Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
اداریہ

اخلاقیات پہ طمانچہ!

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: January 26, 2019 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
8 Min Read
SHARE
  سماج میں اخلاقی بگاڑ کن حدوں کو چھورہاہے ،انسانیت کادَم کس کس عنوان سے گھٹ رہاہے ، انصاف کا چراغ کہاں کہاں گل ہورہاہے، حالیہ دو شرم ناک واقعات اس تلخ حقیقت پر کماحقہ روشنی ڈالتے ہیں۔پہلا سنسنی خیز واقعہ سری نگر کے شہر خاص میں واقع ملہ کھاہ کے وسیع قبرستان میں وقوع پذیر ہوا ۔ یہاں شوپیان کشمیر کے رہنے والے ا یک غریب باپ نے اپنی تین روزہ بچی کو زندہ دفنانے کی بد بختانہ کوشش کی مگر مقامی لوگوں کی بروقت مداخلت سے یہ قیامت ٹل گئی ، ننھے فرشتے کو بچالیا گیا اور پتھرد ل باپ کو پولیس نے حراست میں لیا ۔ پولیس تفتیش کے دوران خلاصہ ہوا کہ نوزائیدہ بچی کا باپ پیدائشی طور بیمار اپنی بچی کا دوادارو کر نے کے قابل نہیں تھا،اس لئے اس نوع کی بہیمانہ حرکت پراُتر آیا ۔ حکومت نے ا س اندوہ ناک  سانحہ کا فوری نوٹس لیا اور بچی کے علاج ومعالجہ کی ذمہ داری لی ۔ دوسرا واقعہ اسی طرح کی حیوانیت کے ایک نادر نمونے پر دلالت کر تا ہے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ابتدائی محکمانہ انکوائری سے پتہ چلا ہے کہ لل دید ہسپتال سری نگر میں پوسٹ گریجویشن کر رہے ایک ڈاکٹر اس دلدوز سانحہ کا اصل ذمہ دار ہے ۔اس سانحہ نے نہ صرف ذی شعور لوگوں کا ضمیر جنجھوڑ کر رکھ دیا بلکہ سماج پر ایک زناٹے دار طمانچہ بھی رسیدکیا اور اس سے ڈاکٹری پیشہ کے تقدس پر بھی حرف آیا ۔ اس بارے میں اب تک کی تفصیلات سے باور ہوتا ہے کہ ضلع کپوارہ کے کسی دور اُفتادہ گاؤں سے ایک حاملہ گجر خاتون کو متعلقہ ضلعی ہسپتال کے ڈاکٹروں نے علاج ومعالجہ کے لئے لل دید ہسپتال سر ینگر ریفر کیا تھا ۔ بے یار ومددگار خاتون نے کپوارہ سے سری نگر آتے ہوئے ہزارہا مشکلات اور درد کی بے انتہا ٹیسوں کا سمندر اس اُمید سے عبور کیا تھا کہ لل دید شفاخانے میں اس کا بہتر علاج ومعالجہ ہوگا۔ اس قصے کا یہ پہلو کسی دل آزار کہانی سے کم نہیں کہ دردِزہ میں مبتلا بد نصیب خاتون کی کٹیا جہاں واقع ہے، وہاں تک ٹرانسپورٹ کی کوئی سہولت میسر نہیں،اس لئے مریضہ کو رشتہ داروں نے گھر سے چار پائی پر لاد کر اور کئی کلومیٹر برف کی موٹی تہ پر آبلہ پائی کر کے جوں توں مقامی ہسپتال تک پہنچایا۔ یہاںمر یضہ کو ضلعی ہسپتال لے جانے کی ہدایت دی گئی۔ وہاں پہنچی تو تیمارداروں کے ہاتھ اُسے لل دید ہسپتال منتقل کرنے کا پروانہ تھمادیا گیا ۔ لل دید پہنچنے پر ڈیوٹی پر مامور ڈاکٹر نے درد ِ زہ سے کراہ رہی خاتون کو نازک حالات میںدیکھنے کے باوجود اُسے ہسپتال میں ایڈمٹ نہ کر کے واپس گھر جانے کو کہا ۔ ڈاکٹر کا یہ عمل اذیت ناک بھی ہے اور ناقابل ِفہم راز بھی ۔ بادی النظر میں مر یضہ کو ہسپتال میں انسانی اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر داخل کر انے میں کوئی  رکاوٹ نہیں آنی چاہیے تھی لیکن کوتاہ نصیب مریضہ کوبے نیل و مرام لوٹایا گیااور چند ہی لمحوں بعد اُس نے ٹھٹھر تی سردی میں سڑک پر ایک بچے کو جنم دیا جو اس سنگ دل دنیا میں آنکھ کھولتے ہی چلہ کلان کی  ناقابل برداشت ٹھنڈ کے سبب دم توڑ بیٹھا ۔ بلاشبہ یہ دونوںکہانیاں سماج میں اخلاقی انحطاط اور زوال پذیر قدروں کی نشاندہی کر تے ہیں اور ہمارے علماء اورسماجی مصلحین پر ذمہ داری عائد کر تی ہیں کہ وہ سماج میں اخلاقی تعمیر نو کا بیڑہ اٹھائیں لیکن ثانی الذکر واقعہ سے یہ َاخذ کر نا بھی غلط ہو گا کہ ڈاکٹری پیشہ سے تعلق رکھنے والے تما م لوگ منابھائی ٹائپ ڈاکٹر ہیں،انہیں ا پنے پیشے کے انسانی تقاضوں کا پاس ولحاظ نہیں، یہ انسانی دل نہیںرکھتے ، یہ مریضوں سے لاپروائی بر تتے ہیں، یہ اخلاقی اعتبار سے دیوالیہ ہیں ۔ بات یہ نہیں بلکہ آج بھی خرابی ٔ بسیار کے باوجودہمارے یہاں فرض شناس، مریض دوست اور قابلیت وصلاحیت سے مالامال ڈاکٹر موجود ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ  کہ نوے کے دور ِ پُر آشوب سے لے کر آج تک سرکاری ہسپتالوں میں تعینات زیادہ تر طبی و نیم طبی عملہ جس جانفشانی ، مریض دوستی اور فرض شناسی سے اپنی خدمات پیش کرتا چلاآ رہا ہے ، اس پر یہ لوگ آفرین ومرحباکے ضرور مستحق ہیں ۔انہوں نے بسااوقات ناسازگار اورنامساعد حالات کے متاثرین کی زندگیاں بچانے میں اپنی جان تک جو کھم میں ڈالنے سے گریز نہ کر کے اپنے پیشے کاتقدس اور وقار قائم رکھا ۔ کشمیر کا شاید ہی کوئی باشعور فرد بشر ہوگا جس نے مشہورومعروف معالج ڈاکٹر عبدالاحد گور و، ڈاکٹرفاروق عشائی اور ڈاکٹر شیخ جلال وغیرہ جیسی نامور طبی شخصیات کی بے دردانہ ہلاکتوں پر خون کے آنسو نہ بہائے ہوں کیونکہ انہوں نے اپنی غیر معمولی طبی خدمات انجام دے کر مریض دوستی کی بے شمار تاب ناک مثالیں قائم کی تھیں ۔ تاہم اس بات سے بھی انکار کی مجال نہیں ہوسکتی کہ عرصہ سے ہمارے یہاں سرکاری شفاخانوں کے بارے میں مریض اور تیمار دار عدم اطمینان کی شکایتیں کر تے رہتے ہیں ۔ کوئی سرکاری شفاخانوں میں مریضوں کے تئیںبے مروتی کی داستان سرائی کرتا ہے ، کسی کو ان میں بدنظمی کا روگ دِکھتا ہے، کوئی ان میں جدید طبی سہولیات کے فقدان کارونا روتاہے، کوئی صحت وصفائی کی ناگفتہ بہ صورت حال پر انگشت بدنداںہے۔ ان عوامی شکایات کو نظرانداز کر نے کا مطلب ہے کہ یاتو متعلقہ حکام ہیلتھ سیکٹر کے بنیادی تقاضوں اور اپنے فرائض کو اہمیت نہیں دیتے ،یا وہ سرکاری شفاخانوں میںسدھار لانے سے قاصر ہیں ،یا خود شفاخانوں کی علالت سے ان لوگوں کے نجی مفادات وابستہ ہیں۔ بہرحال لل دید میں پیش آئے شر م ناک واقعہ میں متعلقہ حکام کے لئے یہ پیغام چھپا ہے کہ اب وہ زیادہ دیر تک سرکاری شفاخانوں کے مسائل اور ورک کلچر کے بگڑتے نظام کوگھمبیر تا سے نہ لینے کی کج ادا ئی کو یونہی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں سکتے۔ اُنہیں سمجھنا ہوگا کہ وادی کے بیشتر شفا خا نو ں میں ما ہر ین امراض آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں، اس پر ستم یہ کہ ان میں فرض ناشناس عملہ مختلف طبی جانچ کرنے والی مشینیں اکثر جانتے بوجھتے ناکارہ بنادی جاتی ہیں تاکہ غریب مریض پرائیوٹ لیبارٹیوں کارُخ کریں ۔ان تمام عوامی شکایات کا موثرازالہ کر نا اور لل دید جیسے گمبھیر سانحوں پر قابو پانا وقت کی ا ہم ترین ضروریات ہیں ۔
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

صحت سہولیات کی جانچ کیلئے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کاپونچھ دورہ تعمیراتی منصوبوں اور فلیگ شپ پروگراموں کی پیش رفت کا جائزہ لیا
پیر پنچال
پولیس نے لاپتہ شخص کو بازیاب کر کے اہل خانہ سے ملایا
پیر پنچال
آرمی کمانڈر کا پیر پنجال رینج کا دورہ، سیکورٹی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا آپریشنل برتری کیلئے جارحانہ حکمت عملی وہمہ وقت تیاری کو ضروری قرار دیا
پیر پنچال
سندر بنی میں سڑک حادثہ، دکاندار جاں بحق،تحقیقات شروع
پیر پنچال

Related

اداریہ

! ماحولیاتی تباہی کی انتہا

July 11, 2025
اداریہ

زرعی اراضی کا سکڑائوخطرے کی گھنٹی !

July 10, 2025
اداریہ

! ہماراقلم اور ہماری زبان

July 9, 2025
اداریہ

کشمیر میں ایمز کی تکمیل کب ہوگی؟

July 9, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?