گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کشمیر بیٹوں کے جنازے ڈھونے والے والدین کی سسکیوں، آدھی بیواؤں کے المیوں، آہنی چھروں سے لگے رِستے زخموں اور عقوبت خانوں میں محبوس فرزندانِ وطن کو درپیش مشکلات سے عبارت رہا۔ اس دوران نام نہاد امن کے مختصر وقفے بھی میسر آئے، لیکن مجموعی طور رائے شماری کا مطالبہ عوامی بیانیہ میں سالم ہی رہا ۔ وہ بھی دن تھے جب نیشنل کانفرنس کے بینر تلے کوکہ پرے نے ’’آزاد ہندوستان‘‘ کا نعرہ بلند کیا تو مجمع سے ’’زندہ آباد‘‘ کی گونج نکلی۔ لیکن پی ڈی پی کے منظر پر آتے آتے وہ گونج خاموش ہوچکی تھی۔ اب پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس گھما پھرا کر مسلہ کشمیر کے حل کی ہی بات کرتے ہیں۔ ریاست کے تقسیم درتقسیم سیاسی منظرنامہ پر شاہ فیصل کا ایک نئے اور بولڈ نعرے کے ساتھ اُبھرناگویایہاں کی سیاست کو مزاحمتی مطالبے کے ساتھ غیر مبہم انداز میںمتعلق کرنے کے مترادف ہے۔
ایسا نہیں کہ یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے۔ یہ تجربے ماضی قریب میں دو مرتبہ کئے گئے۔1965 کے بعد جب محاذ رائے شماری نے مزاحمتی مطالبہ لے کر اسمبلی میں جانے کا من بنالیا تو نئی دلی نے آزادی اور علیحدگی پسند بیانیہ پر مبنی سیاست کو ممنوع قرار دیا، اور شیخ عبداللہ سے دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ وہ پہلے بھارت کی سا لمیت اور حاکمیت پر یقین کامل کا برملا اظہار کرے تو الیکشن لڑسکتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ محاذ نے بائیکاٹ کردیا۔ 1975کے آتے آتے محاذ نے اپنے بیانیہ پر نظرثانی کرلی تھی اور بالآخر وہی ہو ا جو دلی والے چاہتے تھے۔ اسی طرح جب 1986میں مسلم متحدہ محاذ نے لوگوں کو بتایا کہ انہیں اکثریت ملی تو اسمبلی کے ایوان میں 1947کے الحاق کو قرارداد کے ذریعہ کالعدم کردیا جائے گا اور رائے شماری کا مطالبہ باقاعدہ طور پر قان سازیہ سے کیا جائے گا تو اس کے ردعمل میں دلی نے جو آپریشن کیا وہ اب معلوم تاریخ ہے۔
آج کل انجنئیر رشید قانون سازیہ کے ذریعہ رائے شماری کا مطالبہ کررہے ہیں۔ گزشتہ بیس سال کے دوران کافی کوششیں ہوئیں کہ تعمیر و ترقی، روزگار، سیاحت وغیرہ کو رائے شماری کا متبادل اور امن کے ثبوت کے طور پروجیکٹ کیا جائے۔ لیکن 2009میں اُسوقت کے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے سابق وزیراعظم منموہن سنگھ اور اُن کی نصف کابینہ کے سامنے قاضی گنڈ میں ریلوے لائن کی سنگ بنیاد کی تقریب کے وقت برملا اعلان کیا کہ کشمیری نوجوان نے ریلوے لائنوں، سڑکوں ، پلوں اور نوکریوں کے لئے بندوق نہیں اُٹھائی۔ سیاسی لہجوں کا یہ تغیر تیس سال کے ارتقاء پر مبنی ہے۔ یہ کوئی راتوں رات ہونے والی تبدیلی نہیں۔ اقتدار نواز خیمہ اب کشمیریوں کی ہمالیائی قربانیوں سے آنکھیں نہیں موند سکتا۔ اب وہ چاہتا ہے کہ دلی والے کشمیریوں کے غالب سیاسی خواہشات کو اکنالج کرے تو ایک منصفانہ سیاست پروان چڑھ سکتی ہے اور جن لوگوں نے قوم کو اقتدار کے عوض ماضی میں بیچ کھایا ہے اُن کی سیاسی بقاء بھی یقینی بن جائے۔
موجودہ سیاسی صورتحال کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ بے پناہ جانی و مالی قربانیوں کے طفیل یہاں کی ہندنوا ز سیاست معذرت خواہانہ دہلیز پر آکر خود کو ری ڈیفائن کرنا چاہتی ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ شاہ فیصل اور اس قبیل کے نو آموز سیاستکار ہندوستانی عوام کو سچ بتانا چاہتے ہیں۔
لیکن اس صاف گوئی میں سب سے بڑا سچ دب جاتا ہے۔ اور وہ سچ یہ ہے کہ کشمیر میں حکمرانی یا انتظامیہ کا تعلق مسلہ کشمیر کے ساتھ قطعی نہیںہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں سے بھی واضح ہے کہ رائے شماری کے انعقاد تک یہاں ایک انتظامی ڈھانچہ ناگزیر ہے اور اس ڈھانچے کے لئے منتظمین کو بھی منتخب کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جب یہ بیانیہ سامنے آتا ہے کہ رائے شماری کا مطالبہ اسمبلی کے ایوان میں کیا جائے تو مزاحمت اقتدارنواز سیاست کے طابع ہوجاتی ہے۔ گزشتہ بیس سال کے دوران یہی سیاسی ماڈل یہاں مزاحمتی لہجوں کی انجنیئرنگ کے لئے نہایت چالاکی کے ساتھ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
آ ج کل جو کچھ ہورہا ہے، وہ کوئی نئی چیز بھی نہیں۔ لہجہ سازی کا عمل بہت پرانا ہے اور اسے مزاحمت کے دانت کند کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن مزاحمتی قیادت حاشیہ پر تماشہ بین بنی ہوئی ہے۔ وہ اس حوالے سے مناسب، ٹھوس اور بے باک ردعمل سے بھی قاصر ہے۔ جب تک قوم کے غم میں گھلے جارہے حساس عوامی حلقے اور مزاحمتی خیمہ سر جوڑ کر یہ طے نہیں کرتے کہ مسلہ کشمیر کی قانونی اور تاریخی حیثیت کو اقتدار اور انتظامی سیاست سے الگ کرنا ناگزیر ہے ، تب تک ہر مرحلہ پر نئے لوگ مزاحمتی لغت سے چند ترکیبیں مستعار لے کر عوامی ہمدردیاں بٹورتے رہیں گے۔
بشکریہ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر