ہم نے تو سنا تھا سر منڈھاتے ہی اولے پڑے مگرڈوگر دیش میںسر منڈھانا تو دور کی بات سر دھونے کی جگہ نہیں تھی کیونکہ ہوٹل والا رات بھر میں ہی کرایہ دوگنا کر گیا تھا۔ اسے معلوم پڑا تھا کہ ملک کشمیر اور بھارت ورش کے درمیان اٹُوٹ انگوں کو جوڑنے والی سرنگ بند ہے۔اٹُوٹ کا رشتہ جگہ جگہ ٹوٹ کر جو آگرا تو چلنے پھرنے پر پابندی ایسی کہ باپ پسی کے اس پار بیٹا اس پار، شوہر چٹان کی آڑ میں بیوی دراز قد پیڑکی چھائوں میں ۔واویلا اس قدر کہ جان بچی لاکھوں پائے۔ پورا راستہ ہی جگہ جگہ اکھڑ گیا ہے پھر بے چارہ اَبِھن اَنگ کا اتیا چار سہنے والا کشمیری جائے تو جائے کہاں؟ادھر وردی پوش کہ رُکنے کی اجازت نہیں دیتے ادھر گرتے پتھر کہ ٹکنے کی اجازت نہیں۔ وہی ہوا کہ نہ بھاگنے کا راستہ نہ پائوں ٹھہرانے کا ۔مطلب نہ جائے ماندن نہ جائے رفتن۔اسی لئے تو پانی پانی ہوئی تھی پتیلے میں جو دال ، وہ بھی کباب رستہ کے بھائو بکنے لگی اور جب چائے ریچارج پچاس روپے تک پہنچا تو اہل کشمیر کو آٹے دال کا بھائو ہی نہ معلوم ہوا کہ وہ ان دوکانوں کی طرف قدم بھی نہ بڑھا سکے ۔ بھائو کیا پوچھتے ،دوکانداروں کی مونچھوں پر تائو ہی دور بھگانے کے لئے کافی تھا ۔ ایسے میںجن کی جیبیں خالی ہوگئی تھیں وہ تو احتجاج کرنے پر مجبور ہو ہی گئے لیکن سر منڈھاتے جو اولے گرتے ہیں ادھر تو سر اٹھاتے ہی پتھر گرنے لگے۔دیش دروہ کا الزام پرانا ہے، لگ گیا تو چپک گیا۔وردی پوش نے سنگ بازوں کی پشت پناہی پر آکر بھوکے پیاسے درماندگان پر ہی پرچہ کاٹا ۔کہاں اپنے یہاں سنگ بازوں کو آتنکی مانتے ہیں پھر پیلٹ نام کی گن چلتی ہے ، بینائی چھنتی ہے اور کہاں ادھر پولیس کی حفاظت ملتی ہے ،یعنی ٹنل تو ایک ہی ہے ۔لیکن ایک سرے پر ڈنڈے برستے ہیں اور دوسرے سرے روشنی ہی روشنی ہے ۔معاملہ جامبو لوچن کی سر زمین کا ہی نہیں جہاں کبھی شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ پانی پیتے تھے ،اپنے ملک کشمیر کا بھی ایسا ہی ہے۔ادھر چائے کا کپ ۵۰ کو چھو گیا، ادھر ساگ ۸۰ پار کر گیا ۔میٹ مرغ تو اس قدر گرم ہو گئے کہ نام لو تو زبان جلا دیں ۔جسے ۱۰۰ میں لیتے تھے، وہ ۷۰ ڈگری اوپر چڑھ بیٹھااور جو ۴۲۵ میں بکتا تھا ،اس کا درجہ حرارت ۵۵۰ چھو گیا ۔پھر مرغوں نے ککڑوں کوں کر کے مذاق اُڑا یا، خوب طنز کیا کہ اب ہماری قدر جانو قیمت مانو ،یعنی بھلے موسمی درجہ حرارت نقطٔ انجما د سے نیچے آکر کانگڑی کے کوئلے کو گرما گرم کرنے لگا ،وہاں اشیائے خوردنی کا درجہ حرارت اس قدر بڑھ گیا کہ لینے والا تیز تیز بھاگ کر اپنے آپ کو گرم کرنے لگا۔اور اپنے ڈل اورولر کا اسٹین گن جیسا ندرو بھی کہاں خاموش بیٹھتا، اس کا درجہ حرارت بھی اتنا بڑھ گیا کہ ہاتھ لگائو تو جل جائے گا۔ اپنے اہل کشمیر دوکان کی تھڑوں پر تبصرہ کرتے رہے کہ بھائی یہ ساگ اور اس کا کمال !ٹنل کے اس پار ہوتے بھی ایسا چھپا بیٹھا جیسے پٹرول پمپ سے تیل، جیسے دوکان سے اشیائے ضروریہ، جیسے کمپاؤڈر سے ادویات، جیسے ہوائی جہاز سے ٹکٹ، جیسے سورج سے دھوپ ، جیسے دل سے جذبات ، جیسے عقل سے احساسات اور پھر اگر کچھ وافر ہوا تو زبان سے مغلظات!!
مرغیاں کوفتے مچھلی سب نایاب
کیسے دیکھے گا کوئی سہانے خواب
میٹ چکن کے بل پر جئے اہل کشمیر
اس کے بغیر ہے یہاں زندگی سراب
سنا ہے اس بیچ وائسرائے کشمیر نے ہفتہ دس دن گزرنے کے بعد اہل ِکشمیر کا دُکھ جھیلا کہ اٹُوٹ انگ کے تار جب کمزور پڑ گئے تو ملک کشمیر میں دوائی، سبزی، اشیائے خوردن کی کمی ہے اوراگر کچھ ہے بھی تو بہت مہنگا ئی کے جن کو کھلی چھوٹ ہے ۔اس بیچ جو افسران کو ہدایت دی تو وہ فلائنگ اسکارڈ ترتیب دئے۔ اپنے افسران اور اہل کار جوتے پہن کر، تسمے باندھ کر میدان عمل میں آئے کہ باقی وقت انہیں نیند کی گولیاں کافی مقدار میں دی جاتی ہیں تاکہ پولر بیر کی مانند سوئے رہیں۔فلائنگ اسکارڈ چونکہ فلائی کرتا ہے ،اس لئے قیمتیں دیکھ پرکھ کر بھاگ نہیں جاتا ہے بلکہ اُڑ جاتا ہے کہ یہ اڑنے والا اسکارڈ ہوتا ہے ۔صاف موسم میں یہ اُڑتا اسکارڈ اچھی طرح اُڑان بھرتا ہے ، پھر کہیں نظر نہیں آتا کیونکہ یو ں غائب ہوتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ اور پھر جب تک نیا طوفان کھڑا نہیں ہوتا ،اپنے اسکارڈ بھی دفتروں کے کونوں کھدروں میں ایسے چپ چاپ بیٹھ جاتے ہیں کہ کسی کو ناپ تول محکمہ کا ایڈریس نہیں ملتا ۔ مانو نہ مانو انہیں اپنی پولیس کا ٹاس فورس بھی ڈھونڈ نہیں پاتا۔ان کو جگانے کے لئے کوئی طوفان درکار ہوتا ہے اور انہیں کمروں سے باہر لانے میں کم سے کم ایک عدد گورنر کی ضرورت پڑتی ہے۔
اپنے ملک کشمیر میں خبر گرم ہے کہ این سی، پی ڈی پی لوگ سرکاری بنگلے ، کوٹھیاں، رہائشی مکانات قبضے میں رکھتے ہیں لیکن کرایہ ادا نہیں کرتے ۔ہمیں تو ایسی خبر دینے والوں کی عقل پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے ۔بھائی یہ دونوں بلکہ باقی سیاست کار بھی تو اقتدار کی کرسی پر کبھی بیٹھے تھے اور اپنے یہاں تو صاحبانِ اختیار کو سات خون معاف ہیں کیونکہ ان کے پاس وردی ہے ، پی ایس اے ہے ، اَفسپا ہے پھر بھلا صاحبان اقتدار کو جانے کیا کیا معاف ہوگا؟؟؟ان کا فون بل معاف، انکم ٹیکس معاف ، گاڑی کا کرایہ معاف یعنی اتنا کچھ معاف ۔لگتا ہے کہ بے چارے گھر گھر دردر سوولی بن کر یہ چیزیں لیتے ہیں جبھی تو معاف ہی معاف ہیں۔اب بے چاروں کی کرسیاں گئیںاور جوس کی کرسی گئی ، اس کی ساتھ میں عقل بھی جاتی ہے، صحت بھی جاتی ہے، چہرے کی چمک جاتی ہے ، ٹانگوں کی طاقت جاتی ہے ، دل کی دھڑکن سست ہوتی ہے ، بلڈ پریشر کم ہوتا ہے ۔ا ن مر یضانہ حالات میں کرایہ ادا کرنے کی مانگ تو پکا ظلم ہے ۔بھائی جن کے پاس کرسی نہیں ، تنخواہ نہیں، بنک بیلنس نہیں ، بھلا کرایہ دیں تو کس بٹوے سے؟ کس کی جیب سے، کسے لوٹ کر؟
اپنے بے قلمدان والی ٔبانوئے کشمیر کو کبھی چاہنے والے بھاجی پکارتے تھے ۔ پھر یہ شریر بچے ٹافی آنٹی کہنے لگے کیونکہ دودھ ٹافی والے بچے اس کی نظر میں تھے کہ یہ جو ہم سے اجازت ہی نہیں پیسہ لے کر بازار جانے والے تھے، بھلا دائیںبائیں کیوں چلے گئے ۔اور پھرواپس یا تو لوٹے ہی نہیں یا بینائی کھو بیٹھے اور گھر کا راستہ دکھائی نہیں دیا۔ راستہ ٹٹول کر چلے تو وردی پوشوں نے ہل والوں کے گفٹ پیک مطلب پی ایس اے کے ساتھ جوڑ کر کورٹ بلوال یا کھٹوعہ پہنچایا، مگر وہ تو کرسی والے ٹائم کا معاملہ تھا اور کرسی تو پیسہ ہے طاقت ہے جو سکھاتی ہے ، نئی راہیں دکھاتی ہے اور چہرہ چمکاتی ہے ۔ اب تو کرسی ہی نہیں رہی،پھر خیالات کے بخارات اُبھرتے ہیں ۔من میں نئے سوالات جنم لیتے ہیں کہ بے کار مباش کچھ کیا کر۔کچھ نہیں تو کمزوروں کی فکر کر۔یا پھر مخالفین کے سر ہی تڑوا کر۔اب تو حال ایسا ہے کہ پارٹی کے بھی ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی ادھر گرا کوئی ادھر گرا ۔اس لئے سنا ہے لگے ہاتھوں مسلمانان ِہند یاد آئے کہ بے چارے محفوظ نہیں ،یعنی جب ہم کہتے تھے تو الزام لگتا تھا کہ تم سیکولر نہیں ۔ہو نہ ہو مسلمانان ہند کو پارٹی کے ہزار ٹکڑے جوڑنے کے کام لانے کا منصوبہ ہو ۔یہ اہل سیاست کس مٹی کے مادھو بنے ہوتے ہیں ؟اپنے مادھو کو قائم رکھنے کے لئے کس وقت کس فیوی کال کی ضرورت پڑے ،کوئی ان سے سے سیکھے۔ اب تو یہ بات بھی سمجھنے لگی ہے کہ ملک ِکشمیر میں مذہبی تعصب کی بنیادوں پر اہل اسلام کو ہول سیل میں بے چارہ آوارہ بادل بنایا جا رہا ہے۔یہ ہوئی نا بات قطبین کا ملاپ کرنے اس لئے دوڑے تھے کہ مسلم برادری کو کنول کے گفٹ سے لفٹ کرایا جائے ۔اب اس دوران کنول برادری اور زیادہ لفٹ ہو گئی ،اس میں بھلا قلمدان والوں کا کیا دوش؟ اتنا ہی نہیں قلمدان والے ایم پی کو مرحومین کا جسد خاکی بھی یاد آیا اور فوراً دلی دربار کو پریم پتر بھیجا کہ ہم مرحومین کو یاد کرتے ہیں، ان کی یاد میں آنسو بہاتے ہیں ،انہیں یاد کرکے اپنے قلمدان سے پریس نوٹ تحریر کرتے ہیں ،انہیں عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں کیونکہ تہاڑجیل کے احاطے میں ان کی باقیات زیب نہیں دیتی۔دلی دربار کا فیصلہ تو ہم سب کو معلوم ہے کہ ۱۹۸۴ء اور ۲۰۰۹ء سے برابر مطالبہ ٹھکراتے رہے ہیں ۔اب اہل قلمدان کوئی بندہ سیدھا سادھا نہیں کہ ناگپوری سیاست سمجھ نہ آئے مگر اہل کشمیر کو چونکہ سب لوگ اللہ میاں کی گائے سمجھ کر ٹرخاتے ہیں۔ ایم پی نے سوچا چلو ہم بھی اپنا دائو کھیلتے ہیں، کیا پتہ تُرپ کا ایکا لگ ہی جائے اور پارٹی کی پھسلتی دوات کہیں رُک جائے تو ہم مفتیان ِبیج بہاڑہ کے ہاتھوں نیا فتویٰ لکھنے کے قابل ہوں۔جانے انجانے کہیں قلم دان کی بات چلے گی ؎
اس کے بغیر لیڈری اپنی تھی نا تمام
مسلم سماج کے لئے چیخنا پڑا ہمیں
ادھر اپنے سیاسی مکے بازوں کو نیا بائوٹ کھیلنے کا موقع میسر ہوا کہ وائسرائے کشمیر نے نیا آرڈر نکالا اور صوبہ کشمیر پر تلوار چلا کر اس کے دو حصے کر دئے۔اس حصہ بٹائی میں بقول اہل کشمیر کالا بیل حصے میں ، چتکبرا بزرگی کے لحاظ میں اور سرخ والے پر اگر سر پٹھول بھی ہو، اسے نہیں جانے دیں گے۔اس کہاوت کے مطابق سارے بیل لیہہ کو سونپے گئے ۔بے چارے کرگل والوں کے منہ میں انصاف کرنے کا وعدہ والی اس قدر مٹھائی ٹھونس دی کہ شوگر بیماری کا خطرہ اُمنڈ آیا ۔اپنے حصے کے حق میں کرگل والے احتجاج پر اُتر آئے اور ادھر ہل والے اور اہل قلمدان میدان میں کودے کہ’’ کرگل والو آگے بڑھو ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘۔اتنا ہی نہیں پیر پنچال اور چناب والے بھی اپنا حق ڈھونڈنے جو نکل پڑے تو اہل سیاست آگے آگے نمودار ہوئے۔ہم تو کھکھلا اٹھے کہ بھائی لوگو! جب ان کی اس قدر فکر لا حق تھی تب کیوں نہیں دیا جب اقتدار کی سون پری ہاتھ میں تھی مگر سیاست کے ڈھول جب بجتے ہوں ،اس شور میں ہماری کیا بساط؟
بس جان گیا میں یہی پہچان تیری ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
ہم کبھی کبھار سوچتے ہیں کہ یہ موبائل اَنٹرنیٹ ضرور کوئی من چلا یا دل جلا سرکاری ملازم ہو گا جبھی تو اس کو آئے دن معطل کیا جاتا ہے ۔دفتر وقت پر نہیں پہنچتا ہوگا تو افسر نے حاضری رجسٹر منگوائی ،غیر حاضر ہونے کا نشان لگایا اور معطلی کے احکامات صادر کر دئے۔کبھی تو ضلعی کمشنر بھی ریڈیو ٹی وی پر اپنا نام سنانے کے لئے دفتر جاکر غیر حاضرین کو معطل کر دیتے ہیں ۔اب تو ہم نے یہ بے سُرا نغمہ اتنی بار سنا کہ موبائل انٹر نٹ فلاں علاقے یا ضلع میں معطل کیا گیا کہ یقین ہوتا ہے کہ یہ ہر جگہ کام چور ملازم ہی ہے جبھی تو آئے دن اس کو معطل کیا جاتا ہے۔
……………………
رابط ([email protected]/9419009169)