دنیا بھر کے کم و بیش تمام ممالک کی تواریخ میں ایسے بے لوث انقلابی رہنماؤںکا ذکر ضرور ملتا ہے کہ جنہوں نے اپنی اپنی قوم کو غلامی اور مشکلات سے نجات دلانے کا عزم لئے اپنی راتوں کی نیند تیاگ دی اور اپنے ملک وقوم کو نئی جان دی۔ فرانسیسی انقلاب کے اوراق کو پلٹ کے دیکھیں یا جرمنی، اٹلی ، یونان، ہندوستان کی تاریخ کو کھنگالیں ، ایسے سیاسی رہنماوں کی اَنتھک کاوشوں کا سنہرا باب ضرور ملتا ہے جنہوں نے تن من دھن سے اپنے آپ کو قوم کے نام وقف کیا اور قوم کا کوئی دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر کرکے رکھا ۔ایسے قائدین کے کارنامے سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہوتے ہیں ۔ بر صغیر کی تاریخ بھی ایسے اَن گنت نڈر، خطر پسند ، جان باز ،دُور اندیش سیاسی رہنماؤں کی اَنتھک کاوشوں اور گرانقدر خدمات کی گواہ رہی ہے۔ بلا شبہ انہی رہنماوں کی بے لوث خد مات اور قربانیوں سے بر صغیر نے غلامی در غلامی سے نجات پائی۔ جموں و کشمیر چونکہ کئی دہائیوں سے اپنی کھوئی ہوئی سیاسی اورقومی شناخت پانے کے لئے کافی کچھ کھو چکی ہے ، اس لئے اس قوم کو بھی کارکشااور بالغ نظر قائدین کی اشد ضرورت ہے۔ ا س کم نصیب قوم نے اپنی پسندیدہ منزل پانے کی مصائب سے بھر ی طویل جنگ میں کئی سیاسی نشیب و فراز دیکھے اور کئی سیاسی چہرے بے نقاب ہوتے پائے۔ یہاں کئی ایسی شخصیات نے جنم لیا جنہوں نے قوم کو مصائب سے نکالنے کا پکاعہدکیااور عوام کو ان کا سلب شدہ حق دلانے کا عزم بھی ظاہر کیا ، لوگوں نے خاص کر ہر اُس قائدکا تن من دھن سے ساتھ دیا جس نے کشمیر حل کاعلم اٹھاتے ہوئے کشمیر یوں کی عزت وآبرو کا نعرہ بلند کیا۔
گزشتہ ماہ نے اس دعوے کے ساتھ سول سروس آفسر ڈاکٹر شاہ فیصل نے اپنی ملازمت سے استعفٰی دیا کہ وہ کشمیر میں ہو رہے بے تحاشہ قتل و غارت کے خلاف احتجاجاََ اپنی نوکری سے دست بردار ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر فیصل لولاب جموں و کشمیر کے وہ نوجوان ہیں جنہوں نے ۲۰۰۹ء میں آئی اے ایس امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کر کے کافی شہرت پائی۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ۲۰۱۰ء کشمیر کی تاریخ کا ایسا خونین سال رہا جب لوگ سڑکوں پہ اُمڈ آئے اور کشمیر کاز کو سختی کے ساتھ دبانے اور دلی کے خلاف بشری حقوق کی پامالیوں پر اپنا غم و غصہ ظاہر کر رہے تھے ۔اسی بیچ جب ڈاکٹر شاہ فیصل نے آئی اے ایس کا امتحان پاس کیا تو کشمیری نوجوانوں کو لبھانے کے لئے دلی کی طر ف سے ان کو کشمیری نوجوانوں کا رول ماڈل بتایا گیا،ا نہیں کافی پذیرائی ملی، یہاں تک کہ وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے خصوصی پیغام کے ذریعے شاہ فیصل کو مبارک باد دی۔ شاہ فیصل نے بہ حیثیت ڈپٹی کمشنر اور ڈائرکٹر ایجوکیشن اپنی خدمات انجام دیتے ہوئے کئی نئی چیزیں بھی کیں۔ اُن کا سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہاتھاکہ یکایک بیرون ملک سے اپنے ایک ٹویٹر میں ہندوستان میں خواتین کے خلاف ہورہے جنسی جرائم کی پاداش میں ملک پر’’ریپستان ‘‘ ہونے کی چوٹ کی ۔ اس طنزآمیز ٹویٹ کی پاداش میں شاہ فیصل کے خلاف محکمانہ تحقیقات کا حکم نامہ جاری ہوا ۔اس سے شاہ فیصل کو عوامی ہمدردی حاصل ہوئی۔ بالآخر ۹؍ جنوری ۲۰۱۹ء کو ڈاکٹر شاہ فیصل نے الل ٹپ مستعفی ہو کر سب کو ورطہ ٔحیرت میں ڈال دیا۔ استعفٰی کے چند روز بعد شاہ فیصل نے اپنی پریس کانفرنس میں اپنے اقدام کے پیچھے وجوہات اور اپنے آگے کے مقاصد کا خلاصہ کیا۔ پریس کانفرنس میں انہوں نے ایک طرف حریت کو عوامی جذبات کا ترجمان بتایا لیکن دوسری جانب حریت میں شامل ہونے کے امکان کو یہ کہہ کر خارج کر دیا کہ حریت (گ)انتخابی سیا ست میں یقین نہیں رکھتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں شاہ فیصل صاحب کا اشارہ صاف تھا کہ وہ الیکشن لڑیں گے۔ ان کے بارے میں پہلے سے چہ مہ گوئیاں ہوتی رہیں کہ وہ نیشنل کانفرنس میںشامل ہونے والے ہیں لیکن فی الحال نیشنل کانفرنس سمیت کسی بھی دوسری سیاسی جماعت میں وہ فاصلہ بنائے ہوئے ہیں ۔ چند روز قبل انہوںنے سیاست کی گند کو صاف کر نے کے لئے عوام سے مالی تعاون بھی طلب کیا۔ بہر کیف تا دم تحریر شاہ فیصل کو بیانات وغیرہ عوام کے بشمول دانش ور ، قلم کار اور سیاسی تجزیہ نگار کئی زاوئیوں سے دیکھ رہے ہیں ۔سب کا اپنا اپنا نظریہ ہے۔ مجموعی طور دیکھا جائے تو بہت کم لوگ شاہ فیصل کی سیاست میں آمد کو مثبت یا خوش آئند مانتے ہیں، کثیر تعداد ایسوں کی ہے جو شاہ فیصل کے اس فیصلے کے قطعی مخالف ہیں ۔
کیا کشمیر ی عوام کو صدیوں پرانی غلامی سے چھٹکارا دلا نے کے دعوے پر لوگ یقین کر سکتے ہیں جنہیں یہ سارا چیستاں سیا سی گورکھ دھندا لگتا ہے؟ اس سوال کا مفصل جواب تاریخِ کشمیر کو کھنگالنے سے مل جاتا ہے۔ کشمیر میں کئی ایسے لیڈروں نے اپنی اپنی سیاسی دوکانیں چمکائیں جنہوں نے عوام کو صدیوں پرانی زنجیروں سے نجات دلانے کے سنہرا خواب دکھائے۔ یہ چاہے شیخ عبدللہ کی رائے شماری تحریک ہو یا مفتی سعیدکا ہیلنگ ٹچ نعرہ ، بالآخر ان کی سیاست کاری صرف سراب ثابت ہوئی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان شیخ عبدللہ نے کشمیری لوگوں کے دبے کچلے جذبات کی ترجمانی کا دعویٰ کر دیا لیکن ان کاماحصل صرف اقتدار تھا۔ شیخ صاحب کی وفات کے بعداُ ن کے فرزند ڈاکٹر فاروق عبدللہ کے ہاتھ میں حکومت آ ئی تو انہوں پوٹا قانون کو لاگو کر نے اور ٹاسک فورس بنا نے سے بچی کھچی کسر پوری کر دی۔ ان کے بعد مفتی سعید نے عوام کو جبر و زیادتی سے آزاد ی کے سبز باغ دکھانے شروع کر دیئے، مصیبت زدہ عوام کو مفتی میں اُمید کی ایک کرن نظر آنے لگی لیکن پہلے امرناتھ لینڈ تنازعہ اور پھرناگپور سے ناطہ جوڑ کر پی ڈی پی نے تخت و تاج کی قیمت پر کشمیری عوام کے مظالم اور مصائب کادرجہ ٔ حرارت اتنا بڑھایا کہ ۲۰۰۸ء ، ۲۰۱۰ء کا قتل وغارت محبوبہ مفتی کے زیر حکومت ۲۰۱۶ء کشمیر میں خون ریزی کے استعارے کے طور ماناجاتا ہے کیوں کہ اس میںا یسے سبھی سابقہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ جہاں قائدین اپنوں کے بھیس میںاغیار سے کشمیر یوں کو مروارہے ہوں ، وہاں کوئی ایک فردواحد اہل کشمیر کو اپنی اخلاص مندی کا خواب دکھائے تو لوگ یقین کریں توکیسے کریں ؟ راقم الحر وف ڈاکٹر شاہ فیصل کے بارے میں قبل ازوقت کوئی رائے نہیں دے سکتا لیکن اتنا سوال کیا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر شاہ فیصل سیاست میں کیا تیر ماریں گے ؟ سیاسی میدان میں اُترنے کے بعد جس ماحول اور جس گلے سڑے نظام کے اند اُنہیںکام کرنا ہوگا، اس میں رہ کر روایتی پسندی سے ہٹ کر کوئی انقلابی قدم اُٹھانا بغاوت قرارا پاتا ہے ۔جہاں تاریخ کی تلخ حقیقت یہ ہو کہ شیخ عبدللہ ریاست کا وزیر اعظم ہو کر بھی ۹ ؍ اگست ۵۳ء کو ایک معمولی پولیس والے کے ہاتھوں گرفتار کئے جاتے ہیں اور اَٹھارہ سالہ صدر ریاست انہیں بیک جنبش قلم’’ڈسمں‘‘ کر سکتا ہو ،وہاں شاہ فیصل کونسا کرشمہ کر سکتے ہیں ؟ حالانکہ اُس وقت کا سیاسی منظر نامہ کچھ اور تھا ،آج وزیر اعلیٰ کا ریموٹ کنٹرول براہ راست نئی دہلی والوں کے پاس ہوتاہے ۔ اور دہلی سے آپریٹ کی جانے والی کرسی پر بیٹھنے والے ہر سیاست دان کو وہی کرنا پڑ تا ہے جو سیلف رول اور اٹونامی کی راگ الاپنے والوں کو اپنی لاچاری پر واویلا کر تے ہوئے وقت وقت پر کرنا پڑا۔ عمر عبداللہ نے اپنے دور اقتدار میں دلی کی منت سماجت کی کہ face saving کے لئے ہی سہی، افسپا کو کہیں کہیں سے اُٹھاؤ مگر اُن کی آواز نقار خانے میں طوطی بنی رہی ۔
اگر ڈاکٹر شاہ فیصل واقعی میں قوم کو دلدل سے نکالنے کے لئے کمر بستہ ہیں تو اُن کے پاس خیالی پلاؤ نہیں بلکہ ایک ٹھوس ایجنڈا ہونا چاہئے جس کو عوام کے سامنے حرف حرف لایا جائے تاکہ عوام کو وہ ٹریک معلوم پڑے جس ٹریک پہ وہ چلنے جارہے ہیں۔ چونکہ جہلم سے کافی خون بہہ چکا ہے اور کشمیری عوام کچھ کچھ سیاسی سدھ بدھ آتی ہے ،اس لئے اب لوگ آنکھیں بند کر کے ـ’’الہ کرِ وانگن کرِ ‘‘ کے نعرے لگانے والے نہیں کہ کسی کی اندھی تقلید کریں۔ لہٰذا ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عمران خان اور کیجریوال کو آئیڈل ماننا ہی کافی نہیں ہوگا۔ویسے بھی عمران خان نے پورا نظام بدلنے کے تہیہ سے حکومت حاصل کی مگر ابھی تک تبدیلی کے ہدف سے کوسوں دورہیں،جب کہ کیجریوال بہت کچھ کرنے کے بعد بھی کوئی خاص بدلاؤ نہ لا سکے ۔ شاہ فیصل کے پاس ایک مثبت، کار آمد اور ٹھوس مشن کشمیر ہو نا چاہیے جو عوام کی نظر میں قابل حصول ہی نہ ہو بلکہ لائق استحسان بھی ہو ۔ورنہ سیاست میں آنے کا فیصلہ شاہ فیصل صاحب کے لئے سود مند ثابت ہوسکتا ہے نہ کہ قوم کے لئے ؎
طبیبوں کا احسان کیونکر نہ مانوں
مجھے مار ڈالا دوا کرتے کرتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون 990660752