آ ج کی عالمی سیاست مکمل طورپراپنے اقتصادی ومعاشی مفادات کی تکمیل کے گردگھوم رہی ہے اوردنیابھرمیں جاری عالمی سیاست ارزاں تیل اورگیس کے حصول کیلئے سرگرداں ہے۔یہی وجہ ہے طاقت ورممالک نے اپنے مفادات کے حصول کیلئے ’’دہشت گردی کے خاتمے ‘‘کے نام پرجوبہیمانہ جنگ شروع کررکھی ہے ،اس کی آڑمیں دراصل کمزورممالک کے تیل و گیس سمیت دیگرمعدنی ذخائرپرقبضہ کرنے کیلئے وہاں کی سول آبادیوں پرخوف ناک بمباری اوردیگرملکی اسٹرکچرکوتباہ کرکے اپنی فرعونی طاقت کے زورپرقبضہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہرآئے دن برطانیہ،چین اورروس سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک کے پاس توانائی کے وسائل تیزی سے ختم ہو رہے ہیں،اسی لئے سترکی دہائی سے تیل وگیس کے حصول کیلئے نام نہادبہانوں سے ان ملکوں پرجنگ مسلط کررکھی ہے جس میں یہ خوداپنے بھی مالی اورجانی وسائل کاضیاع کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود چند ایک ملک دہشت گردی کوختم کرنے کے بہانے خوددہشت گردی میں مصروف ہیں جب کہ اس سلسلے میں چین تیل وگیس کے وسائل کے حصول کیلئے جنگ کی بجائے برابری کی بنیادپرتجارتی تعلقات سے اپنے معاملات کے حصول کیلئے آگے بڑھنے میں کامیابی حاصل کررہاہے۔
چین نے عالمی سپرطاقت بننے کیلئے اپنی معیشت کومضبوط بنانے کی جومنصوبہ بندی کی ہے اس میں 'اکنامک کوریڈورکومرکزی اہمیت حاصل ہے۔پاک چین اقتصادی راہداری اور گوادرپورٹ کی تکمیل کے بعدچین اپنےاقتصادی اورمعاشی ایجنڈہ کے مطابق براستہ افغانستان وسطی ایشیائی ممالک تک پہنچ جائے گااوریہی وجہ ہے کہ امریکااورچین کے درمیان جاری کشمکش کا مرکزی محورگہرے پانی کی اہم بندرگاہ گوادرہی ہے چونکہ چین اکنامک کوریڈورکوپائے تکمیل تک پہنچانے کیلئے شب وروزتیزی سے کام کررہاہے جس کوامریکااپنے معاشی مستقبل کیلئے انتہائی خطرناک سمجھتاہے کیونکہ امریکاکے بقول پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل اورگوادرپورٹ کے مکمل 'فنکشنل ہوجانے کے بعدچین کے اس خطے میں تیزی سے قدم جم جائیں گے اورآئندہ صدی میں جس ملک کے پاس جس قدرمعاشی منڈیوں میں اپناخام اورتیارمال فروخت کرنے کی استطاعت زیادہ ہوگی ،وہی ملک نہ صرف معاشی بلکہ فوجی سپرطاقت کااہل ہوگا۔تاہم اس وقت چین کیلئے امریکاکی افغانستان میں برسوں سے موجودگی دردِ سربنی ہوئی ہے کیونکہ چین سمجھتاہے کہ عالمی سیاست پرمعاشی واقتصادی طورپر اہم کرداراداکرنے کیلئے وسطی ایشیائی ممالک تک آسان اورمحفوظ رسائی میں برسوں سے افغانستان میں امریکاکی موجودگی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات کے حصول کیلئے اس خطے میں اپنی موجودگی ضروری سمجھتے ہیں ۔ماضی میں بھی اس خطے میں اس وقت کاسوویت یونین جوافغانستان میں جارحیت کے نتیجے میں محض روس بن کر رہ گیاہے،اس نے بھی گرم پانیوں تک رسائی کیلئے ثورانقلاب برپاکیا تھالیکن اس وقت امریکانے پاکستان کی مددسے روس کے گرم پانی تک رسائی کے خواب کوچکنا چورکردیاتھا۔کمیونزم اورسرمایہ داری نظام کے درمیان زمین آسمان کافرق ہے مگرآج کی دوستیاں اوردشمنیاں صرف اورمحض صرف اپنے اپنے معاشی واقتصادی فوائد کے حصول کیلئے ہیں۔روس بین الاقوامی سیاست میں خودکوزندہ رکھنے کیلئے تیل اورگیس کوسیاسی ہتھیارکے طور پراستعمال کررہاہے ۔سوویت یونین کے خاتمے کے بعددنیابھرمیں کمیونسٹ بلاک کوجوتاریخی زوال سے دوچارہوناپڑاتھا،پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں روس کی شمولیت نے بددل اورمایوس ہونے والے کمیونسٹوں کوپھر اپنی طرف متوجہ کرلیاہے۔
بھارت اپنی ابھرتی ہوئی معیشت کیلئے ایندھن کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ایران سے تعلقات مضبوط بنارہاہے چونکہ بھارت کوتیل اورگیس کے حصول کیلئے مستقبل میں پیش آنے والے مقابلوں کاشدت سے احساس ہے، جس وجہ سے اس نے توانائی کے حصول کیلئے ایران کے علاوہ ترکمانستان ،تاجکستان،آذربائیجان اورمیانمارسے اپنے تعلقات میں مزیدبہتری لانے کیلئے کوششیں تیزکردی ہیں۔دوسری طرف تیل وگیس کاسب سے زیادہ استعمال کرنے والے دوممالک روس اور چین کے درمیان تعلقات کافی حدتک بہتر ہونے سے امریکاکی تیل وگیس کے حصول کیلئے جاری گریٹ آئل گیم کوشدیددھچکالگاہے۔امریکانے دوسری عالمی جنگ کے بعدسے ہی تیل اورگیس کے حصول کیلئے منصوبہ سازی کی ،عراق پرامریکی حملے کا مقصدبھی تیل پرقبضہ کرناتھا۔موجودہ دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کابنیادی مقصدبھی توانائی سمیت دیگروسائل کا حصول ہے، جس میں کئی ممالک اپنی برسوں پرانی دشمنیاں ختم کرکے قربت بڑھائی ہے تودوسری طرف کئی دہائیوں پرانے حریف حلیف میں بدل گئے ہیں ۔عالمی سردجنگ میں جنوبی ایشیا، وسطی ایشیااورمشرقِ وسطیٰ کوبڑی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ دنیابھرکے تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناطرمیں نت نئی تبدیلیاں رونماہورہی ہیں جس سے پوری دنیامیں غیریقینی صورت حال اورماحول بن گیاہے اورعالمی سطح پرجاری کشمکش جیسے ماحول میں امریکا،برطانیہ،اسرائیل،بھارت،چین ،روس سمیت چنددیگرممالک کمزور ہمسایوں کوڈرادھمکاکر اپنے عزائم کی تکمیل چاہتے ہیںجس میں تیل وگیس کے حصول کوہی اوّلیت حاصل ہے۔وسائل کے حصول کیلئے جاری عالمی کشمکش کبھی بھی مظلوم کاساتھ اورظلم کے خاتمے کیلئے نہیں رہی بلکہ دہشت گردی اورظلم کے خاتمے کی آڑمیں طاقتورممالک کمزورممالک کے قدرتی وسائل پرقبضہ کررہے ہیں۔
اکتوبر1973ء کی عرب اسرائیل جنگ کے طفیل دنیامیں پہلی بارتیل لے ہتھیارکوجاناگیااورتیل کی فی بیرل قیمت ساڑھے تین ڈالرسے بڑھ کر بارہ ڈالرتک پہنچ گئی اورتیل پیداکرنے والے ممالک کی دولت میں راتوں رات تین گنااضافہ ہوگیالیکن تیل پیداکرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے عرب رکن ممالک مغربی دنیاکی اسرائیل نوازی کے خلاف یہ مضبوط ترین ہتھیاربس پانچ ماہ ہی استعمال کرپائے۔آج اس بات کو45 برس ہوچکے ہیں ،بھلاہوتیل کی بندش کاکہ امریکاکوپہلی مرتبہ خیال آیا کہ آئندہ تیل کی بلیک میلنگ سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ آڑے وقت کیلئے جتنامحفوظ ذخیرہ کیاجاسکتاہے،ضرورکرلیاجائے ۔ چنانچہ 1975ء میں امریکانے تیل کااس قدرذخیرہ کرلیاجوامریکاکی تین ماہ کی ضروریات کیلئے وافر تھااوریہ صورت حال اس نے اب تک نہ صرف برقراررکھی ہوئی ہے بلکہ اس میں کئی گنااضافہ بھی کرتاچلاجارہاہے اوراپنے اتحادیوں کوبھی اس نے ایساکرنے کا مشورہ دیاتاکہ مستقبل میں کسی ایسی ہنگامی صورتحال کا بآسانی مقابلہ کیاجاسکے۔1973ء میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سعودی عرب،متحدی عرب امارات اورکویت نے جب پہلی اورشایدآخری مرتبہ تیل کوایک مشترکہ ہتھیار کے طورپراستعمال کیاتوذرادیرکیلئے یوں لگاکہ جیسے ان تمام ممالک کے نوآبادیات گزیدہ تلخ ماضی نے انہیں آئل ڈپلومیسی کی شکل میں مشترکہ پلیٹ فارم دیدیاہے جس پرکھڑے ہوکروہ آئندہ بھی فلسطین اسرائیل سمیت علاقائی بحرانوں کے یک طرفہ حل کے یک طرفہ جھکے پلڑے کومتوازن کرپائیں گے مگرتیل کاہتھیاراستعمال کرنے کے چندبرس میں ایسی کایاکلپ ہوئی کہ یہ ممالک ایک دوسرے سے شدیدبدظن ہوگئے یاکر دئے گئے۔انقلاب ایران کی مبینہ ایکسپورٹ روکنے کے خوف نے عربی عجمی نفاق پھرسے زندہ کردیا۔ایران اورعراق کے پیچھے دیگرخلیجی ممالک ایران کے خلاف صف آرأ ہوگئے اورایک عشرہ تباہ کن جنگ میں گزاردیابعدازاں عراق اورکویت جودونوں امریکااورمغرب کی آنکھ کے تارے تھے،ایسی خوف ناک سازش کاشکارہوکر ایسی چپقلش میں مبتلاہوئے کہ عراقی صدرصدام نے کویت پرقبضہ کرلیااوریہی سے خطے کی سب سے مضبوط عراقی فوج اوروسائل کی خوف ناک تباہی کاسفرشروع ہوگیاجو بالآخر ایک جانب سعودی عرب اورکویت کے خزانے کابیشترحصہ امریکی خزانے میں منتقل ہونے کاسبب بنا، دوسری جانب عراق کی صدیوں پرانی قیمتی تہذیب اوروسائل کے ساتھ صدام کی عبرتناک موت بن گیااورلاکھوں بے گناہ عراقی عوام کی اموات اورتباہی کاایساشاخسانہ بن گیاجہاں آج تک امن قائم نہیں ہوسکااوراس خطے کایہ نقصان شائداگلی کئی نسلیں اپنے جان ومال کاخراج پیش کرکے بھی ختم نہ کرپائیں۔ایران اورعراق کی جاری جنگ کے ختم ہونے کے دوسال بعدہی یہ خطہ جنگ کی ایسی لپیٹ میں آیاکہ امریکانے جہاں ا س جنگ کاساراملبہ خلیجی ممالک کی حفاظت کے نام پرایک بھاری تاوان کی صورت میں کئی سوبلین ڈالروصول کیا بلکہ اس خطے میں مستقل اپنے فوجی اڈے بھی قائم کرلیے جس کے تمام اخراجات کی ادائیگی خلیجی ممالک کے ذمہ ہیں اوراسی بہانے امریکانہ صرف بحیرۂ عرب پراپنی بے پناہ فوجی طاقت کے ذریعے مختلف اڈے قائم کرکے باقی دنیاکیلئے گزرنے والے سارے تیل کے ذخائرکوکنٹرول کررہاہے بلکہ باقی ترقی یافتہ ممالک بھی خلیجی تیل وگیس کیلئے امریکاکی پالیسیوں کی حمائت کیلئے مجبورہوگئے ہیں۔ امریکی استعمارکایہ عالم ہے کہ اس کی جنگی مشینری نے تیرہ سال تک جہاں عراق کی اینٹ سے اینٹ بجادی ہے، وہاں خطے کے تمام خلیجی ممالک نے خوشی خوشی اپنے سابقہ حلیف عراق کے مقابلے میں امریکاکاپہلے سے بڑھ کرساتھ دیااورانہی دوجنگوں کی کوکھ سے بالآخرالقاعدہ نے جنم لیااورپھراگلے دس برس میں افغانستان سے لیبیا،نائجیریاتک اتھل پتھل کانیادورشروع ہوگیاجس نے آج نئے انڈے بچے دے دئے ہیں ۔1973-74ء میں تیل بطورہتھیار جیسےتلخ تجربے کے تدارک کیلئے مغربی کمپنیوں نے دنیاکے دیگر حصوں میں سرمایہ کاری شروع کردی۔چنانچہ بحیرۂ شمالی،خلیج میکسیکو،نائجیریااورمغربی افریقا کی سمندری حدودمیں تیل کے نئے ذخائرکوترقی دینے کاکام تیزی سے شروع ہوا۔ان ذخائرکے مارکیٹ میں آنے کے سبب تیل کی عالمی قیمت کوایک خاص سطح پرمستحکم رکھنے میں مددملی۔
سوؤیت یونین جیسی سپرپاورکی کمرتوڑنے کے دعویداروں میں اگرچہ جنرل ضیاء الحق،جنرل عبدالرحمان،جنرل حمیدگل،جماعت اسلامی اوراورافغان مجاہدین سمیت بہت سے شامل ہیں مگراصل فتح کافائدہ اُٹھانے والاکوئی اورہے۔جب ریگن انتظامیہ نے افغانستان پرسوویت قبضے کے ایک برس بعدسوویت یونین کوایول پاوریعنی’’ شیطانی سلطنت‘‘ کاخطاب دیاتب تک امریکی اسٹیبلشمنٹ اس نتیجے پرپہنچ چکی تھی کہ جوہری ہتھیاروں کے انباروں نے جوتوازنِ دہشت قائم کیاہے اسے توڑنے کیلئے ضروری ہے کہ سوؤیت یونین کواقتصادی خسارے میں مبتلاکرکے اس کی کمرتوڑی جائے۔روسی معیشت کادارومدارجس زرمبادلہ پرتھااس کابیشترحصہ یاتوتیل وگیس کی یورپ کو فروخت سے آ رہاتھایاپھرتیسری دنیاکوہتھیارفروخت کرنے سے۔امریکی اسٹیبلشمنٹ کا یہ نظریہ تھا کہ روس جیسے وسیع وعریض ملک کونپولین اورہٹلرکی طرح فوج کشی کرکے شکست نہیں دی جاسکتی لیکن اگرہتھیاروں کی دوڑ کوعروج تک پہنچادیاجائے توسوویت یونین کواس دوڑمیں تھکایاجاسکتاہے۔اسے اپنے وسائل کابیشترحصہ خودکواس دوڑمیں برابررکھنے کیلئے صرف کرنا ہو گا، اس لئے اندرونی کنزیومربیس کوکمزورہوگااوراس کے نتیجے میں سوویت سلطنت میں نچلی سطح تک جوبے چینی پھیلے گی وہ رفتہ رفتہ اس دلدل کی شکل اختیارکرتی چلی جائے گی جس میں دھنسنے سے خودکوبچانے کیلئے ماسکوکومشرقی یورپ کی طفیلی ریاستوں اورغیرروسی وفاقی ریاستوں کابوجھ اپنے کاندھوں سے ہٹاناپڑجائے گا،یوں ’’شیطانی ریاست‘‘ کی ٹوٹ پھوٹ اور سکڑنے کاعمل شروع ہوجائے گا۔چنانچہ مغربی یورپ بالخصوص جرمنی میں نئی نسل کے پرشنگ میزائل کی تنصیب کاغوغاشروع ہوااورخلاء میں ہتھیاروں کاذخیرہ کرنے اورسٹاروار کیلئے نئے پیچیدہ اورمہنگے موت کے کھلونے بنانے اور نیوٹرون بموں کی پیداوارشروع کرنے کاپروپیگنڈہ عروج پرپہنچایاگیا تاکہ روسی ریچھ اس ہانکے سے گھبراجائے۔آج خلائی ہتھیاروں اورنیوٹران بموں کاافسانہ کسی کویادبھی نہیں مگراس کام کوتب تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایاجا سکتا تھاجب تک توانائی کاہتھیاربھی بیک استعمال نہ ہو۔
سرد جنگ کے عروج کے باوجود1975ء کے بعدسے مغربی یورپ کے سرمایہ دارممالک کی توانائی بالخصوص تیل اورگیس کی ضروریات کا25٪ روسی ذخائرسے پوراہوتا رہاجب کہ مغربی یورپ کے سوشلسٹ ممالک کادارومدارہی روسی تیل وگیس پرتھا اوریہی سوویت یونین کیلئے زرِ مبادلہ حاصل کرنے کاسب سے بڑاذریعہ تھا۔ چنانچہ 1985ء میں ریگن اور شاہ فہدکے درمیان یہ خفیہ انڈرسٹینڈنگ ہوئی کہ اگرسعودی تیل سے عالمی منڈی بھرجائے توقیمتیں لامحالہ نیچے آئیں گی اوراس کااثرسوویت یونین پراس قدرکمر توڑ ہوگاکہ نہ تو وہ ہتھیاروں کی دوڑ جاری رکھنے کے قابل رہے گااورنہ ہی اسے تیل وگیس کی فروخت سے اتنازرِمبادلہ مل پائے گا کہ وہ اپنے عوام کی بنیادی ضروریات کوتشفی اندازسے پورا کرپائے چنانچہ 1988ء کےPutin vs Trump شروع میں سعودی عرب نے بظاہر عراق ایران جنگ کے سبب تیل کی عالمی رسدمیں کمی پوراکرنے کیلئے اپنی پیداواردوملین بیرل روزانہ سے بڑھا کرپانچ ملین بیرل کردی ،یوں فی بیرل قیمت جو 1981ء میں 35ڈالرفی بیرل کے قریب تھی وہ گرکردس ڈالرفی بیرل سے بھی نیچے آگئی ۔ امریکانے انتہائی چالاکی وہوشیاری کے ساتھ ایک گہری سازش کے نتیجے میں دوہر ی پالیسی کے تحت اگلے تین سال میں جہاں سوویت یونین کابھٹہ بٹھادیاوہاں سعودی عرب اوردیگرخلیجی ممالک نے تیل کوبطورہتھیاراستعمال کرنے کے بعدتیل سے جتنی بھی زائدآمدنی حاصل کی تھی ،اس کو دوبارہ واپس بمع سودوصول کرلیا۔اس دوران افغانستان سے سوویت یونین کاجہاں انخلاء ہواوہاں دیواربرلن ٹوٹ کردوسری عالمی جنگ کے بعد دونوں جرمنی دوبارہ ایک دوسرے میں ضم ہوکر ایک ملک بن گئے اورسوویت یونین ٹوٹ کرسات مختلف ریاستوں میں تبدیل ہوگیا۔جہاں سوویت یونین کے بطن سے چھ اسلامی ریاستیں معرضِ وجودمیں آگئیں ،وہاں سوویت یونین سکڑکرروس بن کر رہ گیااوریوں امریکاایک مرتبہ پھر ورلڈ آرڈرکی تکمیل کیلئے پاکستان کی برسوں کی جاں نثارانہ انتھک محنت اورافغان قوم کی قربانیوںکے ثمرات لے اُڑا،پاکستان اورافغانستان کوجنگ کی ہول ناک تباہیوں کے سپرد کرتا ہوااپنے تمام وعدے فراموش کرکے خطے سے دُم دباکربھاگ گیااور دنیاکی واحدسپرطاقت بن گیا۔
(بقیہ جمعرات کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)