Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
اداریہ

میڈیا بار بار عتاب کا نشانہ کیوں؟

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: January 24, 2019 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
8 Min Read
SHARE
گزشتہ دنوں شوپیان میں ایک مسلح جھڑپ کے دوران فورسز اور مظاہرین کےدرمیان ہو رہی جھڑپوں کی صورتحال کو عکس بند کرنے والے فوٹو جرنلسٹوں پر پیلٹ باری ایک انتہائی سنگین اقدام ہے، جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ میڈیا سے وابستہ طبقوں کے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی کے حقوق کی کھلم کھلا پامالی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ انتظامیہ کی جانب ایسے فورسز اہلکاروں، جو میڈیا سے وابستہ افراد کے حقوق کی پامالیوں کے مرتکب ہوئے ہیں، کےخلاف اب تک کسی قسم کی کوئی کاروائی سامنے نہیں آئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر ایسے واقعہ کے بعد انتظامی عہدیداروں اور حکام کی جانب سے افسوس کا اظہار ہوتا رہتا ہے اور آئندہ ایسی حرکات کو نہ دہرائے جانے کی یقین دہانیاں بھی کرائی جاتی ہیں، لیکن زمینی سطح پر اس کے اثرات بہت کم دکھائی دیتے ہیں ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ فورسز اداروں میں ایسے افراد موجود نہ ہوں جو میڈیا کے وابستگان کی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کا احساس نہ رکھتے ہوں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میڈیا کے تئیںفورسز کی صفوں میں منفی جذبات کو دن بہ دن بڑھاوا مل رہا ہے ۔ حالانکہ تصادم آرائی کے خطوں میں واقعات کی رپورٹنگ بنیادی اعتبار سے جان جوکھم والا کام ہوتا ہے اور کشمیر میں صحافی برادری نے گزشتہ 28برسوں کے دوران کافی اُتار چڑھائو بھی دیکھے ہیں لیکن بین الاقوامی اور ملکی قوانین اور انسانی اقدار کی بنیاد پر حکومتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ صحافیوں کی پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں انہیں اپنےحقوق سے محروم نہ کریں۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یقینی طور پر ایک غیر متوازن سسٹم کے فروغ کی راہیں ہموار ہو جاتی ہیں، جو کسی بھی فریق کے لئے فائندہ مند نہیں ہوسکتا۔ گزشتہ برس سرینگر میں بھی ایک جھڑپ کے دوران صحافیوں کو عتاب کا نشانہ بنایا گیا ،اُس سے یہ بات تقریباً پایہ اثبات کو پہنچی ہے کہ کشمیر میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح ایک مخصوص پلاٹ کے تحت صحافیوں کو زیر عتاب لایا جارہا ہے تاکہ وہ وقت کے حکمرانوںکے سامنے گھٹنے ٹیک کر اُن کی ہاں میں ہاں ملانے میںہی عافیت محسوس کریں۔ایسا محض کسی وسوسے کی بنیاد پر نہیں کہاجارہا ہے بلکہ گزشتہ دو ایک سال کے دوران کشمیر میں جس طرح عامل صحافیوں کوپیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران قانون نافذ کر نے والے اداروں کی جانب سے ہراسانی اور پریشانی کا سامنا رہا ہے ،وہ اس بات کا منہ بولتا ثبو ت ہے کہ جان بوجھ کر صحافیوں کیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کشمیر ایک شورش زدہ علاقہ ہے جہاں صحافیوں کو بھی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران احتیاط برتنا لازمی ہے تاہم یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ دھیرے دھیرے ہی سہی لیکن اب حکومتی اداروں خاص کر سلامتی سے جڑے ادارے عدم برداشت کے شکار ہوتے جارہے ہیں اور ایک طرح سے اُن میں تحمل مزاجی کا عنصر دم توڑتا جارہا ہے ۔اگر ملک کے آئین کا مطالعہ کیاجائے توآئینی طور اگر چہ یہاں بھی ہر شہری کو اظہار بیان کی آزادی حاصل ہے اور صحافت کو جمہوریت کا چوتھا ستون تسلیم کیاگیا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق آزادیِ صحافت ایک بنیادی انسانی حق ہونے کیساتھ ساتھ تمام آزادیوں کی کسوٹی ہے۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں صحافت کی آزادی کسی معاشرے میں آزادی بیان اور اظہار ِ رائے کے احترام کی عکاسی، حکام اور حکومت پر نکتہ چینی کرنے اور ذرائع ابلاغ میں اس نکتہ چینی کی آزادانہ اشاعت سے معلوم ہوتی ہے۔ معلومات کی آزادانہ فراہمی عوام کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اس کی روشنی میں حکومتوں کا احتساب کر سکیں۔صحافت سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور اگر یہ آزاد ہو تو سماج اور حکومت کی صحیح عکاسی کرسکتی ہے جس کے ذریعے ایک کامل سماج کی تعمیر ممکن بن سکتی ہے۔اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے انقلاب نے صحافت اور ذرائع ابلاغ کو انتہائی اہمیت کا حامل بنا دیا ہے کیونکہ اب قارئین ،ناظرین و سامعین مختلف ذرائع ابلاغ کے ذریعے پل پل کی خبر سے باخبر رہ پاتے ہیں۔ایسے ماحول میں جب دنیا کے کسی بھی کونے کی خبر محض کمپیوٹر کے ایک کلک کی دوری پر ہے،آزادانہ صحافت کا تصور اور زیادہ اہم بن جاتا ہے ۔بھارت میں بھی گزشتہ چند برسوں سے صحافتی شعبہ میں گھٹن کا ماحول قائم ہوا ہے اور جہاں تک کشمیر کا تعلق ہے تو یہاں بھلے ہی اعلانیہ طور صحافیوں کو رام کرنے کی پالیسی پر عمل نہیں ہورہا ہے لیکن غیر اعلانیہ طور جو کچھ ہورہا ہے ،اس کا منتہائے مقصد یہی ہے کہ جمہوریت کے چوتھے ستون کو یہاں ایک مخصوص لائن پر چلنے کیلئے مجبور کیاجائے۔صحافیوں کو ہراساں کرنے کی خبریں تواتر کے ساتھ موصول ہورہی ہیںاورگزشتہ برس فتح کدل اور اب شوپیان کے واقعات اس کی تازہ اور زندہ مثالیں ہیں۔جہاں صحافیوں کو صرف اس وجہ سےپیلٹوں اور ڈنڈوں سے نوازا گیا کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انجام دے رہے تھے ۔تاحال کئی دفعہ حکام بالا نے زبانی جمع خرچ کے طورایسے واقعات پر پھر ندامت کا اظہار کیالیکن سلسلہ ختم نہ ہوسکا اور آج بھی جس طرح صحافیوں کوزیر کرنے کے نت نئے بہانے تلاش کئے جارہے ہیں ،وہ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ ارباب بست و کشاد یہاں ایک مخصوص بیانیہ کو ہی پروان چڑھانے پر مصر ہیں اور انہیں سکے کے دونوں رخ عوام کے سامنے پیش کرنے سے تکلیف ہورہی ہے ۔ اگر ارباب اقتدار واقعی جمہوری ماحول کو فروغ دینے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں آج نہیں تو کل آزادی صحافت کو یقینی بنانا ہی ہوگا ورنہ اس وقت تک نہ ہی وہ اپنی خامیوں کا سراغ لگاپائیں گے اور نہ ہی ایک کامل و خوشحال سماج کی تکمیل ہوسکتی ہے کیونکہ جب صحافت پر قدغن اورتنقید مفقود ہو تو قصیدہ خوانی کرنے والوں کی فوج باقی رہ جاتی ہے جو ارباب اختیار کو اپنی چرب زبانی سے ساتویں آسمان تک لے جاسکتے ہیں لیکن انہیں کبھی زمینی حقائق سے آشناس نہیں کرسکتے۔ایسی صورت میں پھر عوامی بیزاری مقدر بن جاتی ہے۔
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

صحت سہولیات کی جانچ کیلئے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کاپونچھ دورہ تعمیراتی منصوبوں اور فلیگ شپ پروگراموں کی پیش رفت کا جائزہ لیا
پیر پنچال
پولیس نے لاپتہ شخص کو بازیاب کر کے اہل خانہ سے ملایا
پیر پنچال
آرمی کمانڈر کا پیر پنجال رینج کا دورہ، سیکورٹی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا آپریشنل برتری کیلئے جارحانہ حکمت عملی وہمہ وقت تیاری کو ضروری قرار دیا
پیر پنچال
سندر بنی میں سڑک حادثہ، دکاندار جاں بحق،تحقیقات شروع
پیر پنچال

Related

اداریہ

! ماحولیاتی تباہی کی انتہا

July 11, 2025
اداریہ

زرعی اراضی کا سکڑائوخطرے کی گھنٹی !

July 10, 2025
اداریہ

! ہماراقلم اور ہماری زبان

July 9, 2025
اداریہ

کشمیر میں ایمز کی تکمیل کب ہوگی؟

July 9, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?