بات وہی پرانی ہے۔کہ کون مائی کا لال نئی دلی سے سیاسی رعایت لے سکتا ہے۔ شہرت اور مقبولیت کے بڑے بڑے مہاویراس بحر زخار میں غوطہ زنی کرکے بدنامی کے دلدل میں دھنس گئے۔ پسپائی اور شکست کے اس سفر کا سب سے بڑا ریفرینس شیخ محمد عبداللہ ہیں، جن کے بارے میں شمیم احمد شمیم نے تاریخی جملہ کہا ہے: ’’شیخ محمد عبداللہ سے ہماری صبح بھی عبارت ہے اور شام بھی۔‘‘ گزشتہ چالیس برس کے دوران جیسی تیسی سیاست یہاں پروان چڑھی ہے، کسی بھی سیاسی چہرے پر شمیم کا جملہ پورے کا پورا صادق نہیں آئے گا، کیونکہ اِن لوگوں سے ہماری صرف شامیں عبارت ہیں اور کبھی کبھار اگر سحر بھی ہوئی تو اس پر رات کی تاریکی کا ہی غلبہ تھا۔فاروق عبداللہ سے مظفر بیگ اور سیف الدین سوز تک، عمرعبداللہ سے محبوبہ تک اور ہر نوآموز سے ہر نوآموز تک، جو بھی لوگ سیاسی منظرپر سرگرم ہیں، ویہاں کی یرغمال سیاست کے سڑے انڈے ہیں۔ شاہ فیصل جیسے جوشیلے نوجوان سڑے انڈوں کی اسی عفونت میں جھاڑو لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ سیاست اور انتظامیہ کی صفائی کریں گے۔
بنیادی طور پر جمہوریت کا ایک دیرینہ مسلہ ہے اور وہ مسلہ قومی ریاست یعنی نیشن سٹیٹ کے حسن و قبح سے جڑا ہے۔ قومی ریاست کا نظریہ بظاہر استحکام کا باعث تو بنا لیکن اس کے پس پردہ جو ڈیپ سٹیٹ کارفرما رہتی ہے وہ جمہوریت کی رگوں سے مساوات، رواداری اور شفافیت کا خون چوستی رہتی ہے۔اور افسوس کہ اس عمل میں گہری ریاست قانون سازیہ، عدلیہ، میڈیا اور انتظامیہ سبھی کا نہایت صفائی سے استعمال کرتی ہے۔ گہری ریاست کیسے کام کرتی ہے، اس پر کئی بار منجھے ہوئے تجزیہ نگار پی جی رسول نے چشم کشا تحریریں لکھی ہیں۔یہاں ہمارا مدعا اس سوال پر غور کرنا ہے کہ کشمیری سیاست کے سڑے انڈے بار بار کشمیریوں پر مسلط کیوں ہوتے ہیں؟ چونکہ جمہوری عمل اپنی اعتباریت کھوچکا ہے، اور مزاحمتی خیمہ اس عمل کو ایک فوجی آپریشن کہتا ہے، اس لئے عوامی سطح پر یہ ممکن ہی نہیں کہ اجتماعی سیاسی بیداری پیدا کی جائے اور سڑے انڈوں کو پھینک کر سیاست کی اس پھلواری میں نئے پھول لگائے جائیں۔لوگ اس قدر بے بس ہوتے ہیں کہ وہ ہمالیائی قربانیوں کے باوجود ہر بار ان ہی سڑے انڈوں پر تکیہ کرنے کے لئے مجبور ہوجاتے ہیں۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہاں کے انتخابی عمل میں اداروں کا گہرائی تک عمل دخل رہتا ہے۔ پریس کونسل آف انڈیا کے سابق سربراہ اور نامور صحافی بی جی ورگیس کنن پوش پورہ سانحہ کے حوالے سے کافی بدنام ہوئے، کیونکہ انہوں نے اسے ایک فرضی واقعہ قرار دے کر کشمیر یوں کی روح کو مجروح کردیا تھا۔ تاہم اپنی ایک کتاب ’’بریکنگ نیوز‘‘ میں انہوں نے ایک مضمون شامل کردیا ہے جس میں 1996 کے انتخابات کی باپت لکھا ہے کہ بانڈی پورہ میں مقابلہ اُمیدواروں کے درمیان نہیں بلکہ فوج کی دو یونٹوں کے درمیان تھا۔ اور پھر چند سال قبل سابق فوجی سربراہ جنرل وی کے سنگھ نے سنسنی خیز انکشاف کردیا کہ فوج خفیہ فنڈس میں سے یہاں کے سیاسی لیڈروں کو پیسہ دیتی تھی۔ انہوں نے غلام حسن میر کا نام بھی لیا۔ جنوب ایشیا میں سیاست میں فوج کے درپردہ کردار سے اب کون واقف نہیں، فرق اتنا ہے کہ اگر کہیں یہ کردار نمایاں اور قومی سطح کا ہے،تو ادھر یہ تجربہ کشمیر میں کیا جارہا ہے۔ عجب نہیں کہ یہ روگ اب بھارت کو بھی لگ جائے۔ کیونکہ جنرل وی کے سنگھ کے سپہ سالاری کے وقت فوج نے منموہن سنگھ حکومت کے دوران آگرہ سے دلی پر چڑھائی کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ فوج کے ایک طبقے میں یہ خواہش پروان چڑھی ہے۔ قومی سطح پر نہ سہی کشمیر میں یہ تجربہ تو کیا ہی جارہا ہے۔
اس سیاسی پس منظر میں انتخابات اور ان سے متعلق مزاحمتی بیانیہ پر غور کریں تو عام کشمیری کنفیوز لگتا ہے۔جب ایک منتخب رکن اسمبلی دس سال سے کہہ رہا ہے کہ لوگوں کی اکثریت رائے شماری چاہتی ہے اور مسلے کا حل بھی اسی میں مضمر ہے، تو یہ مسلہ اپنے آپ حل ہوجاتا ہے کہ انتخابات کا مسلہ کشمیر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ شاہ فیصل اور انجنئیر رشید جیسے لوگ جب چلا چلا کر اسمبلی اور پارلیمنٹ میں کہیں گے کہ کشمیری اپنے آپ کو آئیڈیا آف انڈیا کے ساتھ متعلق نہیں کرسکتے، تو عالمی سطح پر یہاں کے انتخابات کی غلط تاویلوں کا امکان خود بخود ختم ہوجاتا ہے۔
لیکن سڑے انڈوں کی نرسری میں دو نحیف آوازیں کیا کمال کریں گی، اور وہ بھی ایسے میں جب انتخابات، انتخابی عمل اور اس کے مزاحمت پر اثرات کا کبھی دیانت داری اور خلوص کے ساتھ تجزیہ ہی نہ کیا گیا ہو۔ بائیکاٹ کا دارومدار تشدد کی سطح اور ہلاکتوں پر ہوتا ہے۔ اگر حالات نارمل ہوں تو بہت مشکل ہے کہ ماضی کی قربانیوں کا واسطہ دے کر لوگوں کو صد فی صد بائیکاٹ پر آمادہ کرایا جائے۔ لیکن یہ کہنے کا مقصد قطعاً یہ نہیں کہ حریت رہنما فوراً الیکشن کے اس گندے کھیل میں کود جائیں۔ یہاں کی سیاست سڑے انڈوں سے بھری پڑی ہے۔ ان سڑے انڈوں کا دوغلا پن اب سب پر عیاں ہے۔شاہ فیصل نے ایک اور بات کہی تھی کہ یہاں کی سیاست کے گرامر میں آزادی اور رائے شماری اور انسانی حقوق کی ترکیبیں داخل کرنا ضروری ہے۔ یہ بظاہر مزاحمتی بیانیہ کی فتح ہے۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ تحریک بے نتیجہ ثابت ہوئی لہذا ترنگا اُٹھا کر دلی چلتے ہیں۔ اقتدار نواز سیاست میں اگر کوئی تطہیری عمل شروع ہوجاتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے، اس سے قطع نظر کہ گہری ریاست اس تطہیری عمل کو سبوتاژ کرتی ہے یا ہائی جیک۔ کم از کم نئی نسل اب مسلہ کشمیر کے بارے میں کسی ابہام کاشکار نہیں، لیکن انتظامی ضروریات اور اقتدار کی سیاست اور اس کے مزاحمت پر اثرات کے بارے میں جو ابہام موجود ہے اس سے ختم کرنا ہوگا۔
…………………
بشکریہ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر