کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نئی دلی جان بوجھ کر ریاست جموں کشمیر میں تنارعات کو جنم دینا چاہتی ہے اور ایسا کرنے کے لئے کبھی وہ یہاں کی منتخب حکومتوں کو استعمال کرتی ہے تو کبھی گورنر کو۔ 2008 میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کے ہاتھوں امر ناتھ زمین کا تنازعہ کھڑا کروایا گیا۔ کئی مہینوں تک وادی کشمیر اور جموں میں حالات انتہائی کشیدہ رہے۔ وادی میں کئی لوگوں کی جانیں گئیں اور وادی اور جموں کے بیچ ایک ایسی دراڑ پیدا کی گئی جو شاید ہی کبھی بھر پائے گی۔
یہ سچ ہے کہ جموں اور وادیٔ کشمیر کے مابین کبھی مثالی تعلقات نہیں رہے ہیں اور اس کی وجوہات بھی کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ کشمیریوں نے جموں کے ڈوگرہ مہاراجہ کے خلاف آزادی کی جنگ لڑی۔ ہندوستان کے آزاد ہوتے ہی مہاراجہ کو 1947 میں کشمیر چھوڑنا پڑا اور یوں جمہوری نظام کے آتے ہی اقتدار جموں سے سرینگر منتقل ہوگیا۔ جموں کی ہندو آبادی نے کشمیری اقتدار کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا اور کشمیریوں نے بھی جموں والوں کو کبھی کھُل کے گلے نہیں لگایا کیونکہ وہ اُن کو اپنے سے زیادہ دلی کے قریب تصور کرتے رہے۔ لیکن تعلقات میں وہ تلخی کبھی نہیں تھی جو امر ناتھ زمین تنازعہ کے بعد دیکھنے میں آرہی ہے۔
امر ناتھ زمینی تنازعے نے دونوں صوبوں کے مابین ایسی بد گمانیاں پیدا کردیں کہ آج کشمیر میں جو بھی آواز اُٹھے، بھلے وہ کتنی جائز اور ریاست کے حق میں ہو، جموں میں اس کا توڑ ہونا لازمی ہے۔ ہندوستانی آئین کی دفعہ 35 A کو ہی لے لیجئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں35 A کا اطلاق مہاراجہ ہری سنگھ کے وقت ہوا تھا ۔ اُنہوں نے ایسا جموں کے سادہ لوح اور غریب ڈوگروں کو پنجابیوں کے استحصال سے بچانے کے لئے کیا تھا اور ہندوستان کے ساتھ الحاق کے بعد اس مد کو ہندوستانی آئین میں شامل کیا گیا۔ لیکن آج صورتحال دیکھئے کہاں جا پہنچی ہے۔ کشمیر میں 35 A کے حق میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں اور جموں میں اسے ہٹانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب جموں میں دفعہ 370 کو ہٹانے کی خاطر زور دار آوازیں اُٹھائی جارہی ہیں۔ اور یوں نئی دلی کو یہ جواز فراہم کیا جارہا ہے کہ ریاست کے پشتینی بندے ہی دفعہ 370 کے خلاف ہیں۔
جموں اور کشمیر کے بیچ بد اعتمادی اور تنائو کا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے اور اب لیہہ اور کرگل اضلاع کے مابین بھی ایسا ہی کچھ کیا جا رہا ہے۔ کچھ دن قبل گورنر انتظامیہ نے ایک ایس آر او اجراء کرکے لداخ کو ریاست جموں و کشمیر کے تیسرے صوبے کا درجہ دے دیا اور اعلان کر دیا کہ نئے صوبے کا ہیڈ کواٹر لیہہ میں ہوگا جہاں ڈویژنل کمشنر اور آئی جی پی کے دفاتر ہوں گے۔ حکمنامے کے اجراء ہوتے ہی کرگل میں کہرام مچ گیا۔ کرگل ضلع کے لوگ ٹھٹھرتی سردی میں سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے ساتھ ہورہی زیادتیوں کے خلاف آواز بلند کرنے لگے۔ کرگل کے لوگ لداخ کو صو بائی درجہ دینے کے خلاف نہیں۔ اُن کا تو بہت ہی منصفانہ مطالبہ ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ صوبائی دفاتر مستقل طورایک ہی جگہ نہ رکھے جائیں بلکہ ریاستی دربار مو کی طرز پر سردیوں میں یہ دفاتر لیہہ میں رہیں اور گرمیوں میںکرگل میں۔ کرگل کے لوگ اصرار کر رہے ہیں کہ لداخ صرف لیہہ نہیں بلکہ کرگل بھی ہے لیکن جب بھی لداخ کی ترقی اور خوشحالی کی بات ہوتی ہے تو لیہہ کو کرگل پر فوقیت دی جاتی ہے۔یہ منتخب سرکاریں بھی کرتی رہی ہیں اور گورنر بھی۔
لیہہ کی آبادی1.47 لاکھ ہے اور کرگل کی1.43 لاکھ (مردم شماری2011)۔ آبادی میں کوئی خاص تفاوت نہیں جس کے بل پر لیہہ کو کرگل پر ترجیح دی جائے۔ لیہہ ضلع میں دو اسمبلی نشستیں ہیں، نوبرہ اور لیہہ جبکہ کرگل ضلع میں بھی دو اسمبلی نشستیں ہیں، زانسکار اور کرگل۔ یہاں بھی کوئی تفاوت نہیں جو لیہہ کو ترجیح دینے کا تقاضاکرتی ہو۔ پھر صوبائی دفاتر کو مستقل لیہہ میں رکھنے کا کیا جواز ہے؟ یہ سوال ہے کرگل کے لوگوں کا جس کا ابھی تک گورنر انتظامیہ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا ہے ما سوائے اس کے کہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو ان معاملات کا گہرائی سے مطالعہ کرکے اپنی رپورٹ دے گی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام معاملات کو پہلے ہی کیوںطے نہیں کیا گیا۔ گورنر انتظامیہ نے ان معاملات پر غور کئے بغیر اتنی جلد بازی میں لداخ کو صوبائی درجہ دینے کا فیصلہ کیوں کیا۔ جو کمیٹی اب تشکیل دی جارہی ہے وہ پہلے ہی تشکیل کیوں نہیں دی گئی تھی۔ ان تمام سوالات پر جب گہرائی سے سوچ بچار کیا جائے تو کہیں نہ کہیں یہ احساس ہو تا ہے کہ یہ جو کچھ بھی کیا جا رہا ہے، سوچ سمجھ کے کیا جارہا ہے ۔ اس کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد کار فرما لگتا ہے کہ کشمیر اور جموں کی طرز پر کرگل اور لیہہ کے بیچ بھی بد اعتمادی اور شکوک کے بیج بوئے جائیں۔
کرگل کے ساتھ ہمیشہ سے زیادتیاں کی گئی ہیں، کشمیری حکمرانوں کے ہاتھوں بھی اور دلی کے ہاتھوں بھی۔ 1995 میں جب کہ ریاست میں صدر راج نافذ تھا، لیہہ میں ہل ڈیولپمنٹ کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔ 1996 میں منتخب حکومت معرض وجود میں آئی لیکن کرگل کو ایسا کوئی درجہ دینے کے بارے میں کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی۔ لیہہ کو ہل ڈیولپمنٹ کونسل دینے کے لگ بھگ سات سال بعد کرگل ہل ڈیولپمنٹ کونسل کوجولائی 2003 میں منظوری دی گئی۔ یہ تو فقط ایک مثال ہے۔ کرگل کے ساتھ ہوئی زیادتیوں کی کہانی بہت لمبی ہے۔
جموں و کشمیر کی سیاسی قیادت اگر اس ریاست کو ایک اکائی کے طور دیکھنا چاہتی ہے تو اس پر لازم ہے کہ کسی ایک خطے کو کسی دوسرے خطے پر ترجیح دینے سے گریز کرے۔ جو کچھ کشمیر میں کہا جا رہا ہے، نہ وہ حتمی سچ ہے اور نہ وہ جو جموں میں کہا جارہا ہے۔ جو لیہہ میں کہا جارہا ہے، نہ وہ حتمی سچ ہے اور نہ وہ جو کرگل میں کہا جارہا ہے۔ قیادت کو وہ سچ تلاشنے کی ضرورت ہے جو تینوں خطوں کو تسلیم ہو۔ قیادت کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ نہ کشمیر جموں پر اپنی دھونس جما سکتا ہے نہ جموں کشمیر پر۔ نہ لیہہ کرگل کو آنکھیں دکھا سکتا ہے نہ کرگل لیہہ کو۔ دھونس جمانے اور آنکھیں دکھانے کے بجائے ریاست کے مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی متضاد اور مختلف سیاسی خواہشات کو ایک لڑی میں پرونے کی ضرورت ہے۔ یہ ذمہ داری اُن تمام سیاسی قائدین کی ہے جو اپنے آپ کو ریاستی عوام کی سیاسی خواہشات کا ترجمان ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ لازم ہے کہ معاملات پر اتفاق رائے قائم کیا جائے تاکہ ریاست کو ایک اکائی کے طور قائم رکھا جائے۔ تقسیم در تقسیم کسی کے بھی حق میں ہو، ریاست کے عوام، بلا لحاظ مذہب و خطہ کے حق میں قطعی نہیں۔
وطن کی فکر کر نادان، مصیبت آنے والی ہے
تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر