رات کے تقریبا ڈھائی بج رہے تھے ۔گھپ اندھیری سرد رات تھی، جس میں صرف کتوں کے بھونکنے کی مسلسل آوازیں آرہی تھی ۔سامنے والے گھر کا ڈور بیل تقریباًپچھلے دس منٹ سے کوئی مسلسل بجائے جارہاتھا ۔ بیچ بیچ میں دروازے پر زور زور سے ہاتھ پیٹنے کی آواز بھی صاف سنائی دے رہی تھی ۔ شاید کوئی سخت پریشانی میں مبتلا ہوگا یا پھر ہوسکتا ہے سردی میں ٹھنڈسے بچنے کیلئے کوئی مسافر رات گزارنے کی ٹوہ میں ہو ۔ میں نے اندازہ لگایا تو روبی نے کہا کہ شاید فرحان ہی ہوگا ۔ ہوسکتا ہے زیادہ کام کی وجہ سے لیٹ ہوگیاہو ، ویسے بھی تو وہ اکثر ۹ بجے کے آس پاس ہی گھر آتا ہے۔پر میں روبی کی باتوں سے متفق نہیں تھا ۔ کچھ دیر بعد ڈور بیل اور دروازے پر تھپ تھپ کی آواز بھی بند ہوگئی ۔
صبح جب میں برش کرتا ہوا اپنے بالکونی میں نکلا تو یکایک میری نظر فرحان کے دروازے پر پڑی، جہاں ایک ادھیڑ عمرشخص نظر آیا جو زمین پر نڈھال پڑا تھا ۔ اسکے جسم پر چادر تو تھی پر اسکا بدن ڈھکا ہوا نہیں تھا ۔ میں بغیر کسی تاخیر کے دانتوں میں برش دبا ئے دوڑتا ہوا وہاں پہنچا تو برجستہ میری زبان سے آہ کی آواز نکل آئی اور مارے شرمندگی کے آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ۔ مجھے لگ رہا تھا کہ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی اور کوتاہی تھی جس کا کبھی ازالہ نہیں کیا جاسکتا ۔ میں پشیمان تھا خود پر ۔ اس شخص سے میری ملاقات تقریبا دو سال قبل ہی محلے کی مسجد میںہوئی تھی ۔ جب وہ یہاں اپنے بیٹے سے ملنے آئے تھے ۔ انہیں نے تو میری ملاقات کرائی تھی فرحان سے ۔ اب اس شہر میں فرحان میرا سب سے بھروسے مند دوست ہے ۔ جو ایک نجی کمپنی میں ملازم ہے ۔
اس کے بعد جب بھی وہ شہر آتے میرے گھر ضرور آتے تھے ۔ حنیف چاچا میرے گھر کے ایک فرد کی طرح تھے ۔جو ہمیشہ مجھے اچھی اچھی باتوں اور اپنے قیمتی مشوروں سے فیض یاب کرتے تھے ۔ گذشتہ دو سال میں ہی ان کے ساتھ میرا رشتہ جیسے اٹوٹ بن چکا تھا ۔ ایک مہینہ قبل بھی تو آئے تھے، جب مغرب کی نماز کے بعد میری خیریت پوچھی تھی اور دعاؤں سے نوازا تھا ۔ شاید میں ان کی قیمتی صلاح اور دعاؤں کا قرض دار ہوگیا تھا
میں نے زور سے فرحان کو آواز لگائی کئی بار آواز دینے پر فرحان نے دروازہ کھولا تو اسکی نظر دروازے پر جمع بھیڑپر پڑی۔ وہ ابھی تک کچھ سمجھ نہیں سکا تھا ۔ اسکی آنکھیں جیسے کہ بھیڑ سے یہ جاننے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ یہاں کیوں جمع ہیں ؟ میں نے فرحان کو جھنجھوڑتے ہوئے حنیف چاچا کی طرف اشارہ کیا تو اسکے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ۔ اسکے حواس باختہ ہوگئے ۔ فرحان کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسؤوں کا سیلاب امڑ آیا ۔ کچھ لوگوں کی مدد سے میں نے حنیف چاچا کے مردہ وجود کو اٹھا کر گھر کے اندر رکھا ۔
فر حان اب اکیلا ہوچکا تھا ۔ آج جیسے اسکی ساری دنیا اجڑ چکی تھی، اب اسے ڈانٹنے والا بھی کوئی نہیں تھا کیونکہ بیٹا کہہ کر پکارنے والا اسے چھوڑ گیا ۔ اس پر ناز کرنے والا کوئی نہیں تھا ،رشک کرنے والا کوئی نہیں تھا ۔ کوئی ایسا نہیں تھا جو بغیر کسی ذاتی مفاد اور بلا واسطہ دلی محبت کرنے والا ہو ۔ ماں تو چار سال قبل ہی اللہ کو پیاری ہو چکی تھی اور اب والد بزرگوار بھی۔ پل بھر میں ہی فرحان کے گھر میں ماتم برپا ہوا اوراب گھر میں اگر بتیوں کی خوشبو، مانو، ہر کسی کو موت کی یاد دلا رہی تھی ۔ پورے محلے کے لوگ اس حادثہ سے واقف ہوچکے تھے دوچار گھروں کے لوگ تسلی دیکر واپس جاچکے تھے۔ مگر فرحان ابھی بھی بڑبڑائے جارہاتھا ۔ اسکے رونے کی آواز میں اسکا کوئی لفظ ڈھنگ سے ادا نہیں ہو رہاتھا ۔ وہ چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا ۔
میں نے فرحان کے رشتہ داروں کو خبر کر کے اگلے دن ظہر کے بعد انکی تدفین کا اعلان بھی کروادیا ۔ادھر پورے محلہ میں ساری باتیں چھوڑ کر محض اس بات کا چرچہ تھا کہ فرحان کے والد صاحب کا انتقال دروازے پر کیسے ہوا ؟ وہ کب آئے تھے ؟ اچانک ایسا کیا ہوگیا ؟ کیا فرحان اور اسکی اہلیہ کو ان کے آمد کی خبر نہیں تھی؟ فرحان اور اسکی بیوی روما کہاں تھی؟ وغیرہ وغیرہ
فرحان کے والد حنیف صاحب، جنہیں میں چاچا کہہ کر بلایا کرتا تھا ، نے ساری زندگی اپنے اکلوتے بیٹے کی پرورش اور تعلیم وتربیت میں صرف کردی تھی ۔ اپنی محنت کی کمائی صرف کرکے بہترین تعلیم وتربیت سے آراستہ کیا تھا اپنے لاڈلے کو ؛انجینئر بنایا تھا اسے۔ حنیف چاچا نے اپنے بیٹے کی تعلیم وتربیت میں کوئی کسراُٹھائے نہیں رکھی تھی۔انہیں اپنے انجینئر بیٹے پر بیحد ناز تھا اور ہمیشہ اسکی تعریف کیا کرتے تھے۔ فرحان ہمیشہ اس بات کا اعتراف بھی کیا کرتا تھا کہ وہ آج جو کچھ بھی ہے محض اپنے والد کے دم سے ہے، جس نے محض انکی تعلیم کے لئے نہ جانے کتنی صعوبتیں برداشت کی تھی۔ فرحان کو اس بات کا بھی بیحد ملال تھا کہ انکی والدہ ان کو انجینئر کے طور پر نہ دیکھ سکیں ۔
حنیف چاچا گذشتہ دوسالوں سے دل کے مرض میں مبتلا تھے ، فرحان انکا علاج شہر کے اچھے اور نامور ڈاکٹر سے کرارہاتھا ۔
پچھلے مہینے جب وہ یہاں آئے تھے تو میں نے اور فرحان نے ان سے بڑی ضد کی تھی کہ وہ یہیں رہیں لیکن حنیف چاچا نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ انہیں شہر کی زندگی راس نہیں آتی۔ انکا یہاں دم گھٹنے لگتا ہے کیونکہ بات کرنے والا کوئی اپنا نہیں ،خبر خیریت پوچھنے والا کوئی نہیں ہے ۔ انہوں نے فرحان سے کہا کہ وہ گاؤں میں ہی خوش ہے، کیونکہ وہاں انکی پشتینی زمین اور مکان بھی تو ہے اور پھر وہاں سب لوگ ہر ایک کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں۔حنیف چاچا نے فرحان کو یقین دہانی کرائی کہ وہ کبھی کبھی ملنے آیا کریں گے تم سے اور اسکے بال بچوں سے ۔ اپنے والد کی بات سن کر اس دن فرحان رو پڑا تھا ۔
ظہر کے بعد تدفین سے فارغ ہوکر جب میں گھر آیا تو فرحان بھی میرے پیچھے پیچھے آیا۔میں روبی کو چائے کے لئے بول کر آیا اور خاموش ہوکر کرسی پر بیٹھ گیا ۔ فرحان کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے، میں نے آگے بڑھ کر جیسے ہی اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھا وہ زور زو سے بچوں کی طرح رونے لگامیں نے بہت سمجھایا پروہ چپ کہاں سے ہوتا، یہان تک کہ میری آنکھوں میں بھی آنسوئوں کی جھڑی لگ گئی۔روبی چائے لے آئی اور ٹیبل پر رکھ کر واپس چلی گئی ۔میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی چائے کی پیالی اٹھائی اور فرحان کو پکڑادی۔ اس نے منع کیا پر میری ضد کرنے پر مان گیا ۔ چائے پیتے ہوئے دوبار اسکی آنکھوں سے آنسو گر کر چائے کی پیالی میں گرے مگر فرحان کو اسکی خبر تک نہ ہوئی۔ دراصل فرحان کو اس بات کی فکر ستا رہی تھی کہ اسکے والد کی ا س طرح کی موت پر لوگ اسکے بارے میں کیا کہیں گے ، کس کس طرح کے خیالات پالیں گے ۔اس کے بارے میں کیا سوچینگے ۔ اس سے بھی زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ اسکے رہتے ہوئے اسکے والد کی موت گھر کے دروازے پر ہوگئی۔ فرحان پوری طرح سے شرمندہ تھا حالانکہ اسکے والد کی موت اسکے گھر کے باہر ہونا محض ایک اتفاق تھا لیکن وہ پشیمان تھا اپنے آپ پر ، اپنی نیند پر ،اپنے رات دیر گئے تک کام کرنے پر، جسکی وجہ سے ڈور بیل سے بھی اسکی نیند نہ کھل سکی ۔
میں نے فرحان کو دلاسا دیتے ہوئے گھر بھیج دیا ۔ حنیف چاچا کی موت اتفاقی ضرور تھی پر موت دروازے پر ہونے کے لئے میں بھی اتنا ہی ذمہ دار اور قصوروار تھا جتنا کہ فرحان ۔ اب میری نظریں بار بارفرحان کے دروازے کے آگے اس چھوٹی سے سیڑھی نما جگہ پر جا رہی تھیں جہاں حنیف چاچا نے دروازہ نہ کھل پانے کی وجہ سے دم توڑ دیا تھا اور میرا ذہن بارباحنیف چاچا کی ان باتوں کو یاد کر رہاتھا، جب انہوں نے کہا تھا کہ شہر میں ان سے بات کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ شائد انہوں نے شہری زندگی کی صحیح تعبیر کی تھی کیونکہ اس رات بھی کو ئی حنیف چاچا کا پرسان حال نہ ہوا ۔۔۔
پرنسپل الحرا پبلک اسکول ہنوارہ گڈا ،8210994074