گذشتہ دنوں کلاروس کپوارہ کی دردِ زہ میں مبتلاء ایک خاتون کی سرراہ زچگی، جس میں نوزائیدہ موقع پر ہی جاں بحق ہوا، کا واقعہ انسانیت کو شرمسار کردینے والا ایسا معاملہ ہے، جسکی کسی بھی عنوان سے کوئی جوازیت پیش نہیں کی جاسکتی اور اگر ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ ایک مجرمانہ فعل سے کم نہ ہوگا۔ مذکورہ دل دہلانے والا واقعہ اس امر کا کھلا ثبوت ہے کہ ہمارے سرکاری ہسپتالوں کا انتظامی ڈھانچہ انتہائی تیزی کے ساتھ تباہی کی جانب گامزن ہے۔ وگرنہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایسے مریض کو ٹھیک ٹھاک قرار دیکر علاج معاملہ سے محروم رکھا جاتا۔ اگرچہ آئے روز طبی اداروں کی خستہ اور خراب صورتحال کے بارےمیں خبریں میڈیا میں آتی رہتی ہیں، مگر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ حکام کی جانب سے ایسی شکایات کو معمول کا عمل تصور کئے جانے کا رجحان سرکاری اداروں میں مضبوطی کے ساتھ پنپ چکا ہے، جسکا نتیجہ یہ ہے کہ زمینی سطح پر کام کرنے والے اہلکاروںکے اندر بھی لاپرواہی عنصر پختہ تر ہوتا جارہا ہے۔ وگرنہ اگر ایسے معاملات میں خطاکاروں کے خلاف قانون و قواعد کے مطابق کارروائی کی جاتی تو شائد ایسے واقعات پیش نہ آتے، لیکن یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ماضی میں بھی اس سے ملتے جلتے معاملات دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔ خاص کر دور دراز اضلاع کے طبی اداروں میں مریضوں کو شہروں کی جانب ریفر کرنا ایک معمول بنتا جارہا ہے، جسکی وجہ سے عام لوگوں کو سخت ترین مشکلات درپیش ہیں۔ موجودہ معاملے میں اگرچہ مریضہ کی نازک حالت کو دیکھتے ہوئے کپواڑہ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے اُسے لل دید ہسپتال ریفر کیا تھا، لیکن کیا وجہ ہے کہ اُن ڈاکٹروں کی تشخیص ایل ڈی ہسپتال کے عملے کو قائیل نہ کرسکی، حالانکہ عملی طور پر یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مذکورہ مریضہ کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اُسے ایل ڈی ہسپتال سے گھر واپس روانہ کیا جاتا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مریضہ کا گھر تقریباً ایک سو کلو میٹر دور ہے اور وہاں سے آتے ہوئے اُسے 14کلومیٹر طویل برفانی سڑک پر چارپائی پر لٹا کر لایا گیا تھا، ایسے مریض کو شام کے وقت گھر واپس بھیج دینا بذات خود ایک غیر انسانی بلکہ مجرمانہ فعل ہے۔ اگرچہ صوبائی انتظامیہ متعلقہ ڈاکٹر کو منسلک کردیا ہے اور یقیناً معاملے کی تحقیقات بھی ہوگی لیکن اسکے کیا نتائج برآمد ہونگے اس کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ ہمارے یہاں انتظامی سطح پر ضابطوں کی ہلکی پھلکی کارروائیوں کے ذریعے معاملات کو گول کرنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ موجودہ معاملے کی تحقیق و تفتیش کے عمل میں دراصل اُس سارے نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جسکے تحت ہمارا طبی سیکٹر کام کررہاہے، کیونکہ اس نوعیت کے معاملات سارے نظام کی بدنامی کا باعث بن جاتے ہیں، جسکے نتیجہ میں غیر سرکاری شعبوں کی اہمیت اور افادیت میں اضافہ ہوجاتا ہے، حالانکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ پروائیویٹ سیکٹر ایک ایسے سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے، جہاں غریبوں اور کم آمدن والے طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کوئی پذیرائی نہیں ہوتی۔ ریاست کے اندر چند بڑے سرکاری ہسپتال، جن میں ایس ایم ایچ ایس سرینگر، جی ایم سی جموں، لل دید ہسپتال اور صورہ میڈیکل انسٹی چوٹ جیسے ادارے شامل ہیں، ضرور یہ صلاحتیں رکھتے ہیں کہ وہ طبی خدمات اور نگہداشت میں ایک مثال اور رہنما کی صورت میں سامنےآسکیں، مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ہماری انتظامیہ سنجیدہ ہو اور اُس کے توسط سے ایسے عناصر کی کوئی پذیرائی نہ ہو جو سرکاری اداروں کی شبیہ کو تباہ کرنے کے در پے ہیں۔ ایسے حالات میں طبی نگہداشت میں پہلو تہی برتنے والے عملے کی لگامیں کسنے کی ضرورت ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ ضلعی صدر مقامات اور مضافات میں قائم طبی مراکز کو ضروری سہولیات سے لیس کرنے کے عمل پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے۔ خصوصیت کے ساتھ ان مراکز میں مختلف امراض کے ماہرین کی تعیناتی عمل میں لانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ مریضوں کو طویل طویل سفر سے نجات مل سکے۔ ایک طرف ہم 21ویں صدی کے ترقی یافتہ دور کے پروں پر پروازیں بھرنے کے دعویدار ہیں مگر دوسری جانب زمینی سطح پر ہرگزرنے والے پل کے ساتھ پسپائی کی راہ پر گامزن ہیں۔ وگرنہ کیا وجہ ہے کہ گزرے ہوئے کل میں جو شعبہ عزت، تعظیم و تکریم میں کوئی ثانی نہیں رکھتا تھاآج اُسے مریضوں کی چمڑی اُدھیڑنے والے مافیا کا مددگار سمجھا جارہا ہے۔ اسکی وجوہات کو تلاش کرکے انکی روشنی میں طبی نظام کو چُست درست کرنے کی ضرورت ہے۔