حسن اتفاق ہے کہ اننت ناگ میںنیشنل کانفرنس کے خصوصی اجلاس کے بعد جب نیشنل کانفرنس کا باقاعدہ سالانہ اجلاس بارہمولہ میںمنعقد ہوا تو اس کی صدارت سردار بدھ سنگھ نے کی۔ سردار بدھ سنگھ دوبار متواتر نیشنل کانفرنس کے صدر منتخب ہوئے۔شیخ عبداللہ کے علاوہ نیشنل کانفرنس کاصدربننے کا اعزاز صرف سردار بدھ سنگھ کو ہی حاصل ہے۔ ان کی صدارت کے دوران ہی نیشنل کانفرنس نے ’’نیا کشمیر‘‘ کاپروگرام مرتب کرکے اسے اپنانصب العین قراردے کر سوشلسٹ نظام قائم کرنے کاعندیہ اپنایاا ور نیشنل کانفرنس ریاست گیر پیمانہ پر تمام خطوں کے محنت کشوں کی نمائندہ جماعت اُبھر کر سامنے آئی۔ 1946برصغیر ہندوستان میں انتہائی اُتھل پتھل کا زمانہ تھا۔ انگریز عوامی تحریکوں کے باعث اپنابوریا بستر گول کر کے واپس انگلستان جانے کی تیاریوںمیں مصروف تھے۔ برطانوی ہندوستان کی تقسیم کا مسئلہ درپیش تھا۔ ہندوستان کی 365ریاستوں کا کیامستقبل ہوگا، اس مسئلہ پرغور ہورہاتھا۔ کانگرس اور مسلم لیگ انگریزوں سے مل کر والیاں ریاست کو یہ حق دینے کے حق میںتھیں لیکن نیشنل کانفرنس نے کشمیر چھوڑدو تحریک شروع کرکے مطالبہ کیا کہ دیسی ریاستوں کے مستقبل کافیصلہ کرنے کاحق والیا ن ریاست کونہیں بلکہ متعلقہ ریاستوںکے عوام کو ہے۔ اگر اس اصول کو تسلیم کرلیا جاتا تو مسئلہ کشمیر کب کا حل ہوگیاہوتالیکن کانگرس، مسلم لیگ اور برطانیہ نے سودا بازی کرکے ریاستوں کے مستقبل کے فیصلہ کا حق والیان ریاست کو دے کر مسئلہ کشمیر پیداکردیاہے جوکہ ابھی تک ہندوستان اور پاکستان کی مملکتوں کے درمیان تنازعہ بنا ہواہے۔ اس انقلابی دورمیں بھی سردار بدھ سنگھ کا کردار رہنمایانہ رہاہے۔ سردار بدھ سنگھ کی تقریر پر دفعہ 28/32ڈیفینس رولز کے تحت مقدمہ چلایاگیا اور انہیںتین سال بامشقت کی سزادی گئی لیکن ان کے مقدمہ میں سردار بدھ سنگھ کابیان سے گلاب سنگھ کے خاندان کی طرف سے جموںوکشمیر ہتھیانے کی فریب کارانہ اور غدارانہ حرکات کا پردہ فاش ہوجاتاہے۔ اس سے ثابت ہوجاتاہے کہ سردار بدھ سنگھ راجواڑہ شاہی کے بنیادی طورپر تخریب کے زبردست داعی تھے۔
’’کشمیر چھوڑو‘‘ تحریک کے قیدیوں کو مئی 1947میںاپنے اپنے اضلاع میںمنتقل کردیاگیا۔ سردار بدھ سنگھ کوبھی سرینگر جیل سے میر پورجیل میں تبدیل کیاگیا۔ اس لئے ہمیں اکٹھے تقریباً چھ ماہ جیل میں بسر کرنے کاموقع ملا۔ جیل میں اکثر بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کی خصوصیات بدل جاتی ہیں۔ معمولی معمولی باتوں اور مراعات پر جھگڑے اور فسادات ہوجاتے ہیں لیکن سردار بدھ سنگھ اس سلسلہ میں مثالی سیاسی قیدی تھے۔ہمارے تمام ساتھیوں کے ساتھ ان کا سلوک انتہائی دوستانہ اور مخلصانہ رہا اور جیل کی زندگی انتہائی خوش اسلوبی سے گزری جس کی یاد ابھی تک ذہن میں تازہ ہے۔ہماری جیل سے رہائی بھی تقریباً بیک وقت ہوئی اور ہمیں بھی جموں منتقل ہوناپڑا۔ جموں صوبہ میں اس وقت آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی۔ جموں صوبہ کے مغربی اضلاع میرپور، پونچھ اور راجوری میں غیر مسلم فرقہ کے لوگ فرقہ پرستی اور درندگی کا شکار ہوئے اور مشرقی اضلاع جموں، کٹھوعہ اور اُدوھم پور مسلم آبادی ہندو کٹر پنتھیوں کا نشانہ بنے۔ ہرطرف آگ اور خون کے مناظر دکھائی دیتے تھے۔ جموں میں ایک طرف مغربی اضلاع سے آئے ہوئے شرنارتھیوں کوریلیف دینے کامسئلہ درپیش تھا تو دوسری طرف مشرقی اضلاع کی مسلم آبادی کو تحفظ دینے اور بچے کھچے لوگوں کے بچائو کرنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ اس پس منظرمیں سردار بدھ سنگھ کووزیر بحالیات کامحکمہ سونپا گیا۔ وسائل بہت کم تھے لیکن سردار بدھ سنگھ نے استطاعت کے مطابق دونوں کا بطریق ِاحسن سرانجام دیتے۔ اس سلسلہ میں بڑی کہانیاںہیں جن کو بیان کرکے سمع خراشی مقصود نہیں ہے۔
سردار بدھ سنگھ خصوصی طورپر گڑ بڑ کے دوران مسلم مستورات کے اغواء کے سلسلہ میںکافی حساس تھے۔ انہوںنے اس سلسلہ میں مغویہ مستورات کی بازیابی کرنے کے لئے مردولاسارا بھائی کے ساتھ میری ڈیوٹی لگائی اور ہم نے سینکڑوں اغواہ شدہ مسلم مستورات کو برآمد کرکے ان کے لواحقین کے پاس پاکستان بھیجا۔ سردار بدھ سنگھ خصوصی طورپر چوہدری غلام عباس کی لڑکی کی برآمدگی کے سلسلہ میں بہت متفکر تھے۔ چنانچہ ہم نے اسے برآمد کرکے پاکستان روانہ کیا۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ سردار بدھ سنگھ کس قدر مذہبی تعصبات سے پاک انسانی ہمدردی کے متوالے تھے۔ جموں خطہ میں نیشنل کانفرنس نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہر طرف فرقہ پرستی کا بول بالا تھا۔ مہاراجہ پرستی جوبن پرتھی۔ مہاراجہ کی بحالی کا مطالبہ زوروں پر تھا۔ زرعی اصلاحات اور قرضہ منسوخی کے قوانین منسوخ کرنے کی زوردار آواز تھی۔ پرجا پریشد کی ایجی ٹیشن بنیادی طورپر مہاراجہ کی بحالی ، جموںوکشمیر کی اسپیشل پوزیشن ختم کرنے، زرعی اصلاحات اور قرضوں کی منسوخی کے احکامات منسوخ کرنے کی خاطر تھی اور ایڈمنسٹریشن راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے اشاروں پرچلانے کے لئے تھی۔ اس سلسلہ میں نیشنل کانفرنس کی صوبائی کمیٹی کا انتخاب عمل میں آیا۔ سردار بدھ سنگھ صدر، موتی رام بیگڑہ نائب صدر، رام الحروف جنرل سکریٹری، غلام رسول آزاد جوائنٹ سکریٹری منتخب ہوئے۔ سردار بدھ سنگھ کی قیادت میں سرگرم کارکنوں کی ٹیم نے منظم ہوکر فرقہ پرست، علاقہ پرست ، مہاراجہ پرست، لینڈ لارڈ اور ساہو کار نواز عناصر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور انہیںشکست دی۔ اس کامیاب جدوجہد کے لئے سردار بدھ سنگھ کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ حالانکہ اندرونی طورپر بخشی غلام محمد گروپ کی بھی ان عناصر کو رجعت پسندحمایت حاصل تھی اور یہ گروپ ہمیشہ ہماری راہ میں رکاوٹ ڈالتارہا اور ہمارے خلاف سازشیں کرتارہا۔
المختصر جب تک سردار بدھ سنگھ جموںوکشمیر کی عملی سیاست میں رہے۔ ان کا اور ہمارا چولی دامن کاساتھ رہا۔ اس کے بعد وہ راجیہ سبھا میں بھیج دئے گئے اور پیرانہ سالی اور فریب کاروانہ ، عیارانہ سیاست سے تنگ آکر ریٹائرڈ زندگی بسر کرتے رہے،لیکن ان کا آشیر واد ہمیشہ اپنے ساتھ شامل حال رہا۔ یہ ان کی بزرگی کااعتراف ہے۔
چونکہ سردار بدھ سنگھ کے سیاسی ،سماجی اور انسانی کردار کو بھلایا دیاگیا اور نئی نسل ان کے نام تک سے آشنا نہیں ہے۔ جن لوگوں کافرض تھا کہ وہ سردار بدھ سنگھ جیسی دل آویز شخصیت سے عوام اور نئی نسل سے متعارف کراتے، انہوںنے مہاراجہ ہری سنگھ کی اولاد سے سمجھوتہ کرکے ڈاکٹرکرن سنگھ سے بھی یارانہ گانٹھ لیا اور اس کے بیٹے کو بھی اپنی صفوںمیںشامل کرکے کبھی منسٹر، کبھی ایم ایل اے ، کبھی ایم ایل سی بناکر راجواڑہ شاہی سے سانٹھ گانٹھ کرلی ۔ انہوں نے راجواڑہ شاہی کے ستونوں کے قد آدم مجسمے نصب کرنے، ان کی نقاب کشائیاں کرنے، ان کی تعریفوں کے پل باندھنے کا سیاسی گورکھ دھندا چلایا، اس لئے وہ سردار بددھ سنگھ جیسے راجوڑہ شاہی کے کٹڑ دُشمن ، جاگیرداری اور ساہو کار ی زبردست مخالف ، مزدوروں ، کسانوں، دبے کچلے لوگوں اور محنت کشوں کی تحریکوں کے علمبردار کانام لینے سے استحصالی عناصر کے ساتھ ان کے یارانہ میںفرق آتاہے ، لیکن اس مرد بہادر کی یاد اپنے لئے باعث فخر ہے۔ اس لئے چند یہ لفظ نذر قارئین کئے ہیں تاکہ سردار بدھ سنگھ کی یاد تازہ ہوجائے۔ ہم تو اس یاد کے متعلق لفظ یہ کہہ سکتے ہیں ؎
کررہاتھا غم ِزندگی کاحساب
آج تم بے حساب یاد آئے