دراصل ادیب اسی کو کہیں گے جو ادبی لوازمات کا خیال رکھ کر احساسات و خیالات،اس کے ارد گررونما ہو رہے حالات و واقعات کو خوبصورت الفاظ میں خوبصورت پیرایئے اظہار عطا کرے۔ادیب کسی بھی فکر کا حامل ہو لیکن جب اس کے پاس اپنی فکر و نظر کوعوام تک پہنچانے کے لیے انتہائی مؤثر ترین الفاظ اور اظہار کا سلیقہ ہو،اس میںمشاہدہ کی قوت ہو، ادراک و شعور ہو اور اس ادراک و شعور کو اعلیٰ زبان و بیان کی قوتوں مثلاًصنائع بدائع، فصاحت و بلاغت سے آراستہ کرنے کا ہنر ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کے فکر و نظر کی بنیاد پر اسے ادیب ماننے سے منکرہو جائیں۔
اس سے متعلق ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ کون سے ادیب کو کامیاب ادیب کہا جائے گا۔اس کو کہ جس کے فن پاروں میں شکستگی کا اظہار ،زندگی سے فرار،یاس ونومیدی ،خودی کی موت وغیرہ جیسے احساسات و خیالات ملتے ہوں یا اس کو کامیاب کہا جائے جس کی نگارشات میں عزم و حوصلہ،زندگی کے سردوگرم سے گزرنے کا ہنر ،صبر و ثبات،امید و رضا،نگاہِ بلند،سخنِ دلنواز اور جانِ پُرسوز پائی جاتی ہو۔جس کو اپنے ان احساسات و خیالات پے جن کو وہ ادب کے ذریعہ ہمارے سامنے لاتا ہے ،پورا ایقان حاصل ہواور اس کا ایقان اعتقاد کی صورت اختیار کرچکا ہو۔ بقول ڈاکٹراعجاز حسین:’’کامیاب ادیب کے لیے صرف قوت مشاہدہ ہی کافی نہیں،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قوت ایقان کی بھی سخت ضرورت ہے کیونکہ جب تک اس کے محسوسات اعتقاد کی صورت نہ اختیارکریں گے۔نہ ان میں زور پیدا ہوگا اور نہ سننے والے اسے خاطر خواہ متاثر ہوں گے۔کسی انسان کی بات اسی وقت دوسروں کے جذبات برانگیختہ کرسکتی ہے،جب اس کی بات کی بنیادایسی صداقت پر ہو جو کہنے والا خود شد ت سے محسوس کر رہا ہواور جس کے بیان کر دینے کے لیے وہ بے چین ہوگیا ہو۔‘‘(ادب اور ادیب از ڈاکٹراعجاز حسین:ص۱۱)
ا ب اس موضوع کے مرکزی نقطہ کی طرف آیئے کہ ادب،ادیب اور معاشرے کے درمیان کیا تعلق ہے اور معاشرہ ادیب اور ادب پر اور ادیب وادب معاشرے پر کیسے اثرانداز ہوتے ہیں۔ادب کا معاشرے پر اور معاشرے کا ادب پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر پڑتا ہے۔ادب انسانی معاشرے کی آنکھ ،کان ،زبان اور ذہن ہوتا ہے ۔انسانی زندگی میںبڑی گوناگونی پائی جاتی ہے ۔ہر روز ایک انسان کی زندگی میں مختلف واقعات منصہ شہود پر آتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں ہزاروں واقعات،طبقاتی امتیازات،سنگین حادثات،روزمرہ کے معمولات وغیرہ پھیلے ہوئے ہیں ۔ادیب یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہا ہوتا ہے،ان کا مشاہدہ کررہا ہوتا ہے،اور یوں ان حالات و واقعات سے اس کے ذہن پر مثبت یا منفی اثرات پڑتے ہیں اور پھر وہ ان واقعات سے مأخوذ اثرات کو زبان عطا کرکے صفحۂ قرطاس پر لاکر معاشر ے کو واپس لوٹاتا ہے اور یوں معاشرے کے لیے ایک آئینہ فراہم کرتا ہے تاکہ معاشرہ اپنے حسن و قبح کو پہچان کر اپنے حسن کو تقویت دے اور اپنے قبیح حالات کا مشاہدہ کر کے انہیں سنوارنے کی کوشش کرے، لیکن یہاں پر یہ بات بھی اہم ہے کہ ادیب کی بات حقائق سے ہم آہنگ ہونی چاہیے تاکہ معاشرہ اسے اپنے اندر جذب کرسکے۔ ایسا نہ ہو کہ واقعہ کچھ ہو اور ادیب کچھ اور بیان کررہا ہو۔ وہ واقعات کا مشاہدہ کرے ،انہیں اپنی عقل و فہم کی میزان میں تول کر صحیح نتائج اخذ کر کے اپنے معاشرے کے سامنے حقیقت کو اس کی اصل صورت میں رکھے۔ ادیب کو سچا ہونا چاہیے کہ وہ اپنے معاشرے کی سچی تصویر کی عکاسی اخلاقی حدود میں رہ کر کرسکے ۔ محض ادب برائے ادب کی ڈینگیں نہ مارے۔ادب تخلیق کرنے کے پیچھے ادیب کا کوئی متعین مقصد ہونا چاہیے اور وہ مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے زخموں پر مرہم رکھ کر ان کا مداوا کرے۔وہ ایسے ادب پارے تخلیق کرے جس سے انسان کو اپنی عظمت و رفعت اور معاشرے میں اس کی بنیادی ذمہ داری کا احساس ہو جائے۔
ادب کا تعلق ہمارے ماضی و حال سے ہے ۔ اس لیے ادیب ماضی سے تجربات حاصل کر کے حال و مستقبل کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔دنیا میں آپ جہاں کہیںبھی نظر دوڑائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ایک مثالی معاشرے کی تکمیل کے لیے ادیب و ادب کا رول نہایت اہم رہا ہے۔اسلامی تہذیب ہو یا پھر یورب کی نشاۃ ثانیہ ہو، ان میں ادب نے اپنا بھرپور کردار نبھا یا ہے۔ادب کی وجہ سے دنیا میں بڑے بڑے انقلابات رونما ہوئے ہیں۔انسانی معاشرہ آج سکون کو ترس رہا ہے،انسان ایک ایسے معاشرے کی تلاش میں ہے جہاں امن ہو ،اقدار کی پاسداری ہو،اعلیٰ اخلاق ہوں ،انسان کی بحیثیت انسان تکریم وتعظیم ہو،اس کی عزت و ناموس محفوظ رہ سکے،وہ خود کو تنہا محسوس نہ کرے۔ایسے معاشرے کی تکمیل میں ادب و ادیب کا نمایاں رول بنتا ہے۔معاشرے میں جہاں کہیں ہمیں کوئی مثبت یا منفی تبدیلی کا احساس ہوتا ہے تو اس تبدیلی کے آنے میںکہیں نہ کہیں ادب اور ادیب کا بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر ہوتا ہے،لیکن ہمارے ہاں ادیب وادب کا معاشرے سے تعلق اور ان کا اس میں کیا کردار ہے ،درست طور پرنہیں سمجھا گیا ہے۔ ہمیں اس بات سے واقف ہونا چاہیے کہ معاشرے میں ادیب کا کردار عام لوگوں کی نسبت پیچیدہ نوعیت کا ہوتا ہے۔
کارل یونگ نے لکھا ہے کہ ادیب کا کام معاشرے کی روحانی ضروریات کو پورا کرنا ہوتا ہے۔اس لئے ادیب کے لیے یہ لازمی بنتا ہے کہ وہ ایسا ادب تخلیق کرے جس میں حیات ہو،حرارت ہو،اقدار کا پاس و لحاظ ہو،اخلاقِ فاضلہ کی تعلیم ہو،معاشرے کی روحانی ضروریات کا خیال رجھا گیا ہو۔اباحت پسندی نہ ہو، جنسیت وفحاشیت نہ ہو جو معاشرے کو لے ڈوبے۔یہ ایک مبرہن حقیقت ہے کہ جو بھی معاشرہ اخلاقی دیوالیہ کا شکار ہوگیا، اس کے اخلاقی انحطاط میں اس کے ان ادیبوں کا بڑا دخل پایا جاتا ہے جنہوں نے حقیقت پسندی کی آڑ میں نہ جانے کیا کیا کچھ لکھ ( یابک دیا )دیااور آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ نام نہاد’’ حقیقت پسندی‘‘ کی آڑ میں کیا کچھ لکھا جارہا ہے۔
مختصراً ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے ادباء تلاش کیے جائیں جو انسانیت کے اس سسکتے معاشرے کے لیے تریاق ثابت ہوں اور ان کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جہاں سے ان کی آواز دور دور تک پہنچ کر انسانی ضمیروں کے دروازے پر دستک دے سکے۔بلاشبہ اس کام میںہمیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہوگا لیکن ہمیں گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ اللہ پے بھروسا کرکے اصولِ ’’ہمت مرداں،مددِ خدا‘‘پر بلا کسی خوف و جھجھک کے کھڑا ہوجانا چاہیے۔ (ختم شد)