گورنر انتظامیہ نے پچھلے ہفتے ہی 921ڈاکٹروں کی تقرری عمل میں لائی ہے، جن کی تعیناتی سے دور افتادہ علاقوں میں کسی حد تک درپیش طبی عملے کی قلت کا مسئلہ حل ہوجائے گا لیکن ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب یہ ڈاکٹر ان علاقوں میں ڈیوٹی دینے کیلئے ذہنی طور پر پور ی طرح سے آمادہ ہوںگے ۔ان میڈیکل افسران کی تقرری فاسٹ ٹریک بنیادوں پر ہوئی ہے اور محکمہ صحت و طبی تعلیم نے بھرتی کایہ سارا عمل تین ماہ کے اندر مکمل کیا جو بیروزگار ی کی مار جھیل رہی ریاست جموں وکشمیر کیلئے ایک خوش آئندبات ہے اور اس سے افرادی قوت کے لحاظ سے طبی شعبہ بھی مضبوط ہوگا۔ان میڈیکل افسروں میں سے 35 اننت ناگ، 18بانڈی پورہ، 58 بارہمولہ، 28 بڈگام، 119 ڈوڈہ، 33 گاندربل ، 32 جموں ،52 کرگل ، 84 کٹھوعہ ، 46 کشتواڑ ، 62 کپواڑہ، 30 کو لگام، 33 لیہہ ،27 پلوامہ، 81 پونچھ، 56 رام بن ، 57 راجوری، 16 ریاسی، 8 سانبہ، 15 شوپیاں اور 41اُمیدواروں کو ادھمپور ضلع میں تعینات کیا گیا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست کے دورافتادہ اضلاع خاص طور پر خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں طبی عملے کی پچاس فیصد سے بھی زائد اسامیاں خالی پڑی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے ان خطوں میں طبی نگہداشت کے نظام کا حال انتہائی خراب صورتحال پیش کررہاہے ۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ان دونوں خطوں کے کسی ضلع میں ساٹھ فیصد کے قریب تو کسی میں اس سے بھی زائد اسامیاں خالی ہیں جہاں اب نئے ڈاکٹروں کی تعیناتی سے خالی پڑی سبھی اسامیاں پوری طرح پُر تو نہیں ہوجائیں گی البتہ علاج و معالجے کے نظام میں نمایاں تبدیلی رونماہوگی اور مریضوں و زخمیوں کوبیشتر سہولیات بنیادی سطح پر ہی فراہم ہوسکیں گی ۔ان خطوں کے عوام کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ دور دراز علاقوں میں ڈیوٹی دینے کیلئے اکثر ڈاکٹر تیار ہی نہیں ہوتے اور صرف شعبہ صحت ہی نہیں بلکہ دیگر شعبوں کے بیشتر افسران کی بھی یہی منشا ہوتی ہے کہ بچوں کی تعلیم و دیگر معاملات آسانی سے نمٹانے کیلئے ان کی تعیناتی شہروں یا اُنکے آس پاس کے علاقہ جات میں رہے جسے یقینی بنانے کیلئے بڑے پیمانے پر سیاسی سفارشات سے بھی کام لیاجاتاہے ۔راجوری ، پونچھ ، ڈوڈہ ، کشتواڑ ، رام بن اور دیگرپہاڑی اضلاع میں ڈاکٹروں کیلئے قیام کا معقول بندوبست نہ ہونا بھی ایک مسئلہ بن جاتاہے اور وہ چاہتے ہیں کہ گھر کے قریب ہی ڈیوٹی دیں یا کم از کم ایسی جگہ رہیں جہاں رہنے کیلئے بندوبست ہو، جس وجہ سے بھی ڈاکٹر ان علاقوں میں خدمات انجام دینے سے کتراتے رہتے ہیں،نتیجہ کے طور پر مریضوں اور زخمیوں کو معمولی سے علاج کیلئے بھی جموں آنے پر مجبور ہوناپڑتاہے جو غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کیلئے کافی مشکل امرہے۔اب گورنر انتظامیہ نے ریکارڈ مدت میں 921ڈاکٹروں کی تعیناتی عمل میں لائی ہے جس سے طبی نظام میں قدرے بہتری آنے کی توقع ہے تاہم نظام میں تبدیلی لانے کیلئے جہاں حکام کو ڈاکٹروں کیلئے مناسب رہائشی سہولیات دستیاب رکھناہوں گی وہیں طبی عملے کو اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوناہوگااور زیادہ نہیں تو کم از کم شعبہ صحت و شعبہ تعلیم کو لامتناہی ٹرانسفروں سے دور رکھاجاناچاہئے ۔ساتھ ہی حکام کو دورافتادہ علاقوں میں عملے کی مزید تعیناتی کے ساتھ ساتھ طبی ڈھانچے بشمول مشینری کو بھی مستحکم بناناہوگا ۔