گزشتہ دنوں شوپیان میں ایک مسلح جھڑپ کے دوران فورسز اور مظاہرین کےدرمیان ہو رہی جھڑپوں کی صورتحال کو عکس بند کرنے والے فوٹو جرنلسٹوں پر پیلٹ باری ایک انتہائی سنگین اقدام ہے، جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ میڈیا سے وابستہ طبقوں کے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے حقوق کی کھلم کھلا پامالی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ انتظامیہ کی جانب ایسے فورسز اہلکاروں، جو میڈیا سے وابستہ افراد کے حقوق کی پامالیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، کےخلاف اب تک کسی قسم کی کوئی کاروائی سامنے نہیں آئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر ایسے واقعہ کے بعد انتظامی عہدیداروں اور حکام کی جانب سے افسوس کا اظہار ہوتا رہتا ہے اور آئندہ ایسی حرکات کو نہ دہرائے جانے کی یقین دہانیاں بھی کرائی جاتی ہیں، لیکن زمینی سطح پر اس کے اثرات بہت کم دکھائی دیتے ہیں ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ فورسز اداروں میں ایسے افراد موجود نہ ہوں جو میڈیا کے وابستگان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا احساس نہ رکھتے ہوں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میڈیا کے تئیںفورسز کی صفوں میں منفی جذبات کو دن بہ دن بڑھاوا مل رہا ہے ۔ حالانکہ تصادم آرائی کے خطوں میں واقعات کی رپورٹنگ بنیادی اعتبار سے جان جوکھم والا کام ہوتا ہے اور کشمیر میں صحافی برادری نے گزشتہ 28برسوں کے دوران کافی اُتار چڑھائو بھی دیکھے ہیں لیکن بین الاقوامی اور ملکی قوانین اور انسانی اقدار کی بنیاد پر حکومتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صحافیوں کی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں انہیں اپنےحقوق سے محروم نہ کریں۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یقینی طور پر ایک غیر متوازن سسٹم کے فروغ کی راہیں ہموار ہو جاتی ہیں، جو کسی بھی فریق کے لئے فائندہ مند نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ برس سرینگر میں بھی ایک جھڑپ کے دوران صحافیوں کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا ،اُس سے یہ بات تقریباً پایہ اثبات کو پہنچی ہے کہ کشمیر میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح ایک مخصوص پلاٹ کے تحت صحافیوں کو زیر عتاب لایا جارہا ہے تاکہ وہ وقت کے حکمرانوںکے سامنے گھٹنے ٹیک کر اُن کی ہاں میں ہاں ملانے میںہی عافیت محسوس کریں۔ایسا محض کسی وسوسے کی بنیاد پر نہیں کہاجارہا ہے بلکہ گزشتہ دو ایک سال کے دوران کشمیر میں جس طرح عامل صحافیوں کوپیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران قانون نافذ کر نے والے اداروں کی جانب سے ہراسانی اور پریشانی کا سامنا رہا ہے ،وہ اس بات کا منہ بولتا ثبو ت ہے کہ جان بوجھ کر صحافیوں کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کشمیر ایک شورش زدہ علاقہ ہے جہاں صحافیوں کو بھی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران احتیاط برتنا لازمی ہے تاہم یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن اب حکومتی اداروں خاص کر سلامتی سے جڑے ادارے عدم برداشت کے شکار ہوتے جارہے ہیں اور ایک طرح سے اُن میں تحمل مزاجی کا عنصر دم توڑتا جارہا ہے ۔اگر ملک کے آئین کا مطالعہ کیاجائے توآئینی طور اگر چہ یہاں بھی ہر شہری کو اظہار بیان کی آزادی حاصل ہے اور صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون تسلیم کیاگیا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق آزادیِ صحافت ایک بنیادی انسانی حق ہونے کیساتھ ساتھ تمام آزادیوں کی کسوٹی ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں صحافت کی آزادی کسی معاشرے میں آزادی بیان اور اظہار ِ رائے کے احترام کی عکاسی، حکام اور حکومت پر نکتہ چینی کرنے اور ذرائع ابلاغ میں اس نکتہ چینی کی آزادانہ اشاعت سے معلوم ہوتی ہے۔ معلومات کی آزادانہ فراہمی عوام کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اس کی روشنی میں حکومتوں کا احتساب کر سکیں۔صحافت سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور اگر یہ آزاد ہو تو سماج اور حکومت کی صحیح عکاسی کرسکتی ہے جس کے ذریعے ایک کامل سماج کی تعمیر ممکن بن سکتی ہے۔اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے انقلاب نے صحافت اور ذرائع ابلاغ کو انتہائی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے کیونکہ اب قارئین ،ناظرین و سامعین مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے پل پل کی خبر سے باخبر رہ پاتے ہیں۔ایسے ماحول میں جب دنیا کے کسی بھی کونے کی خبر محض کمپیوٹر کے ایک کلک کی دوری پر ہے،آزادانہ صحافت کا تصور اور زیادہ اہم بن جاتا ہے ۔بھارت میں بھی گزشتہ چند برسوں سے صحافتی شعبہ میں گھٹن کا ماحول قائم ہوا ہے اور جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو یہاں بھلے ہی اعلانیہ طور صحافیوں کو رام کرنے کی پالیسی پر عمل نہیں ہورہا ہے لیکن غیر اعلانیہ طور جو کچھ ہورہا ہے ،اس کا منتہائے مقصد یہی ہے کہ جمہوریت کے چوتھے ستون کو یہاں ایک مخصوص لائن پر چلنے کیلئے مجبور کیاجائے۔صحافیوں کو ہراساں کرنے کی خبریں تواتر کے ساتھ موصول ہورہی ہیںاورگزشتہ برس فتح کدل اور اب شوپیان کے واقعات اس کی تازہ اور زندہ مثالیں ہیں۔جہاں صحافیوں کو صرف اس وجہ سےپیلٹوں اور ڈنڈوں سے نوازا گیا کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے ۔تاحال کئی دفعہ حکام بالا نے زبانی جمع خرچ کے طورایسے واقعات پر پھر ندامت کا اظہار کیالیکن سلسلہ ختم نہ ہوسکا اور آج بھی جس طرح صحافیوں کوزیر کرنے کے نت نئے بہانے تلاش کئے جارہے ہیں ،وہ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ارباب بست و کشاد یہاں ایک مخصوص بیانیہ کو ہی پروان چڑھانے پر مصر ہیں اور انہیں سکے کے دونوں رخ عوام کے سامنے پیش کرنے سے تکلیف ہورہی ہے ۔ اگر ارباب اقتدار واقعی جمہوری ماحول کو فروغ دینے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں آج نہیں تو کل آزادی صحافت کو یقینی بنانا ہی ہوگا ورنہ اس وقت تک نہ ہی وہ اپنی خامیوں کا سراغ لگاپائیں گے اور نہ ہی ایک کامل و خوشحال سماج کی تکمیل ہوسکتی ہے کیونکہ جب صحافت پر قدغن اورتنقید مفقود ہو تو قصیدہ خوانی کرنے والوں کی فوج باقی رہ جاتی ہے جو ارباب اختیار کو اپنی چرب زبانی سے ساتویں آسمان تک لے جاسکتے ہیں لیکن انہیں کبھی زمینی حقائق سے آشناس نہیں کرسکتے۔ایسی صورت میں پھر عوامی بیزاری مقدر بن جاتی ہے۔