ایک علم محققین کا ہوتا ہے جو دنیوی ضرورتوں اور اُخروی تیاریوں کے درمیان وقت کے تقاضوں کو زیر نظر رکھ کر توازن قائم کرتے رہتے ہیں۔ ان کو یہ فکر بھی لاحق رہتی ہے کہ مسلمان دنیا میں مغلوب، مظلوم اور بے وقار بن کر نہ رہنے پائیں اور یہ غم بھی انہیں کھائے رہتا ہے کہ انسان اخروی تیاریوں سے غافل نہ رہیں اور ہمیشہ کی زندگی میں دوزخ کا ایندھن نہ بن جائے۔ ایسے ہی عالم 'پل صراط پر چلنے والے ہوتے ہیں جو آسان کام نہیں۔ وہ اگر دنیا کی نئی ٹیکنالوجی، نئی ایجادات اور نئی دریافتوں سے بے خبر رہے اور وقت کے مزاج کو نہ سمجھ سکے تو وہ مسلمانوں کو وہی راستہ بتانے لگیں گے جو حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے اختیار کیا تھا اور جس کی تلقین وہ دوسروں کو بھی کرنے لگے تھے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے اصحاب رضی اللہ عنہم ستاروں کی طرح ہیں، جو جس کے پیچھے چلا وہ نجات پاگیا مگر جو راستہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے اپنایا وہ ایسے لوگوں کے لئے ہے جو اس دنیا سے کوئی سروکار نہیں رکھتے اور زندگی کا سارے کا سارا وقت اللہ کی عبادت کے لئے وقف کردیتے ہیں۔ اسی لئے ایسا راستہ اختیار کرنے پر حضرت ابوذر ؓکو جنگل میں پناہ لینی پڑی تھی اور وہیں ان کا وصال ہوا۔ اسلام میں ترک ِ دنیا یا رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں لیکن کوئی زندگی کے آخری ایام صرف یاد خدا میں مشغول رہ کر گزارنا چاہتا ہو تو اسلام اسے منع بھی نہیں کرتا۔ اسی لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی ابوذر رضی اللہ عنہ کی آخری زندگی کے حوالے سے کچھ اشارےفرمائے تھے کہ ان کی زندگی کے آخری ایام میں کیا پیش آنے والا ہے۔ قبل ا زیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عالم شباب میں ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ غزوات میں بھی شریک رہے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر اپنی قوم میں جاکر تبلیغ حق کا کام بھی کیا ۔ بالآخر حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ مدینہ سے دور ایک صحرائی مقام ربذہ میں حکماً مستقل طور سکونت اختیار کر گئے جہاں 32 ہجری میں وہ رفیق اعلیٰ سے جاملے ۔
اسلامی تعلیمات کی رُوسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا انسانی غیرت اور خودی کے منافی ہے، اس لئے اپنی خودی کو ضعف سے تحفظ کی خاطر اور خودی کے استحکام کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد شریعت کا جز ولاینفک بنا۔ انسانی زندگی کو بدحالی سے دور رکھنے کے لئے معیشت کی خوشحالی ضروری ہے، تاہم اسلام اس معاملے میں بھی اعتدال پر زور دیتا ہے۔ معیشت کے استحکام میں اجتماعی اور انفرادی مفادات ہیں مگر یہ بات ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کا اصل مقصد انسان کو اس کے اصل مقصد سے روشناس کرانا ہے اور وہ یہ پیغام ہے: اے انسان! یہ دنیا تیرے لئے ایک عارضی جگہ ہے اور تیری مستقل سکونت آخرت ہے، یہ دنیا ایک پڑاؤ ہے اور تیری منزل آخرت ہے، اب چند دنوں کی جو مہلت تمہیںیہاں اس دنیا میں ملتی ہے ،اسے اپنے خالق کو پہچاننے اور اس کی رضا حاصل کرنے میں لگالے کیونکہ اسی میں تیری حقیقی کامیابی ہے، تیرا اصل مقصود وہی ہے، مگر اس دنیا میں بھی اپنی ضرورتوں کے پورا کرنے کی فکر کر اور ان ضرورتوں کے سامان کا انتظام کر تاکہ تو پریشانیوں اور محتاجی سے محفوظ رہ سکے، اور دشمن کی چالوں سے بھی غافل نہ رہ اور اپنے دفاع کے سامان کا بھی انتظام رکھ۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کچھ مسلمانوں کو اس بات پر حیرانگی ہے کہ ہم خدا کے خاص الخاص بندے ہوکے بھی دنیا میںکیوں پٹ رہے ہیں اور امریکہ( ان کے مطابق) بے حیا اور غیر مسلم ہوکے بھی سپر پاور کیسے بنا؟ یہ بات ’’خدا کے یہ خاص الخاص بندے‘‘ بھول رہے ہیں کہ وہ خدا کے نافرمان ہونے کے باوجود ’’خاص بندوں‘‘ میں کیسے شمار ہوگئے اور امریکی قوم انسانی ترقی میں زندگی کا سرمایہ لگانے کے باوجود کیوں کر پٹائی جاتی؟یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ عالمی کرنسی میں اسلام کے نام پر بنی مملکت پاکستان یا اسلامی 'ترجمان سعودی عرب کے ملک کی کرنسی نہیں بلکہ امریکی ڈالر ہی سکہ ٔ رائج الوقت ہے جس کے سرے پر لکھا ہوتا ہے -In God, We Trust:اس کا اردو ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے :’’ہم خدا پر توکل کرتے ہیں‘‘مجھے یہ بات کبھی سمجھ میں نہیں آئی کہ مسلمانوں کو ہی کیوں یہ سبق پڑھایا جاتا رہا ہے کہ سائنس ہمیں خدا پر یقین نہ رکھنے کی بات سکھاتا ہے؟ امریکی کیوں خدا پر توکل کے باوجود پورے عالم میں سائنسی برتری کا درجہ پاگئے؟ یہ جو اَن پڑھ مبلغ وداعی کے منصب پر چڑھ گئے یا چڑھائے گئے ہیں، ان سے ہی مسلمانوں میں ذہنی بگاڑ پیدا ہوگیا اور مسلمان صرف نماز، تلاوت قرآن اور ٹخنوں کے اوپر پاجامہ رکھنے کو ہی اسلام کا لب لباب سمجھنے لگا۔ ان جاہل مبلغوں نے اسلام کی ایسی تصویر کھنچی کہ دین حق (نعوذ باللہ) کوئی شیشے کی عمارت لگنے لگی جو سائنس کے پتھر سے ٹوٹ جائے گی!!! کیا ان کو معلوم نہیں کہ اسلام کی عمارت حق کے فولاد سے بنی ہے، اسے باطل کے ایٹم بموں سے بھی توڑا نہیں جاسکتا؟ جاہل لوگ ہمیشہ مسلمانوں کے حصول علم کی راہ میں حائل رہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور پاک میں بھی ملحد تھے اور موحد دجال کے دور میں بھی ہوں گے۔ سائنس کا کسی کو موحد اور ملحد بنانے میں کوئی رول نہیں ہوتا۔ سائنس ایک علمِ دنیا ہے جس کو بروئے کار لاکر مادے کو مختلف صورتوں میں بدلایا جاسکتا ہے۔ ایمان کو بڑھانے یا گھٹانے میں اس کا کردار نہیں ہے۔ بے ایمان اَن پڑھ بھی ہوسکتا ہے اور ایمان والا سائنس دان بھی ہوسکتا ہے۔ جتنا جتنا سائنس ترقی کرتی جارہی ہے، اتنا ہی زیادہ اہل ایمان کے دلوں میں ایمان کا اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر افسوس یہ کہ نہ اَمارت کو علم جاننے والا، نہ عدالت کو علم جاننے والا اور نہ خلافت کو علم جاننے والا یہ سمجھ سکا ہے کہ وہ اپنے الگ الگ کنوؤں کے مینڈک بنےہیں جب کہ علم ایک بے کراں سمندر کا نام ہے، اور اسلام امارت، عدالت اور خلافت کے وکیلوں اور مبلغین کو دعوت دیتا ہے کہ اپنے اپنے کنوؤں سے باہر آئیں اور سمندر میں کود جائیں تاکہ اس کی وسعتیں انہیں زندگی کے معنی ومقصد اور جینے کی انتہاؤں تک لے جاسکیں۔ میں مانتا ہوں کہ سائنس بھی کوئی حتمی چیز نہیں ہے، اس میں اکثر ا لاوقات آج کی تحقیق کل کی نئی تحقیق سے غلط بھی ثابت ہوتی ہے۔ حتمی صرف اللہ کی بات ہے، صرف اللہ کی بات ہے، مگر سائنس کی افادیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یہ انسان کی مادی ترقیات میں بہت مفید ہے۔حق یہ ہے کہ آج کے دور میں مسلم ریاستیں اور حکومتیں تو بہت ہیں مگر اسلامی مملکت کوئی نہیں۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے پروفیسر حسین عسکری نے ایک تحقیق کی ہے کہ’’اسلامی ممالک کس حد یا درجہ تک اسلامی ہیں‘‘۔ تحقیق کے دوران انہیں پتہ چلا کہ جن ممالک میں اسلامی اصول روبہ عمل ہیں، وہ روایتی مسلمان نہیں ہیں۔ جن ملکوں میں اسلامی اصول نافذالعمل ہیں، وہ درجات کے حساب سے حسب ذیل ہیں:
(1) نیوزی لینڈ
(2) لکسمبرگ
(3) آیر لینڈ
(4) آئس لینڈ
(5) فن لینڈ
(6) ڈنمارک
(7) کینیڈا
(38) ملیشیا
(48) کویت
(64) بحرین
اور حیرانگی کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب 131 درجے پر آیا ہے۔یہ تحقیق 'گلوبل اکانومی جریدے میں چھپی ہے۔ یوں تو یہ تحقیق بہت سے لوگوں کے لئے چونکا دینے والی ہوگی مگر جب ہم خود بھی باریکی سے اپنے وجود اور ارد گرد کے ماحول اور صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ تحقیق صد فی صدسچ ثابت ہوتی ہے۔
بہر حال پاکستان میں جوڈیشری کی طرف سے منعقد کی گئی تقریب میں( جس کا مضمو ن کی پہلی قسط میں ذکر آیا ہے ) آبادی میں اضافے کو ملک کی تعمیروترقی میں حائل بڑی رکاوٹ قراردیا گیا اور ملک کی تعمیر وترقی کے لئے فیملی پلاننگ کو وقت کی سب اہم ضرورت بتایا گیا۔ ایسی بے وزن اور جاہلانہ دلائل سےمجھے کبھی کبھی اس نام نہاد جمہوریت سے ہی دَم گھٹنے لگتا ہے، جس میں انسان کی آزادیوں پر ایسے بند باندھے جارہے ہیں کہ لگتا ہے وہ پتھر والا زمانہ ہی اچھا رہا ہوگا۔ آج حکومتیں اپنی نادانیوں پر منتج ہونے والی بدحالیوں کی ذمہ داری انسان کی فطری آزادی پر ڈالنے کا آسان نسخہ دریافت کرچکی ہیں۔ بقول کسے’’کار بد خود کرے لعنت کرے شیطان پر‘‘۔انسان جتنا جتنا قدرت اور فطرت سے نبردآزما ہوتا رہے گا ،اسی مقدار اور اسی تناسب سے وہ اپنی تباہیاں مول لے گا۔ ملک کی تعمیر وترقی کا دارومدار اور پیداواری کامیابیوں کا انحصار انسان کے نظم اور انتظام سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ فطرت کے تقاضوں اور قدرت کے اصولوں سے۔ آپ قدرت کے نظام میں مداخلت بند کردو اور اپنے نظم، نظام اور انتظام کو بہتر بناو تو ہر سطح پر کامیاب ہوجاؤ گے۔لاکھوں برس سے ہزاروں دریا جاکر سمندر میں گررہے ہیں مگر سمندر کبھی بھر نہیں جاتا کیونکہ قدرت اپنے اصولوں سے یہ کارخانہ چلارہا ہے۔ ماحول قدرت کے اصولوں کے مطابق چل رہا تھا تو آب وہوا وغیرہ سب کچھ ٹھیک تھا۔ انسان نے جب سے ماحولیات میں مداخلت شروع کردی تو ماحول ہی کو آلودہ کردیا اور زندگیوں کو ہی خطروں میں ڈال دیا۔انسانوں کی آبادی جب بہت کم تھی تو عام آدمی کو مشکل سے ہی دو وقت کی روٹی نصیب ہوتی تھی اور اس کے لئے گھر کا انتظام بہت ہی دشوار تھا۔ آج اس پرانے زمانے کے مقابلے آبادی تقریبا سو گنا بڑھ گئی ہے تو فصل کی مقدار میں بھی اتنا اضافہ ہوا ہے کہ اجناس کے ذخیرہ کے لئے گودام کم پڑ رہے ہیں۔ جس زمین کے ایک ایکڑ سے دس کونٹل شالی کا ٹی جاتی تھی وہ اب سو کونٹل چاول دینے لگا ہے۔ جس زمین سے سال میں ایک بار فصل لی جاتی تھی، اب اس سے سال میں دوبار فصل لی جاتی ہے۔ دس دس، بیس بیس، تیس تیس، پچاس پچاس سے زائد منزلوں کی ایسی وسیع وعریض اور فلک بوس عمارتیں بننے لگی ہیں کہ ایک ایک عمارت میں ہزاروں لوگوں کے رہن سہن کا انتظام ہوتا ہے۔ اس لئےیہ بس صالح نظم کی کمی یا عدم علم کی وجہ ہے، دیانت دارانہ نظام کے فقدان کا سبب ہے، دانش مندانہ انتظام کی نابودی کاثمرہ ہے کہ کچھ لوگ یا سرکاریں آبادی میں اضافے سے گھبرا تی ہیں۔ انہیں سمجھنا ہوگا کہ قدرت آبادی کو خود کنٹرول کرتی چلی آئی ہے۔ جس نے جس وقت اور جس زمانے میں بھی شادی کرنا چاہی، اس وقت اور اس زمانے میں مرد کو عورت ملتی رہی اور عورت کو مرد ملتا رہا۔ یہ برابر کا تناسب کون قائم کررہا ہے؟ ہم؟ یا قدرت؟ ابھی برصغیر ہند وپاک میں ایسی کروڑوں ایکڑ زمین بے کار پڑی ہے جس کو اگر کام میں لایا جائے گا تو اس سے اتنی فصل اگائی جاسکتی ہے کہ پوری دنیا کو خوراک فراہم کرنے کے لئے کافی ثابت ہوگی۔ اگر اس پر جدید طرز کی عمارتیں بنائی جائیں گی تو پوری دنیا کے لوگوں کے رہن سہن کا انتظام ہوجائے گا۔ نقص ہے تو نظام حکومت میں! لٹیروں اور بدمعاشوں کے ہاتھوں میں حکومت جاتی ہے تو انہیں اقتدار کا چسکہ پڑ جاتا ہے ، وہ لیموں کی طرح غریبوں کا خون نچوڑنے لگتے ہیںاور اقتدار میں رہنے کے لئے ہر جائزو ناجائز حربہ اور جبرواستبداد کے طور طریقے استعمال کرنے میں بالکل نہیں ہچکچاتے۔ انسانی دنیا میں دولت کی مناسب تقسیم نہیں ہے۔ ایک آدمی تین سو کنال زمین پر کوٹھی بناتا ہے اور دوسرا ایسا لاچار ہے جو فٹ پاتھ پر سوتا ہے۔ ایک کے کھانے پر روزانہ بیسیوں ضیافتیں ٹیبل پر سجتی ہیں اور دوسرا کوڑے دان میں رزق کے دانے چن کر گزارہ کرلیتا ہے۔ اصحاب اقتدار اور بڑے بڑے عہدوں پر براجمان لوگ اَربوں روپے ناجائز طور سمیٹ لیتے ہیں، دریاؤں اور جھیلوں کے علاوہ سرکاری اور غیرسرکاری رقبوں پر جبری قبضہ کرکے بڑے بڑے ہوٹل اور محل تعمیر کرتے ہیں، اثرورسوخ والے غنڈے قبرستانوں تک کو بھی مردوں سمیت کھا جاتے ہیں۔ کون پوچھتا ہے؟ کبھی کوئی چیخ وپکار ہوئی بھی، کوئی کیس درج ہوا بھی تو وکیل لاکھوں اور کروڑوں کی فیس لے کر ان بدمعاشوں کو ’’مصیبتوں‘‘ سے نکلنے کا ’’قانونی ‘‘ راستہ بتاتا ہے۔ ملک کی معاشی حالت بد نظمی اور دولت کی غیر مناسب تقسیم کے سبب بگڑ جاتی ہے، آبادی کے بڑھنے سے اس کا تعلق پیدا کرنا ذہنی دیوالیہ پن کے سوا کچھ نہیں ہے۔علم اور انتظام کو صحیح اسلامی اصولوں پر قائم کیا جائے تو ہر مسئلے کا حل آسان ہوگا، مگر المیہ یہ ہے کہ جس طرح اقبال کی شاعری کو ہر شخص اور ہر طبقہ اپنے مقصد اور مفاد کو جواز بخشنے کے لئے اپنی اپنی تفسیر اور اپنا اپنا مفہوم ٹھونستا ہے، وہی طریقہ اسلامی تعلیمات کے لئے بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ جہاں اقبال کے اس شعر ؎
مست رکھو ذکر وفکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کرد و مزاج ِ خانقاہی میں اسے
کو حکیم الامت نے ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘میں ابلیس کے ذریعہ کہلوایا ، ان کو ایک مسلک کے خلاف دوسرا مسلک علانیہ استعمال کرتاآیا ہے ،جب کہ خانقاہی کلچر کے قیام کے جواز میں کچھ حلقے اقبال کا یہ شعر سناتے ہیں ؎
ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
ترستی ہے نگاہِ نارسا جس کے نظارے کو
وہ رونق انجمن کی ہے انہی خلوت گزینوں میں
میری دانست میںخانقاہی کلچر کبھی علم وجہدکے خلاف نہیں رہا ہے۔ ہاں ، خانقاہی کلچر کو جعلی درویشوں اور نقلی پیروں نے بدنام کیا۔ ایسا کلچر اگر شریعت کے مطابق ہو تو آدم سازی کا کارگر طریقہ کار ہےاور اگر خلاف شریعت ہو تو بدعت وفساد ہے۔ اگر خانقاہ کسی معتبر اور کامل ِعالم کی سربراہی میں ہو تو یہ ایک روحانی ہسپتال کی مانند ہے جہاں قلبی اور روحانی بیماریوں کا علاج ہوتا ہے۔ یہ جو کبھی کوئی کامل اور باشریعت شیخ کسی کو ذکر واذکار کی تلقین کرتا ہے تو وہ گویا اس طرح کا علاج ہوتا ہے جیسے تن سازی یا کسی اور جسمانی مرض کے لئے کوئی معتبر ماہر کسی آدمی کو جسمانی ورزش کے کچھ خاص طریقوں کی تلقین کرتا ہے، یا کبھی کوئی شیخ کسی آدمی کی قلبی اور روحانی بیماریوں کے لئے کھانے پینے کے معاملات میں بھی کچھ پرہیز تجویز کرتا ہے تو گویا وہ بھی اسی احتیاط کی طرح ہے جیسے کوئی ڈاکٹر شوگر یا بلڈ پریشر کے مریض کو کھانے پینے کے میں کچھ چیزوں سے پرہیز تجویز کرتا ہے۔ نقلی شیخوں اور جعلی درویشوں کے سبب اصلی شیخوں اور حقیقی ولیوں کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جعلی اور جھوٹے تو دعویٰ پیغمبری لے کر بھی سامنے آئے، اس کا مطلب نہیں کہ العیاذباللہ اصلی پیغمبروں کا بھی انکار کیا جائے۔
(باقی باقی)