Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

خاندانی نظام

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: February 14, 2019 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
8 Min Read
SHARE
معاشرہ اور خاندان افراد سے بنتے ہیں۔ ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھنے والے لوگ جن کا آپس میں خون کا رشتہ ہوتا ہے مثلاً ماں، باپ، بہن، بھائی، چچا، پھوپھی، دادا، دادی، ماموں، خالہ، نانا، نانی مل کر ایک خاندان تشکیل کرتے ہیں۔ پھر ان سے وابستہ اور لوگ بھی اس میں شامل ہوتے جاتے ہیں اور خاندان کے افراد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔مشترکہ خاندانی نظام مشرقی روایات کا ایک ثبوت ہے۔ اس کی مضبوطی کو روایات کی مضبوطی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔پرانے زمانے میں خاندان سے الگ رہنا ایک طرح سے گناہ سمجھا جاتا تھا اور الگ رہنے والے یا علیحدگی کا مطالبہ کرنے والے کو ایک طرح سے مجرم۔ اس بات کا کوئی تصوّر نہیں تھا کہ الگ رہ کر بھی انسان اپنے رشتے داروں سے اچھے تعلقات رکھ سکتا ہے۔ علیحدگی کا مطلب تعلقات ختم کرنا تھا۔ جیسے جیسے معاشرے نے ترقی کی لوگوں کے خیالات اور سوچ تبدیل ہوئی لوگوں نے علیحدہ رہنے کو جائز اور وقت کی ضرورت سمجھ کر قبول کر لیا۔ اب یہ تصوّر ختم ہو گیا ہے کہ چاہے جئیں یا مریں رہیں گے ساتھ ہی۔جب والدین اپنی اولاد کو دن رات ایک کر کے پالتے ہیں تو ان کے جوان اور والدین کے بوڑھے ہونے کے بعد ان کی اپنی اولاد سے بہت سی اُمیدیں وابستہ ہو جاتی ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ جیسے انہوں نے اپنے بچّوں کو محبت سے پالا ہے، اسی طرح بڑھاپے میں وہ بھی ان کو محبت اور توجّہ دیں گے۔ اگر ان کی اولاد خاص طور پر بیٹے ان کے ساتھ رہتے ہیں کیونکہ بیٹیاں تو بیاہ کر اپنے گھر چلی جاتی ہیں، تو ان کی زندگی آسودہ رہتی ہے اور بڑھاپا سہل ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ بڑھاپے میں والدین چڑچڑے اور غصیلے ہو جاتے ہیں اور ان کا رویہ بالکل بچوں جیسا ہو جاتا ہے مگر اس کے متعلق اسلام میں تاکید کی گئی ہے کہ انہیں ُْف تک نہ کہا جائے۔ ان کے ساتھ محبت اور برداشت کا مظاہرہ کیا جائے۔ آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ صبر اور برداشت کی ہر شخص میں کمی ہو گئی ہے۔اب نہ ہی والدین اپنی اولاد کے ساتھ اس طرح پیش آتے ہیں جیسے پہلے کے والدین پیش آتے تھے اور نہ ہی اولاد اپنے والدین کی باتوں کو اس طرح برداشت کرتی ہے جیسے پہلے زمانے میں کیا جاتا تھا۔ آج کے دور میں بچّے بہت ہی چھوٹی عمر سے اپنی مرضی کی زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنی ذاتی زندگی میں اپنے والدین تک کی مداخلت برداشت نہیں کرتے ،نہ کہ خاندان کے کسی اور فرد کی۔ اس صورت حال میں مشترکہ خاندانی نظام ناکامی کا شکار نظر آتا ہے۔بے شمار والدین بڑھاپے میں اپنی اولاد کی دوری برداشت کرتے ہوئے نوکروں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب کچھ گھرانوں کے علاوہ یہ تصوّر ختم ہو کر رہ گیا ہے کہ گھر میں بزرگ موجود ہوں اور ان کے بچّے ان کی خدمت کریں۔
یہ طے ہے کہ جو بچّے مشترکہ خاندانی نظام میں پل کر جوان ہوتے ہیں ان کی طبیعت میں ٹہراؤ، صبر، برداشت اور ہر قسم کی صورتحال کا سامنا کرنے کی صلاحیت علیحدہ رہنے والے بچّوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا بچپن اس قسم کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے یا مشاہدہ کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ خا ص طور پر لڑکیاں۔ آگے چل کر جب ان کی شادی ہوتی ہے تو انھیں سسرال میں رہنے والے مختلف مزاج کے لوگوں کے ساتھ گزارا کرنے میں اتنی مشکل نہیں پیش آتی جتنی علیحدہ رہ کر جوان ہونے والی بچّیوں کو ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ اس کی عادی نہیں ہوتیں۔ بہر حال اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے اور پلنے والی لڑکیاں ہی اچھی بہو ئیں ثابت ہوتی ہیں۔ اچھا یا برا انسان اپنے اور دوسروں کے رویّوں اور اعمال کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ شخصیت سازی میں بچپن کا دور، حالات اور واقعات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
جہاں تک بات ہے کہ کون سا نظام بہتر ہے؟ میری ذاتی رائے کے مطابق ہر چیز کی طرح ان دونوں کے بھی منفی اور مثبت دونوں پہلو ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام اس لحاظ سے اچھا ہے کہ اس میں کسی ایک فرد پر ہر طرح کا بوجھ نہیں پڑتا۔ کاموں کا بٹوارہ ہو جاتا ہے اور مالی مسائل بھی کم ہوتے ہیں۔ بچّوں کو بزرگوں کی صحبت ملتی ہے جس کی بدولت وہ ان کے تجربات سے استفادہ کرتے ہیں اور بزرگوں کو بھی اپنے بچوں اور بچوں کے بچوں سے دوری برداشت نہیں کرنی پڑتی۔ ان کی دیکھ بھال بھی بہتر طور پر ہو جاتی ہے۔ دکھ سکھ میں تمام لوگ آپ کا ساتھ دیتے ہیں آپ کو اکیلے تمام مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
نقصان یہ ہے کہ آپ کی ذاتی زندگی محدود ہو جاتی ہے۔ آپ کا ہر معاملہ سب کا معاملہ ہوتا ہے۔ بعض دفعہ کچھ لوگ بے جا مداخلت بھی کرتے ہیں جس سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں۔ درمیان میں فاصلے اور دلوں میں کدورتیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ آپ اپنی اولاد کے بارے میں کوئی فیصلہ اکیلے نہیں کر سکتے سارے لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اپنی اچھی یا بری رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ کوئی بات چھپی ہوئی نہیں رہتی۔ ہر بات ہر کسی کو پتا ہوتی ہے چاہے وہ اچھی ہو یا بری۔ پردہ دار خواتین کے لیے بہت مشکل ہوتی ہے۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے پردے کا اہتمام کرنا مشکل ہوتا ہے۔
اسی طرح علیحدہ رہنے کے بھی منفی اور مثبت دونوں پہلو ہیں۔ علیحدہ رہنے سے آپ کو خاندان کے ہر فرد کی ہر اچھی بری بات کا اندازہ نہیں ہو پاتا اسطرح بعض باتیں چھپی رہتی ہیں جس میں کبھی کبھی بہتری پوشیدہ ہوتی ہے۔ آپ اپنے بچّوں کی تربیت اپنی مرضی سے کر سکتے ہیں۔ بچّوں کو اپنی مرضی کے مطابق منظم کر سکتے ہیں۔ غلط بات پر ٹوکنے پر دوسرا کوئی ان کی طرف داری نہیں کرتا جس سے ان میں اچھے اور برے کی تمیزپیدا ہوتی ہے۔ غرض یہ کہ آپ اور آپ کے بچّے اپنی مرضی کے مطابق بغیر کسی کی مداخلت کے زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ چاہے آپ مشترکہ خاندانی نظام میں رہیں یا علیحدہ، اپنے دلوں کو اپنے خاندان کے افراد کی طرف سے صاف رکھیں۔ اچھی باتوں کو ہمیشہ یاد رکھیں اور بری باتوں کو کچھ بھی کر کے جلد از جلد بھول جائیں۔ خود بھی خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کر یں ۔

 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

۔ ₹ 2.39کروڑ ملازمت گھوٹالے میںجائیداد قرق | وصول شدہ ₹ 75لاکھ روپے 17متاثرین میں تقسیم
جموں
’درخت بچاؤ، پانی بچاؤ‘مشن پر نیپال کا سائیکلسٹ امرناتھ یاترا میں شامل ہونے کی اجازت نہ مل سکی ،اگلے سال شامل ہونے کا عزم
خطہ چناب
یاترا قافلے میں شامل کار حادثے کا شکار، ڈرائیور سمیت 5افراد زخمی
خطہ چناب
قومی شاہراہ پر امرناتھ یاترا اور دیگر ٹریفک بلا خلل جاری
خطہ چناب

Related

گوشہ خواتین

دلہنیںایک جیسی دِکھتی ہیں کیوں؟ دورِ جدید

July 10, 2025
گوشہ خواتین

نکاح اور منگنی کے بدلتے رنگ ڈھنگ رفتارِ زمانہ

July 10, 2025
گوشہ خواتین

اچھی بیوی! | گھر کے تحفظ اور وقار کا ذریعہ دہلیز

July 10, 2025
گوشہ خواتین

بہو کی سوچ اور سسرال کا کردار؟ گھر گرہستی

July 10, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?