جس گھر میں ، میں نے فون کال وصول کی، فون رکھنے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے فون پر ایسا کیا سُنا جو میں خوش دکھائی دے رہا ہوں۔ جب میں نے اُن کو بتایا کہ ہمارے گھر میں فون لگا ہے تو وہ حیران ہوگئے اور میں ان کی حیرانگی پر حیران ہوا۔ اُس دن تو وہ بات کو گول کر گئے مگر کچھ دنو ں کے بعد باتوں باتوںکے دوران وہ مجھ سے کہنے لگے کہ فون لگنا کوئی اتنی بڑی خوشی کی بات تو نہیں ۔ یہ ایک عام سی معمولی بات ہے جیسے گھر میں ٹی وی لایا،گلدان رکھ دیا، یا ایک ڈیکوریشن پیس خریدکر لایا۔ یہاں( ممبئی میں) فون ہر گھر، ہر گلی اور ہر دوکاندار کے پاس ہوتا ہے ، یہ کوئی انوکھی بات تو نہیں ہے۔ میں نے اُن کو بتایا کہ ہماری وادی میں محلے میں مشکل سے ایک آدھ فون ہوا کرتا تھا اور دوکاندار وں میں فون صرف بڑے تھوک بیوپاریوں کے ہاں ہی ہوتا تھا۔ دور و نزدیک کے دیہات میں یہ سہولت بہت کم میسر تھی۔ یہ صرف سن 1997ء کے بعد ایک انقلاب سا آگیا جس سے فون گھر گھر لگنے لگے۔
میں نے اُن کو یہ بھی بتایا کہ وادی میں سائنس کی فیض و برکات ذرا سوچ سمجھ کر ہی قدم رکھتی ہیں تب کہیں جا کر اُن کی حیرانگی دور ہوئی۔میں نے اُن کو یہ بھی بتایا کہ ضرورت کے پیش نظر میں نے فون کے لئے درخواست گذاری تھی چونکہ اُس میں باری آنے میں اور بھی سال بھر لگ سکتا تھا۔ اس لئے میں OYTاسکیم کے تحت فون حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ بات اب قصۂ پارینہ بن چکی ہے مگر ان دنوں وہ ایک فینسی(Fancy) ہوا کرتی تھی۔ اب موبائیل کا زمانہ ہے اور جوتا گانٹھنے والا معزز شخص تو ہے ہی بھکاری بھی اب موبائیل فون رکھتے ہیں۔ کیا ترقی کا زمانہ ہے، اسی لئے وادی کے لوگ غیر ریاستی کمپنیوں کو ہر دن سوا کروڑ رپیہ موبائیل بلوںکے نام پر واپس لوٹا دیتے ہیں۔
سن1970ء تک وادی کے بہت کم مسلمانوں کو باہر کی ہوا لگی تھی یعنی وہ وادی سے باہر جاکر دنیا دیکھ آئے تھے مگر سن ستھر کے بعد جب کشمیری مسلمان صنعتوں اور دیگر کاروبار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے اور اس وجہ سے اُن کا آنا جانا ملک کی دوسری ریاستوں میں رہا تو کافی سارے لوگوں کو اکسپو جر مل گیا۔ اسی دوران نامزدگی(Nomination)اور عطیے(Donation) پر کافی سارے بچوں کو دوسری ریاستوں کے تعلیمی اداروںمیں داخلہ مل گیا۔ اُن کو وادی سے باہر جانے کا موقعہ مل گیا اور اسی بہانے اُن کے رشتہ داروں کو موقعہ ہاتھ آگیا۔ فروٹ انڈسٹری ترقی کرنے لگی تو لوگوں کا دوسری جگہوں پر آنا جانا شروع ہوگیا۔ اس طرح سے کافی سارے مسلمانوں کو وادی سے باہر جانے کا موقعہ مل گیا۔ حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب بھی ساٹھ فی صد لوگ ایسے ہیں جنہوں نے جواہر ٹنل کراس نہیں کی ہے اور نہ ہی ریل دیکھی تھی ،اگر ماضی قریب میں وادی میں لوکل ٹرین کا آگھمن نہ ہوا ہوتا۔ آدمی کو ایکسپوجر ملے تو اچھی بات ہے کیونکہ وہ بہت کچھ گھر سے باہر رہ کر خصوصاً سفر میں سیکھ لیتا ہے۔ دنیا دیکھ کر آدمی کو تجربات حاصل ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ رب کائنات کی طرف سے بھی گھر سے نکل کر اُس کی کائنات ارو تخلیقات کا مشاہدہ کرنے کی تلقین ہوئی ہے ۔
قرآن کریم میں آج سے زایداز سوا چودہ سو سال قبل جب رب العزت نے فرمایا کہ تمہارے لئے سورج چاند اور تارے مسخر کئے گئے ہیں تو لوگوں نے مسخر سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہوگا کہ سورج اور چاند سے روشنی اور گرمی ملتی ہے اور ستاروں سے ہم کارواں کی منزل کا تعین کر لیتے ہیں مگر آج جب انسان چاند اور مریخ پر کمندیں ڈال چکا ہے تو معنیٰ دوسرے انداز سے ہمارے سامنے آتے ہیں اور آج سے دو تین سو سال بعد جب انسان ممکن ہے دوسرے سیاروں سے پیٹرول اور گیس کا متبادل اور بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے معدنیات درآمد کرتا ہوگا تو آیات بینات کے معنی زیاد ہ وسیع اندازمیں ظاہر ہوں گے اور پھر علیٰ ہذا لقیاس مزید چار پانچ سو سال کے بعد توشایدمزید فرمودات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ انسان نے اپنے نظام شمس میں بہت حد تک اور بہت دور تک عبور و مرور حاصل کر گیا ہوگا۔ قرآن حکیم کا ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ ہر زمانے کے لئے علم و آگہی کے بمطابق اس میں معانی پوشیدہ ہیں، کیوں نہ ہو قرآن کریم باقی تخلیقات کی طرح مخلوق تو نہیں ہے۔ یہ خالقِ کائنات کا ایسا سولو(solo) یا ساللکی(soliloquy) ہے جس میں دانش مندوں کیلئے تا دور قیامت تہہ درتہہ معانی کے ذخائر اور رموز موجود ہیں۔
ہاں تو میں ایکسپوجر کی بات کر رہا تھا، سن1962کی بات ہے مجھے امتحانی پرچہ دینے اسلامیہ ہائی سکول گوجوارہ جانا تھا۔ صبح کو میں نے نہا دھو کر بالوں میں تیل لگایا اور جب کنگھا پھیرنا چاہا تو وہ بالوں میں الجھ گیا کیونکہ بال چپکے چپکے اور ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ میں حیران رہ گیا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔ دوبارہ سردھونے کیلئے وقت دستیاب نہیں تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے کپور بک سیلرز امیراکدل کے سامنے فٹ پاتھ( موجودہ پبلک پیلس) سے آر ٹی سی کی بس چھوٹتی تھی جو نزدیک کیلئے ایک آنہ( چھ پیسے اب تو ایک روپیہ تک کا باقی سکہ ہی معدوم ہو چکا ہے) اور گوجوارہ سے نوشہرہ تک کیلئے دوآنہ( بارہ پیسے) کا کرایہ لیتی تھی اور بہت کم لوگ ان بسوں میں سفر کرتے تھے کیونکہ لوگ عموماً پیدل چلنے کے عادی تھے، اسی لئے صحت مند بھی ہوا کرتے تھے۔ دوسرا سادھن صرف ٹانگہ تھا جو مختلف سٹیشنوں سے بدلنا تھا یا اُس میں زیادہ وقت لگ سکتا تھا جب کہ نو بجے پرچہ تھا۔ اس لئے بغیر زیادہ سوچے میں نے ہاتھوں سے بالوں کو سنوارا، اوپر سے ٹوپی پہن لی اور بھاگم بھاگ بس پکڑ لی ۔
واپسی پر ہم نے منہار سے شکایت کی کہ کمال ہے صاحب یہ کیسا تیل تھمادیا۔ دیکھئے ہمارے بالوں کی کیا درگت ہوگئی ہے۔ دکاندار نے مجھے خفت سے بچانے کیلئے زیر لب تبسم کے ساتھ کہا۔’’ صاحب آپ تیل نہیں شیمپو لے گئے تھے اور شیمپو تیل نہیں صابون ہوتا ہے‘‘۔ ان دنوں شیمپو ابھی اتنا عام نہیں ہوا تھا اور بہت کم لوگ اس سے واقف تھے ۔ یقین مانیئے ناواقفوں میں ہم بھی تھے۔ اس واقعے کے تقریباً سولہ سترہ سال کے بعد میرا لڑکا بدیس سے گرمیوں کی چھٹیوںمیں گھر آیا تو مختلف چھوٹی موٹی استعمال کی چیزوں کے ساتھ ایک گلیو سٹک (Glue Stick) بھی مجھے تھما دیا۔ سردیوں کے دنوں میں ایک دن خشک سردی کی وجہ سے میرے ہونٹ پھٹ گئے تھے تو میں نے گلیو سٹک کو کھول کر ہونٹوں پر لگا دیا۔ اب میں بات کرنے کیلئے منہ کھولوں تو چچا جان کے الفاظ میں ’’بات بنائے نہ بنے‘‘ یہ درد شادیکھ کر میرا دوسرا لڑکا ایک دم معاملے کو بھانپ گیا اور مسکراتے ہوئے مگر محتاط لہجے میں کہنے لگا:۔
’’ پایا چیپ سٹک ہونٹوں پر پھیرا جاتا ہے اور گلیو سٹک لفافہ بند کرنے کے کام آتا ہے۔ شاید آپ نے …… اس نے جملہ ادھورا ہی چھوڑ دیا۔
لیجئے صاحب اب مجھے ان دنوں کیا معلوم تھا کہ گلیو سٹک گوند کی چھڑی ہوتی ہے۔ ارے ہاں! یہ تب کی بات ہے ۔،اب ہمیں ما شا اللہ کافی ایکسپوجر مل چکا ہے۔
صرف مجھے ہی نہیں بلکہ وادی بھر کے لوگوں کوبھی۔ ہم کہاں تک جاپہنچے ہیں وہ سب آپ کو معلوم ہی ہے۔ آپ کیا کہنے خود سمجھ دار ہیں۔ اب میںکیا کیا بتائوں؟ ؎
درِ میخانہ سے دیوار چمن تک پہنچے
ہم غزالوں کے تعاقب میں خشن تک پہنچے
( نازکیؔ)
رابطہ:- پوسٹ باکس :
691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995