افضل شاہ پورے اسکول میں سب کا چہیتاتھا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مقبولیت میں روز بہ روز اضافہ ہوتا گیا۔ پڑھائی میں ہم عصروں میں کوئی اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اساتذہ کا تو آنکھوں کا تارا تھا۔ افضل شاہ کے اندر ایک ایسی صفت تھی جو بہت کم لوگوں کے اندر پائی جاتی ہے۔ وہ سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرتا تھا جب تک نہ خوداس کے مشاہدہ سے نہ گزریں۔ وطن کی محبت اس کے دل ودماغ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، جو ایمان کی نشانی ہے۔ کسی کا دکھ اس سے دیکھا نہیں جاتا تھا۔ اُس نے بورڑ کے سارے امتحانات میں امتیازی پوزیشن حاصل کر کے ضلع کا نام روشن کیا تھا۔ اور تو اور پی۔ایس۔ سی۔ کے امتحان میں بھی سارے طلباء پر سبقت لے کر سارے لوگوں کے دلوں میں چھا گیا تھا۔ طالب علم جب بھی باہر جاتے تو فخر سے افضل شاہ کا ریفرنس دیتے کہ ہم بھی اسی سر زمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ بڑی بڑی کونسلینگ پروگراموں کا اُسے مہمان خصوصی بنایا جاتا۔ لوگوں کا جم غفیر اُس سے ملنے کے لیے بے قرار ہوتا۔ اخباروں اور رسالوں کی وہ زینت بنا رہتا تھا۔
کہتے ہیںناوقت کی آواز نقاروں کی محتاج نہیںپھر ایک دن اچانک افضل شاہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔ تو لوگوں کے دلوں میں عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی۔ گھر والوں خانہ افراد نے تو جن پری کے اثرات سمجھ کر پیروں سے رابطہ کیا۔ لوگ آپس میں سر گوشیاں کرنے لگے۔ کچھ تو ہوا ہے انہیں ورنہ آج کے دور میں لوگ نوکری کے لئے نہ جانے کیا کیا جتن کرتے ہیں، وہ بھی اتنے بڑے عہدے کے لیے۔ بچہ ابھی ماں کا دودھ پی رہا ہوتا ہے کہ دنیا و مافیا سے بے خبر اس وقت اس کے کانوں میں یہی بات ڈالی جاتی ہے کہ بیٹا تمہیں اس عہدے کے لیے خود کو تیار کرنا ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ اس کا خواب دیکھتے دیکھتے رحمت حق ہو جاتے ہیں اور نہ جانے کتنے دماغی توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ بڑے بڑے دانشور بھی افضل کی اس حرکت پر حیران تھے۔ لوگوں کے دلوں میں ہزاروں سوالات جنم لے رہے تھے۔ ایک بارپھر افضل شاہ اخباروں اور رسالوں کی زینت بن چکا تھا۔
جب اُس کے خیالات کو جانا گیا تو بقول اُس کے ''ہماری ٹیموں کو بار بار شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ٹیمیں ایسا کوئی کارنامہ ابھی تک انجام نہیں دے پائی ہیں جو لوگوں کے لیے باعث تسکین بنے'' جب اُس نے ٹیموں کا ذکر کیا تو ہر ٹیم میں ہل چل مچ گئی اور ہر کوئی اُسے کو اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہتا تھا۔ کئی ٹیمیں اۃسے اپنا کپتان بنانا چاہتی تھیں۔ لیکن اُس نے پھر ایک بار انکار کردیا اور کہنے لگا ''میں ہر اس فرد سے رابطہ کرنا چاہوں گا جو اس ڈوبتی نیا کو پار لگانے میں میری مددکرےگا '' افضل شاہ پھر ایک بار اپنی قوم میں دیدہ ور بن چکا تھا۔۔۔
رابطہ؛دراس کرگل
موبائل نمبر9797144538