کچھ عرصہ قبل میٹرک کے امتحانی نتائج کا اعلان ہوا ، پھر کئی دن بعد بارہویں جماعت کے نتائج مشتہر ہوئے ۔ حسب سابق جس طرح میٹرک میں طالبات نے میدان مارلیا ،اُسی طرح بارہویں جماعت کے نتائج پر بھی طالبات حاوی رہیں ۔ طلبہ وطالبات کے لئے بارہویں جماعت کے نتائج فیصلہ کن انداز میں بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ سچ پوچھئے تو یہی وہ کلاس ہے جہاں سے عام طور طلبہ وطالبات کی ذہنی صلاحیتوں اور تعلیمی مستقبل کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں نئی پود کی قابلیتوں اور ذہنی اٹھان کے حوالے سے یہ کلاس ایک آئینہ ہوتی ہے۔ یہیں سے لڑکے لڑکیاں پروفیشنل کالجوں کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔ بارہویں میں اچھے خاصے میرٹ کی بنیاد پر اور مسابقتی امتحان پاس کرنے کے بعد ہی خوش نصیب سٹوڈنٹ میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں داخلہ پاتے ہیں اور آگے اپنی منزل پر پہنچ کر جاب کی تلاش میں سر گرداں ہوجاتے ہیں ۔ جن ہزاروں طلبہ وطالبات کے خواب بارہویں جماعت کی منزل پر آکر بکھر جاتے ہیں تو وہ بھی نئی امنگیں لے کر نئی منزلوں کی طرف گامزن ہوتے ہیں اور اپنی قابلیتوں کے نئے اُفق کھوجتے ہیں ۔ کوئی وطن میں نئی سعی وکاوش کا جھوکم اٹھاتا ہے، کوئی بیرونِ ریاست قسمت آزمائی کا سلسلہ شروع کر تا ہے ، کسی کے نصیبے میں پاکستان ، بنگلہ دیش ، روس ، چین ، یورپ وغیرہ جاکر ڈگری کورسز کا حصول آتا ہے۔یہی کچھ ہمارے روایتی نظام تعلیم کا لیکھا جوکھا ہے ۔
ہر سال کی طرح اِمسال بھی یہ منحوس خبریں سنی گئیں کہ دسویں یا بارہویں کے امتحانات میں ناکام ہونے یا کم نمبرات حاصل کرنے کی وجہ سے نفسیاتی طور پسپا ہو کر بعض طالبات نے اپنا کام تمام کیا ۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ مسئلہ ہے جس پر تعلیمی حکام، والدین اور سماج کچھ دن واویلا توکر تے ہیں مگر افسوس کہ انہیں کبھی یہ
تو فیق ہی نہیں ملتی کہ ان حوالوں سے سب سے پہلے ا پنا احتساب کر یں، ا س کے اصل ذمہ دار نظام تعلیم کی فرسودگی کا جائزہ لے کر اصلاحات کی نشترزنی کریں ، ا س کے ا ندر طلبہ کی شخصیت میں مسابقت کے نام پرمایوسی اور قنوطیت کے جرثومے سرایت کر نے کا تدارک کریں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ناکام طلبہ و طالبات میں خود کشی جیسے اندوہ ناک واقعات کا صدوربار بار ہونے کے باوجود ان سب پر اپنے اپنے دائر ے میں یہ فرض عائد نہیں ہوتا کہ بچوں اور بچیوں کی نازک نفسیات کا فہم وادراک کریں اور انہیں امتحانی نتیجے کو زندگی کا ماحصل سمجھنے کی منفی سوچ سے بچائیں تا کہ اس طرح کے واقعات ہی وقوع پذیرنہ ہوں۔ ا س پس منظر میں بھی بلاشبہ نظام ِ تعلیم کو سر تا پا سدھارنے کااحساس سر کاری سطح پر ہر وقت موجود رہا، پھر بھی اصولی طورنئے زمانے کے چلنجوں کاسامنا کر نے اور جدید تقاضوں پر پورا اُتر نے کیلئے پرائمری سے لے کر یونیورسٹی سطح تک نظام تعلیم میں تجدید و اصلاح کی نہ صرف بہت گنجائش ہے بلکہ اس کی اَشد ضرورت بھی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے نظام تعلیم وتدریس میں ابھی تک دقیانوسیت کا عیب اور فرسودگی کا نقص ہی نہیں پایاجاتا بلکہ یہ عصری تقاضوں اور ضروریات سے بھی کوئی خاص مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ آج کی بات نہیں بلکہ۴۷ء کے بعد سے برابر ہوتا چلاآرہاہے کہ تعلیمی سسٹم میں ضروری اصلاحات کی جاتی رہیں ، اس کے اندرون وبیرون کو سدھارنے کی کاوشیں کی گئیں ، اسے وقت کے سانچوں میں ڈھالنے کی سر کاری سطح پر کارآمد کوششیں بھی ہوئیں ، بہت سارے کمیشن بٹھائے گئے ، سروے کئے گئے، سفارشات کے انبار لگائے گئے ، تعلیمی نصابوں کوا لف تا یا بدل دیا گیا، نئے نئے تجربات کے دفتر کھولے گئے مگر نتیجہ ندارد۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور وقت وقت پر امتحانی سسٹم کی اور ہالنگ بھی کی جاتی رہی تاکہ اسے بچوں اور بچیوں کی نفسیات سے منطبق اور عصری مطالبات سے ہم ٓآہنگ کیا جائے ، میٹرک اور پلس ٹو کے ضمن میں خاص طور بار بار تجربات کئے گئے، ایک موقع پر این سی آرٹی کا نصاب بھی اسی وجہ سے سکہ ارئج الوقت بنایا گیا۔ان آدھی ادھوری کوششوں کا کچھ کچھ اثر تو
ہو امگر مجموعی طور زمینی سطح پر آج بھی اصلا ًوہی انگریز وں کا رائج کردہ ایجوکیشنل سسٹم ہمارے یہاںچل رہا ہے ۔ حالانکہ اس سسٹم پریہ چوٹیں کر کے ا س سے پیچھا چھڑانے کی بڑی کوششیں کی گئیں اور کہا گیا کہ ُاُنیسویں صدی کے ا س فرسودہ نظام تعلیم سے انگریز محض’’ بابوؤں‘‘ کوہی پیدا کر نا چا ہتے تھے ۔ ایک انگریز دانش ور نے یونہی نہیں کہا تھا کہ ہندوستان میں ہمارے نافذ کردہ تعلیم کا اثر یہ ہوگا کہ ہندوستانیوں کی کھال کارنگ سیاہ ہ رہے گا مگر اُن کی رَگوں میں ہمارے خیالات کا خون ا ور دماغ میں ہماری سوچ گردش کر گی ۔ تاریخی سچ یہ ہے کہ آج بھی اس تعلیمی تخم میں اتنی ہی محدود پیداواری صلاحیت موجود ہے۔
بایں ہمہ اس حقیقت سے انکار کی مجال نہیں ہوسکتی کہ انگریزوں کے اسی نظام تعلیم کے پروردہ ہمارے چاند تارے اپنی روایتی آب وتاب کے ساتھ مختلف شعبہ ہائے حیات میں چمکتے دمکتے رہے ،ان میں
بر صغیر کے چوٹی کے لیڈر بھی شامل تھے ، سائینس دان بھی تھے ، آزادیٔ برصغیر کی قیادت کرنے والے سیاست دان بھی تھے ، مدبرین ، ،دانش ور ، مختلف پیشوں کے امام ، قلم کار، صحافی، معلم وغیرہ اور شہرہ آفاق شخصیات بھی شامل تھیں۔ آج کی تاریخ میں اس نظام تعلیم میں جامدیت کا حال یہ ہے کہ ماضی کے ان قابل ذکر ثمرات کے حوالے سے اب ہماری زمین بانجھ اور بنجر ہو چکی ہے ۔ بہر صورت ہمارے اوپر مسلط تعلیمی نظام کے زیر سایہ امتحانات کے لئے بچوں اور بچیوں کی تیاری اسی ڈھنگ سے چل رہی ہے جو ستر برس پہلے تھی ۔ آج بھی بچے روایتی نوٹس کی مدد سے اسباق کا اسی طرح رَٹالگاتے ہیں جس طرح گوروں کے دور میں ہو اکر تا تھا۔ اس زمانے میں وہیcraming( گوٹا فکیشن ) کا رواج جاری وساری ہے ۔
نظریۂ تعلیم کے موضوع پرعامر خان کی فلم ’’تارے زمین پر‘‘ بڑی اچھی فلم تھی ۔اس میں انہوں نے یہ بتانے کی یہ کامیاب کوشش کی ہر بچے انمول صلاحیتوں کا خزانہ چھپا ہوتا ہے اور تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو کس طرح پرموٹ کر نا چاہیے ، کس طرح کی تعلیم وتربیت کا اہتمام ہونا چاہیے ، یہ بات فلم میں بڑی خوبی سے فلمائی گئی ۔ شاید ایسے تعلیمی اداروں اور جاندر تعلیمی نظا م تک پہنچنے کے لئے ہمیں ابھی صدیوں تک انتظار کرنا ہوگا ۔ اس کے برعکس تعلیم وتدریس کے نام پر ہمارے پاس کونسا کوڑا کرکٹ جمع ہے ؟ ہم اپنی نئی نسل کو کہاں دھکیل رہے ہیں ؟ا سے کن اندھیروں کی نذر کر رہے ہیں ؟ ان سوالوں کا جواب ہمیں پچھلے کئی دن کی غم ناک خبروں سے مل جانا چاہئے ۔ اطلاعات کے مطابق کئی نو عمر طلباء اور طالبات نے امتحانات میں ناکامی کی وجہ سے اپنی جانیں دیں۔ کسی معصوم ونافہم طالب علم کا زندگی جیسے انمول شئے کو ناموافق حالات کے دباؤ میںخود کشی کرکے گنوانا، وہ بھی صرف اس لئے کہ بارہویں میں اچھے نمبرات کے ساتھ پاس نہ ہوا ، یا وہ سرے سے ناکام رہا ، یہ اسی برس کی کہانی نہیں بلکہ ہر برس نتائج آنے کے ساتھ ایسے واقعات رونماہوتے ہیں۔ آج بہت کچھ بدلنے کے باوجود ہمارے امتحانات اسی نقطے کے ارد گرد گھومتے ہیں کہ کس بچے میں زیادہ یا د رکھنے کی قابلیت ہے اور وہ بھی تین گھنٹوں کے دورانیے میں ۔ ذہنی دباؤ کے باوجود وہ کتنا فوری طور vomit کر کے جوابی پیپر پر انڈیل سکتا ہے ، اس فضامیں تخلیقی قوتوں کو دستک دینے کا کوئی موقع پیدا ہی نہیں ہوسکتا ۔ مسئلے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اکثر بچوں اور والدین میں یہ بات راسخ ہوچکی ہوتی ہے کہ بچے کے ہاتھ کسی بھی طرح ، جائز ہو یا ناجائز ایک کاغذی ڈگری آنی چاہیے ، اس کے بعد پھر جائز و ناجائز کو بالائے طاق رکھ کر یا پچاس سٹھ لاکھ ڈونیشن پر کہیں نہ کہیں بچے کو ڈاکٹری یا انجینئرنگ کے لئے داخلہ پانا ہے ۔آج کل زیادہ تر والدین کی تمام فکریں اور جستجوئیںاسی ایک نقطے میں سمٹ چکی ہیں ۔ بچوں کے ذہن اور نفسیات میں راسخ کی جاتی ہے کہ بارہویں میں فیل ہونا یا کم مارکس سے پاس ہونے کے بعد اس کی زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں رہتا۔ نیز لاشعوری طور پر ہر بچے کے دماغ میں اس بات کا ٹیپ چوبیس گھنٹے بجتا رہتا ہے کہ اُسے کم از کم ڈاکٹر ، انجینئر،سائنٹسٹ یا اس جیسی پوسٹ پر پہنچنا ہی پہنچنا ہے جس کے بغیر ساری زندگی بے کار اور بے مقصد ہے ۔ اسی لئے والدین بچوں کی ذہنی اُپچ، دلچسپیوں اورمیلانات دیکھ کر انہیں اس سمت گائیڈ کر نا تضیع اوقات سمجھتے ہیں۔ ان کے دل ودماغ میں صرف ایک خواب حاوی رہتا ہے کہ بچے کوا سکول سے واپسی پر اکادمی جانا ہے، مختلف ٹیچرس سے مختلف مضامین کا ٹیوشن پڑھنے جانا ہے ، اس کا خرچہ پورا کرنا ہے ۔ ان ’’ کرم فرمائیوں‘‘کے بدلے میں سبھی والدین اپنے بچوں سے ۹۸یا ۹۹ فی صد نمبرات سے کم کی امید ہی نہیں رکھتے، بنایہ دیکھے کہ بچے کی اپنی قدرتی لیول کیا ہے اور وہ کہاں تک اُڑان بھر سکتا ہے۔ والدین یہ بھول جاتے ہیں کہ کا ئنات جس رب نے بنائی ہے، اس نے اس کی رنگا رنگی اور تنوع برقرار رکھنے کے بھی انتظامات کر رکھے ہیں ۔ اس لحاظ سے سارے بچے ایک ہی IQکا حامل نہیں ہوسکتے ۔ یہ ایک سائنٹفک حقیقت اور تسلیم شدہ آفاقی سچ ہے لیکن والدین بچے سے وہ کچھ مانگتے ہیں جو بسااوقات اس کی ذہنی اُپج اور اس کے اندر خاد کے دست ِ رحم سے ودیعت کی گئیں صلاحیتوں کے مطابق نہیں ہو تا ۔ یہ عجیب وغریب سچویشن جب سٹریس بن کر معصوم بچے کے قلب وذہن پر بڑھ جاتا ہے تو یہ بوجھ اس کے لئے اتنا ناقابل برداشت ہوتا ہے کہ کبھی کبھار وہ اپنی زندگی کا خاتمہ ہی اس جنجھٹ کا حل سمجھتا ہے ۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ آج کل والدین بچوں میں ذہنی واخلاقی نشو ونما کے اس فطری اندازکو نظر انداز کرتے ہیں جو ہر انسان کو بہتر اخلاق اور مثبت صلاحیتوں سے سجا کر اور سنوار کر اُسے سماج کے لئے ایک بہتر فردثابت کر تاہے کہ وہ اپنی فطری قابلیتوں اور رجحانات کے بل پر سماج کی بہتری اور اپنے معاش کی کمائی میں عزت ِنفس کی شاہراہ پر سر اُٹھاکے زندگی کی گاڑی چلاتا ہے ۔ یا درکھئے اس بچے کے نصیب میں حصول ِتعلیم کے بعد جو کوئی پیشہ یا کام لکھا ہو ، وہ نہ صرف اپنے کام، ہنر یا فن سے انصاف کر تاہے بلکہ اس کے علم وآگہی کا محور لامحالہ اخلاق ِ حمیدہ ، نیکیاںاور بھلائیاں بنتی ہیں ۔ دین اسلام کا لبِ لباب اگر ایک لفظ میں سمیٹیں تو یہ’’اخلاق ‘‘ میں سمٹتا ہے ۔ایک شخص نے تین مرتبہ حضور ﷺ سے پوچھا کہ دین کیا ہے ؟تینوں بار جواب ملا ’’ اخلاق‘‘اور میں جب اخلاق کی تشریح وتوضیح کریں تو یہ an all round development of mind body and soul ہے ۔ ہمیں خود اپنے لئے اور اپنے بچوںکے لئے اخلاق اور تہذیب کو تعلیم وتدریس کی شاہ کلید سمجھ کران میں دین و اخلاق کی اساس مضبوط کر نی چاہیے تاکہ و ہ زندگی کی امانت سے پیار کرنا سیکھیں ، تقدیر کے ہر فیصلے پر رضامندی کا درس پائیں ، محنت ومشقت کا بار ضرور اٹھائیں مگر کامیابی کی اُمید صرف اللہ سے رکھیں۔ اگر والدین اس کے برعکس معاملہ کر یں تو اس سے بچے اچھی دنیوی تعلیم پانے کے باوجود مخالف کھائیوں میں لڑھک سکتے ہیں، وہ خدا نخواستہ ذہنی انتشار اور اضطراب میں پڑکر حقیقتوں سے بغاوت کرسکتے ہیں، نشہ بازی میں سکون ڈھونڈنے کی جانب بڑھ سکتے ہیں یا اللہ نہ کر نے اپنے یا سماج کے درپئے آزار ہو سکتے ہیں ، والدین کو صبر اور سکون سے اپنے بچوں کی اٹھان کو سمجھتے ہوئے اوران کے i qکے مطابق ہی ان کے مستقبل کی سمت طے کر نی چاہیے اور یہ بات گرہ میں باندھ لینی چاہیے کہ بچوں کی زندگی کی آخری اور حتمی منزل صرف ایم بی بی ایس یا انجنیئرنگ کورس نہیں بلکہ اپنی ذہنی اُٹھان کے مطابق اُن کے لئے زندگی کے تمام میدان کامیابیاں پانے کے لئے کھلے ہیں۔ اوراگر وہ ڈاکٹر یا انجینئر بنیں تو انسانیت اور اخلاق سے آراستہ والے بنیں تاکہ سماج میں بہتر ین انسان کے طور اپنا رول ادا کرسکیں ، چھوٹا ملازم یا بڑا ملازم بنیں تو انسان دوست ثابت ہوں ، تجارت پیشہ یا کاریگر بنیں تو دیانت وامانت کے پیکر ہوں۔ تعلیم کا نظام انہی خطوط پرا ستوار ہو اور والدین اپنے بچوں اور بچیوں کا استاد اور تربیت گاہ بن کر تعلیم وتدریس کے ساتھ ساتھ انہیں اخلاقی اوصاف کا چلتاپھرتا نمونہ نور بنائیں تاکہ ا یک صالح اور انسانیت نواز معاشرے کی تشکیل کا خواب
شر مندہ ٔ تعبیر ہو۔ ایسی ہی تعلیم اور ایسی ہی تربیت ہر لحاظ سے انسان کی کامیابی اور انسانیت کی معراج کہلاسکتی ہے۔
[email protected] con 9419514537