روشنی کے سمندر میں قدم رکھتے ہی میں نے ایک زوردار چیخ ماری۔ اَماں نے میری طرف نم دیدہ آنکھوں سے دیکھا۔ نسیم سحر گنگنانے لگی۔ اماں میرے چہرے کو ایک عجیب چاہت سے دیکھتی رہی۔ اُس کے بعد اماں کے رسیلے ہونٹوں پر مسکراہٹ رقصاں ہوئی۔ اماں نے راحت کی ایک لمبی سانس لی۔ رشتہ دار ، ہمسایہ اور قبیلے کے لوگ شہد کی مکھیوں کی طرح میرے آس پاس اُمڈ پڑے۔ پھر میرے کانوں میں اذان دی گئی۔ میں اللہ ُ اکبر سُنکر کُلبلایا۔ میرے ہونے کی تصدیق ہوئی۔
میں نے اماں کو ممتا کی کتاب سے پہلے تین اسباق پڑھائے۔ احساسِ محبت، احساسِ ذمہ داری اور فرض کی ادائیگی کا احساس۔ تین سال اور کچھ دن بعد اُس پہلی درس گاہ سے میں فارغ ہوا۔ اُس دوران میں نے اماں کو دُنیا کے پہلے اُستاد اور ماہرِ نفسیات ہونے کا اعزاز بخشا۔اس کے بعد زندگی نے میری اُنگلی پکڑ کر دوسرے درس گاہ میں میرا داخلہ کروایا۔ یہاں چہروں کو پہچاننے کا علم سکھایا جاتا تھا۔ چہروں کا مطالعہ کرنا میں نے اِسی سکول میں سیکھ لیا۔ اس درس گاہ میں زندگی نے مجھے میری منزل کے بارے میں جانکاری دی۔ اس طرح میں منزل کو پانے کے لئے پڑائو در پڑائو سفر طے کرتا گیا۔ ہر پڑائو پر مجھے اپنی کامیابی اور ناکامی کی تاریخ رقم کرنی پڑی۔ مجھے آشائوں کے کھیت میں خوابوں کی فصلیں کاشت کرنا پڑیں۔
’’خواب کو لیکر کیا کروگے؟‘‘ زندگی نے مجھ سے سوال کیا۔
’’خوابوں میں ایک نئی زندگی کے مہکتے نشان ہوتے ہیں، اِن سے مجھے اپنے کل کو سنوارنا ہے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کتنی دیر؟‘‘ ۔ اُس نے لجاجت آمیز لہجے میں پوچھا۔
’’جب تک سانسوں کا چرخہ چلتا رہے ۔‘‘
’’سانسوں کے چرخہ پر کیا کات رہے ہو؟‘‘ اُس نے پھر پوچھا۔
’’زندگی‘‘ میں نے فوراً جواب دیا۔
’’میری ایک نصیحت پر عمل کرنا‘‘۔ زندگی بڑے ہی انہماک سے بولی۔
’’جی بتایئے‘‘۔
’’آینے کو کبھی بھی اپنا چہرہ نہیں دِکھانا۔‘‘
مُجھے یاد ہے، یہی نصیحت مجھے نُوری نے سہاگ رات کو کی تھی۔ اُس وقت نُوری کی یہ نصیحت مجھے کچھ عجیب سی لگی تھی۔۔۔!
نو مہینے، نو دِن اور نو پہر بیت گئے۔ نوری نے کتابِ زندگی کے ممتا کے باب کی تفہیم کی۔ بچے نے ایک زور دار چیخ ماری۔ نُوری نے کمال ہوشیاری سے بچے کو اپنی چھاتی کے ساتھ لگایا۔ اس کے بعد نوری نے مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا۔ پسینے کی خوشبو سے میرا سارا وجود مہک اُٹھا۔ ہم دونوں سرگوشیوں میں منہمک ہوئے۔
اِکسٹھواں پڑائو طے کرنے کے بعد ایک دِن اچانک میری نظر اُس بڑے آئینے پر پڑی، جو نُوری اُس دن اپنے ساتھ لائی تھی، جب وہ دلہن بن کر میرے گھر میں وارد ہوئی تھی۔ میرے تصورات کی دُنیا میں ہلچل سی مچ گئی۔ جب مُجھے اپنے چہرے پر نظر پڑی۔۔۔۔ میری داڑھی کسی کچی دیوار پر اُگی گھاس کی طرح ہوگئی تھی۔!!
رابطہ؛آزاد کالونی پیٹھ کانہامہ ماگام،موبائل نمبر؛9906534724