ہندوستان کے سیکولرم آئین کے بموجب کسی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا تحفظ اور رعایت نہیں دی جاسکتی۔ حدتو یہ ہے کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی معاشی اور سماجی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے لیکن مسلمانوں کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے کسی قسم کی کوئی راحت حکومت سے نہیں مل سکتی ہے۔ مودی حکومت نے دستور کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ’’قانون شہریت ترمیمی بل 2016‘‘ میں بنگلہ دیش ، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے تمام ہندوئوں، سکھوں، عیسائیوں اور اسلام کے علاوہ تمام مذاہب کے پیروکاروںکو ہندوستان کی شہریت دینے کا قانون بنایا ہے۔ ملک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ ہندوستانی شہریت مذہب کی بنیاد پر دی جارہی ہے۔ پڑوسی ممالک سے ہندوستان آنے والوں میں بھاری اکثریت ہندوئوں ہی کی ہوسکتی ہے، لہٰذا سنگھ پریوار کے ہندتو کے ایجنڈے کے مطابق ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے سلسلہ میں یقینا یہ پہلا قدم ہے لیکن اس کے لئے صرف بی جے پی کو مورد الزام ٹھہرانا زیادہ صحیح نہ ہوگا کیونکہ کانگریسی دورِ حکومت میں ہی اس کی ابتداء ہوچکی تھی، جب کہ راجیو گاندھی کے دور میں 1971ء کے بعد بنگلہ دیش سے آسام اور دیگر ہندوستانی ریاستوں میں داخل ہونے والوں کو گیارہ (11)سال بعد ہندوستان میں قیام کے بعد ہندوستانی شہریت حاصل کرنے کا حق مل جاتا تھا۔ اب بی جے پی نے ایک ترمیم کے ذریعہ 1971ء کی تاریخ کو 2014ء تک بڑھا دیا ہے اور گیارہ سال قیام کی شرط کو کم کرکے چھ سال کردیا ہے لیکن ان تمام رعایتوں سے مسلمانوں کو محروم رکھا گیا ہے۔ شاید سنگھ پریوار اور مودی حکومت کے نظریہ کے مطابق مسلمانوں پر پاکستا ن، افغانستان اور بنگلہ دیش میں کوئی ظلم نہیں ہوسکتا ہے بلکہ ہندد نظریہ کے مطابق مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنے کا حق ہی نہیں ہے۔ اس لئے ان کو شہریت دینے کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا ہے۔ اس بل کی خود آسام میں جو مخالفت مقامی عوام کی جانب سے ہورہی ہے ،اس کا حال سبھی کو معلوم ہے۔ اس کی مخالفت مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ کررہے ہیں۔
ہم یاد دلایں ایسی پاکستانی لڑکیوں کو جن کے شوہر ہندوستانی مسلمان ہیں، ہندوستان میں طویل قیام کے باوجود شہریت بہت کم ملتی ہے۔ ہندوستانی شوہر اور پاکستانی بیوی پر مشتمل جوڑے کو مجبوراً کسی دوسرے ملک مثلاً برطانیہ ، امریکہ یا کینڈا کی شہریت اختیار کرنی پڑتی ہے بلکہ چند سال سے تو بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کی پاکستانی بیویوں کو ہندوستان آنے کی بھی اجازت بمشکل مل رہی ہے۔ یہی نہیں ایسے تمام ہندوستانی جو پاکستان جاکر وہاں سے کسی اور ملک کے شہری بن گئے ہوان کو بھی ماضی میں ان کی پاکستانی شہریت کی وجہ سے ہندوستان کا ویزا نہیں دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے بے شمار واقعات ہوئے ہیں۔
تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک پر عام طور پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ عرب ممالک میں کسی کو شہریت عام طورپر نہیں ملتی ہے ،گو کہ یہ بات صحیح ہے لیکن تنقید کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان اگر ہندوستانی شہریت ترک کردیں تو اس کے لئے دوبارہ ہندوستانی شہریت کا حصول ایک طرح سے ناممکن ہے اور مودی حکومت نے اس ضمن میں اور سخت قوانین بنادئے ہیں لیکن پڑوسی ممالک میں رہنے والے ہندوؤں کے لئے ہندوستانی شہریت کا حصول آسان بنادیا گیا ہے۔ حکومت کی یہ پالیسی کھلم کھلا بدنام زمانہ ’’دو قومی نظریہ‘‘ پر عمل درآمد ہے ۔ دو قومی نظریہ کے لئے محمد علی جناح مرحوم کے علاوہ اور کئی مسلمان قائدین بشمول سرسید احمد خان اور محمد علی جوہر کوتنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جب کہ سچ تو یہ ہے کہ دو قومی نظریہ پر ہندوستان میں ہی زیادہ عمل درآمد ہوتا ہے۔
آخر میں یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان میں رہنے والے ہندوؤں پر شدید مظالم کی خبریں عالمی میڈیا ہی نہیں ہندوستانی میڈیا کی چند فرقہ پرست اور مسلم دشمن ٹی وی چینلس پر بہت کم ملتی ہیں۔ اس لئے یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ مودی حکومت نے فرقہ پرستووٹروں کو خوش کرنے کے لئے قانونِ شہریت کا ترمیمی بل پاس کروایا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک المیہ یہ بھی ہے کہ شہریت بل کی بہت کم مسلم قائدین نے کھلم کھلا مخالفت کی جب کہ سیکولر جماعتوں نے اس بل کو آسانی سے پاس کروادیا۔ اس سے قبل مسلم دشمن طلاق ثلاثہ بل کی بھی سیکولر جماعتوں نے کوئی خاطر خواہ مخالفت نہیں کی۔ گویا سیکولر جماعتوں پر مکمل اعتمادکرنا بھی بڑی غلطی ہے۔
Ph: 07997694060
Email: [email protected]