لیتہ پورہ فدائین حملے کے بعد جس طرح سے ریاست بھر میں صورتحال تبدیل ہوئی وہ انتہائی تشویشناک ہے ۔اس تباہ کن حملے پر رد عمل سامنے آنا فطری عملہے لیکن صورتحال کے تئیں انتظامیہ و پولیس کی غفلت سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوائیوں نے جموں میں چن چن کر مخصوص طبقہ کی گاڑیوں اور املاک کو نقصان پہنچایا اور مسلسل چا ر گھنٹوں تک لاقانونیت کا ننگا ناچ برپا کر دیا، جس سے نہ صرف ریاست کے اندر تاریخی اور روایتی فرقہ وارانہ بھائی چارےکو شدید نقصان پہنچا نے کی کوشش کرکے امن و قانون کا مسئلہ کھڑ اکر دیا گیا،بلکہ اسی طرح سے ملک بھر میں بھی کشمیری طلباء اور تاجروں کو نشانہ بنانے کی جو مہم شروع کر دی گئی، وہ انتہائی خطرناک عواقب کی حامل ہے۔واضح رہے کہ جمعرات کو پیش آئے پلوامہ واقعہ کےخلاف جموں چیمبر آف کامرس اور بار ایسو سی ایشن جموں کی طرف سے جمعہ کے روز جموں بند کی کال دی گئی تھی ،جس دوران جموں و گردو نواح کے ساتھ ساتھ خطہ چناب اور خطہ پیر پنچال میں بھی جزوی طور پر بند رہا اورمتعدد مسلم اکثریتی علاقوں میںبھی اس کال کی حمایت کی گئی تاہم اس کے باوجود ایک منصوبہ بند طریقہ کے تحت جموں کے گوجر نگر، پریم نگر، جوگی گیٹ ، وزارت روڈ ، شہیدی چوک ، گمٹ ، بس اسٹینڈ،نروال ،جانی پور و دیگر مقامات پر ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بناتے ہوئے لگ بھگ 90گاڑیوں کو نقصان پہنچایاگیاجن میں سے 40کے قریب گاڑیاں مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہیں جبکہ مکانات، ہوٹلوں اور دیگر املاک پر بھی شدید پتھرائو کرکے انہیںنقصان پہنچایاگیا۔پرامن بند کو جس طرح سے ہجوم کی طرف سے بغیر کسی جوازیت کے یکایک پرتشدد مہم میں تبدیل کیاگیا اور پولیس کی طرف سے مسلسل چھ گھنٹوں تک بلوائیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ انکے خاموش تماشائی بنے رہنے سے بلوائیوں کے حوصلے بلند ہوئے تو شاید غلط نہ ہوگا ۔ اس دانستہ لاعملی پر طرح طرح کے سوالات کھڑے ہوتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ سنجیدہ فکر حلقوں میںانتظامیہ اور پولیس کی نیت کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھاجانے لگا ہے۔انتظامیہ اور پولیس کی طرف اتنے بڑے پیمانے پر تباہی مچجانے کے بعد بھی اس قدر لاپرواہی کا مظاہرہ کیاگیا کہ کرفیو لگانے کے احکامات جاری کرتے کرتے دن کے ڈھائی بجادیئے گئے اور پھر کرفیو کے بعد بھی بلوائیوں کی کارروائیاں بغیر کسی خوف و خطر کے تب تک جاری رہیں جب تک کہ فوج نے فلیگ مارچ نہ کیا ۔یہی وجہ ہے کہ جموں چیمبر نے بھی انتظامیہ کو اس کی ناکامی کیلئے مورد الزام ٹھہرایا اور ان واقعات کو جموں کیلئے شرمندگی کا باعث قرار دیا۔اگر جموں کے باشعور حلقے مداخلت نہیں کرتے تو اس بات کاشدید خطرہ لاحق ہوگیاتھاکہ گوجر نگر اور تالاب کھٹیکاں میں فرقہ وارانہ کشیدگی سنگین رخ اختیار کرلیتی ،جو ایک بدترین سانحہ سے کم نہ ہوتاتاہم مقامی ہندو اور مسلمان طبقوں کے وہ سبھی افراد قابل ستائش ہیں جنہوں نے اس نازک صورتحال کو بھانپتے ہوئے تصادم پر آمادہ دونوں گروہوں کے بیچ انسانی دیوار کھڑی کردی اور اس طرح سے ایک بہت بڑا سانحہ ہوتے ہوتے ٹل گیا ۔ اس پوری صورتحال کے دوران اگر پولیس کے کردار پر بات کی جائے تو یہ سب نے دیکھاکہ پولیس کے سامنے بلوائی گاڑیوں کو نذر آتش کرتے رہے ،دوکانوں کی تھوڑ پھوڑ کرتے رہے اور گھروں پر پتھر برساتے رہے، مگر انکے خلاف موقع پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی اور نہ انہیں روکنے کی کوشش کی گئی۔ کیا یہ امن و قانون کے اس کلیدی ادارے کی بے بسی تھی یا پھر کچھ اور؟۔ اس بات کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جموں خطہ خاص کر جموں شہر میں سیاسی غلبے کی دعویدار کچھ سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس ظلم و تشدد کےخلاف جس عنوان سے مکمل خاموشی اختیار کی گئی اور ان کی طرف سے انتظامیہ کو متحرک ہونے پر آمادہ نہ کرنایہ ظاہر کرتاہے کہ اس صورتحال سے کہیں نہ کہیں ان کے مفادات کی تکمیل ہورہی ہے۔ فرقہ ورانہ بھائی چارے کی آماجگاہ کہلائےجانے والے جموں میںفی الوقت اقلیتی طبقے خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہے اور ریاست کے متعدد خطوں سے تعلق رکھنے والے اور مقامی لوگ محفوظ جگہوں پر پناہ لینے پرمجبور ہوئے ہیں جبکہ سیول سیکریٹریٹ کے ملازمین نے بھی سیکورٹی فراہم نہ ہونے پر واپس چلے جانے کا انتباہ دیاہے ۔جو ہونا تھا وہ ہوگیالیکن اب زخموں پر مرہم لگانے کا وقت ہے اور اس بات کو یقینی بنایاجاناچاہئے کہ آئندہ اس طرح کے واقعات رونما نہ ہونے پائیں اور املاک و گاڑیوں کی تباہی پر متاثرین کو انصاف فراہم کرتے ہوئے نہ صرف ملوثین کیخلاف کڑی کارروائی کی جانی چاہئے بلکہ انتظامیہ سے وابستہ اُن عناصر کےخلاف بھی سروس رولز کے تحت کاروائی ہونی چاہئے، جو تنخواہیں تو سرکاری خزانے سے لیتے ہیں لیکن بلواسطہ طور پر بلوائیوں کے معاون و مددگار ثابت ہوئے ہیں۔