی چین سے بیٹھنے دے۔اُن کو حاجی صاحب کے ساتھ کھِٹ کھِٹ کرنا اچھا نہیں لگتا تھااور نہ ہی وہ مفت میں کچھ مول لینا چاہتی تھیں۔
ادھر رقیہ کو بھی اندر ہی اندرکھٹک رہا تھا کہ بیگم صاحبہ نے اس کی طرف کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ وہ دروازے سے ہی کبھی سلام دعا کرکے چلی جاتی تھی۔
حاجی صاحب بہت شستہ مزاج کے آدمی تھے۔وہ اپنی بیوی کے ہاتھوں کا صاف شفاف ،کسا ہوا،تلا بُھنا،اچھا اچھا اور لذیذ کھانا کھانے کے عادی ہو چکے تھے۔وہ بھی دن بھر کے کام کاج اور مارا ماری کے بعد گھر میں سکون کی سانس چاہتے تھے۔ ماں بچاری ایک کونے میں پڑی رہتی۔کھانے کو کہتے تو آتی،نہ کہتے تو نہ آتی۔۔۔ مانگتی نہیں تھی۔گھر میں نوکر چاکر بھی اب نہیں تھے۔بیگم صاحبہ خود پکاتی تھیں اور خود گھر کا سارا کام کرتی تھیں۔کبھی جب حاجی صاحب کے دل میں مروت جاگ جاتی تو وہ دو برتنوں کو ہاتھ لگاتے یا کبھی بیگم بیمار ہوتیں تو بس مرغا پکا لیتے تھے۔ مرغا تو انہیں خوب پکانا آتا تھا۔ کچے پیاز کی چٹنی بھی خوب بنا لیتے تھے۔بیگم صاحبہ ان سے کہتیں۔
’’اب تو مجھے کوئی پروا نہیں ہے ۔کبھی رات کو میکے جانا ہوا تو آپ تو سب کچھ کر ہی لیں گے۔‘‘
’’ہاں ہاں بیگم کیوں نہیں۔اب تو مجھے پریکٹس ہوگئی ہے۔آپ چلی جائیں جہاں جانا چاہتی ہیں۔ ہم مرغا پکا کر کھائیں گے۔‘‘
بہت دنوں کے بعد بیگم صاحبہ کے ابا نے ان کو فون کیا۔بیگم صاحبہ فون پر رو پڑیں۔وہ کہہ رہی تھیں۔
’’جی ابا ضرور آؤں گی‘‘۔
’’نہیں نہیں ۔ماں باپ کو بیٹیاں تھوڑی ہی بھولتی ہیں۔‘‘
’’آپ خفا نہ ہوں ۔بس ایک دو دن میں حاضرہو جاؤں گی۔‘‘
’’جی جی وہ بھی خیریت سے ہیں۔ابا انشاء اللہ‘‘
’’جی جی ضرور۔۔دیدار تو ہم آپ کا کریں گے ابا۔۔۔۔‘‘
قبلہ تو آپ ہیں۔۔۔ابا آپ نے مجھے رلا دیا۔‘‘
سارا دن بیگم صاحبہ کے کانوں میں ابا کا یہ جملہ گونج رہا تھا۔’’تم آتی تو میں تمہارا دیدار کرتا۔‘‘اور اسکی آنکھوں سے آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔
وہ سوچ رہی تھی کہ ابا اب اصل میں عمر رسیدہ ہو چکے ہیں۔اسی لئے وہ بچوں کی طرح حرکتیں کرتے ہیں۔اب ہمارا دھیان انکی طرف زیادہ ہونا چاہئے۔
حاجی صاحب کے گھر آتے ہی انہوں نے ابا کے فون کے بارے میں بتا دیا۔حاجی صاحب کہنے لگے ۔ ’’بیگم آپ کو جانا چاہئے تھا۔آپ نے میرا انتظار کیوں کیا۔
’’خدا را جائیے۔اپنے والد کو یوں نہ تڑپائیں۔‘‘ بیگم بھی خوشی خوشی اپنے میکے جانے کے لئے تیار ہوئیں۔
اب کی آنکھیں اسے دیکھنے کو جیسے ترس گئی تھیں۔ویسے ابھی ملے ہوئے بہت عرصہ بھی نہیں ہوا تھا مگر جب سے امی کی وفات ہوئی ہے تب سے ابا کی نظر سارا دن دروازے پر ٹکی رہتی کہ بیٹی کبھی تو دروازے سے اندر آئے گی۔
بیٹی تو ماں باپ کے لئے راحت اور چین کا سامان ہوتی ہے۔حالانکہ بیٹی کے پیدا ہوتے ہی کتنے ہی لوگوں کو ناک بھوں چڑھتی ہے ۔مگر بیٹیاں تو بہرحال بیٹیاں ہیں۔ماں باپ کی راج دلاریاں ہوتی ہیں۔آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون ہوتی ہیں۔
ابا نے بیٹی کو دیکھ کر ہی من بنا لیا ’’آج میں تمہیں جانے نہیںدوں گا۔آج رات تم میرے پاس رُک جاؤ گی۔حاجی صاحب ماں کے ساتھ گذار لیں گے۔‘‘
بیٹی نے بھی زیادہ چوں و چرا نہیں کیا اورحاجی صاحب سے فون پر اجازت لے لی۔ باپ بیٹی میں خوب باتیں ہوئیں۔گلے بھی ہوئے۔ شکوے بھی ہوئے۔اور آخر کار سب اچھا ہوا۔دوسرے دن بیگم گھر آگئیں ۔
اس نے گھر کے اندر قدم رکھا بھی نہیں تھا اسے لگا کہ آج اس کا گھر ایک انجانی مگر بہت ہی عمدہ خوشبو سے مہک رہا تھا۔نہ تو وہ اسکے شوہر کے پرفیوم کی خوشبو تھی اور نہ ہی اسکے اپنے پرفیوم کی۔اس کا دماغ اندر آتے ہی معطر ہو گیا۔وہ سیدھا ماں جی کے کمرے میں چلی گئی۔خیر و خبر کے بعد پوچھنے لگیں۔
’’یہ کیسی خوشبو ہے آج یہاں ماں جی۔‘‘
خوشبو۔۔بیٹی مجھے تو معلوم نہیں۔مجھے تو کوئی خوشبو نہیں آرہی ہے۔‘‘ماں جی جواب دیا جیسے وہ دنیا مافیہا سے بے خبر تھی۔
وہ سوچنے لگی جانے کس نے اپنی تشریف آوری سے میرا سارا گھر مہکا دیا۔وہ ابھی اس مہمان کو ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ کسی کی آہٹ نے اسے چونکا دیا اور۔۔۔۔رقیہ ۔۔ دبے پاؤں اسکے گھر سے نکل رہی تھی اور خوشبو کا ریلا اسکے پیچھے پیچھے جا رہا تھا۔
سرینگر،موبائل نمبر؛09906570372