کشمیر اور اس کے ابتر حالات پر لکھنا یا تبصرہ کرناآسان نہیں ہے۔اب جب کہ لیتہ پورہ پلوامہ میں اُوڑی طرز پر ایک اور فدائی حملہ جنگجوؤں نے سی آر پی ایف کانوائے پر بولا، اس کا ذمہ دار جس عسکریت پسند کو قراردیا گیا ہے ، کہا جاتا ہے کہ وہ بائیس برس کا عادل نذیر ڈار پڑھا لکھا مقامی عسکری نوجوان ہے۔ اس سے کہیں نہ کہیں یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ کشمیر میں موجودہ ملی ٹینسی مقامی افراد پر مشتمل ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اتنے بڑے حملے کو انجام دینا اکیلے مقامی عسکریوں کے بس کی بات نہیں ہوسکتی ۔ اسی لئے شک کی سوئی سرحد پار بھی جاتی ہے۔ اس حملے کے فوراً بعد جیش محمد نے ذمہ داری قبول کر کے معاملے کو بہت حد تک سلجھا دیا۔ جیش محمد نامی عسکری تنظیم مولانا مسعود اظہر کی زیر زمین عسکری تنظیم ہے جو کشمیر میں عسکری کارروائیاں انجام دینے کے حوالے سے ہندوستان کو مطلوب ہے، جب کہ لشکر طیبہ کے حافظ سعید پر تاج ہوٹل ممبئی پر دہشت گردانہ حملے کا الزام ہے۔اسی کے ساتھ پٹھان کوٹ حملہ،اُوڑی حملہ اور ان سے پہلے پارلیمنٹ پر جو حملہ ہوا تھا، ان تمام کیلئے لشکر طیبہ کو ذمہ دار مانا جاتا ہے۔ یہ تمام عسکری حملے ہندوستان کی سرزمین پر انجام دئے گئے۔ بہر حال اس سے نہ پاکستان اور نہ ہی کسی اور ملک کو انکار ہوسکتاہے کہ ان حملوں میں ہندوستانی عوام اور ہندوستانی فوجیوں کی جانوں کا اتلاف ہوا ۔بھلے ہی لیتہ پورہ حملے کے بعد اس بارے میںہندوستانی موقف کی حمایت میں دنیا بھر سے مذمتی بیانات آ گئے لیکن پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے رسمی طور پر بھی تعزیت کے دولفظ بولنے کی ضرورت نہ سمجھی۔ اس کا سیدھا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ جنگجوؤں کو اسلام آباد کی خاموش حمایت حاصل ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ یہ وقت سیاست کا نہیں ہے اور یہ کہنابالکل درست بھی ہے ،اسی لئے ملک کی تمام پارٹیاں تازہ عسکری حملے کے تعلق سے پر ایک ہی صفحے پر کھڑی ہیں اور حکومت کا ساتھ دینے کا پہلے ہی اعلان بھی کر چکی ہیں۔ ملک کی اہم اپوزیشن جماعت کانگریس نے جہاں یہ کہا کہ وہ آئندہ کچھ دن تک کوئی سیاسی موضوع نہیں اٹھائے گی،وہیں راجستھان میں احتجاج کرنے والے گجروں نے بھی اپنا احتجاج واپس لے کر قوم کی یکجہتی کے بارے میں ایک مثبت پیغام دیا ۔مگرافسوس کی بات ہے کہ اس دلخراش سانحہ کی مذمت کرتے کرتے بھی وزیر اعظم مودی نے کچھ وقت’’افتتاحی‘‘ شغل پورا کر نے کے لئے نکال ہی لیا۔انہوں نے تیز رفتار ٹرین کا افتتاح کرتے ہوئے حسب ِعادت اپنی حکومت کی کامیابیوں کی تشہیربھی کر ڈالی، وہ بھی ا س وقت جب پورا ملک سوگواری میں ڈوبا ہے۔ایسے وقت میں جب کہ پوری اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص کانگریس نے اپنی تمام سیاسی مصروفیات کو بالائے طاق رکھ دی ہوںاور دُکھ کی اس گھڑی میں حکومت کی ہم نوائی کو اعلاناً ناگزیر گرداناہو، مودی جی اپنی سیاسی عادات کے ہاتھوں مجبور نظر آئے ۔ پتہ نہیں وہ کیوں ہمہ وقت’’ الیکشن موڈ‘‘ میں رہتے ہیں۔ ان کا ہدف صرف انتخابی جیت ہی ہوتاہے،اس کیلئے وہ موقع محل دیکھتے ہیں اور نہ وقت اور حالات کے تقاضوں کو خاطر میں لاتے ہیں۔
ہم نے کشمیر کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ۲۰۱۴ء میں قبل ا ز سیلاب تک جو تھوڑی بہت خوشحالی وہاں پائی جاتی تھی، وہ آج قطعی نہیں ہے۔ ۲۰۱۴ء ہی میں مودی جی وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تھے اور اپنا پہلا سفر کشمیر بھی کیا تھا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ان کے دل میں کشمیریوں کے لیے کوئی سوچ نہیں ، وہ بظاہر چاہتے تھے کہ کشمیریوں کو مین سٹریم میں لایا جائے،شاید اسی لئے انہوں نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ آپ کو ٹیررزم چاہئے یا ٹورزم؟ ان کا یہ بیان اگرچہ ایک سوال پر مبنی تھا لیکن اس کا جواب الٹا پڑا۔ کشمیریوں کے ایک طبقے نے اس سے اپنے کو ٹیررزم سے جوڑ لیا اور مین اسٹریم میں کیا آتے اس سے اور دور ہوگئے۔ پھر اس کے بعد اسی سال ستمبر میں وہاں تباہ کن سیلاب آیا ۔ اس موقع پرمودی حکومت کی جانب سے بہت سارے وعدے کئے گئے لیکن وہ وفا نہیں ہوئے۔ اسی درمیان اس خطے میں مودی جی کی ہندوتوا کی تشہیربھی جاری رہی جس کی وجہ سے کشمیریوںمیں بدظنی پید اہوئی کہ ان کو اپنے دین وثقافت اور تشخص سے محروم کیا جارہاہے۔شاید اسی کے پس منظر میں یہ بات انصاف پسند حلقوں سے بار بار کہی گئی کہ کشمیر اگر آپ کا اپنا ہے تو کشمیر اور کشمیریوں کے جذبات بھی آپ کے اپنے ہونے چاہئیں۔ خود مودی جی نے بھی یوم آزادی کے موقع پر لال قلعے کی فصیل سے کہاتھا کہ گولی سے نہ گالی سے کشمیر کاحل کشمیر یوں کو گلے لگانے میں مضمر ہے لیکن یہ تاکیدبھی محض جملہ بازی ثابت ہوئی۔
۲۰۱۴ء کے اخیر میں جموں کشمیر میںاسمبلی انتخابات ہوتے ہیں اور بی جے پی دوسری بڑی پارٹی بن کر اُبھرتی ہے۔’ کانگریس مکت بھارت‘ کرنے کے زعم میں نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی تین مہینے کی ’’ذہنی مشقت ‘‘کے بعد مفتی سعید کی پارٹی پی ڈی پی سے سیاسی اتحاد کرکے ریاست جموں کشمیر میں حکومت بنا لیتی ہے۔ یہ وہی صورت حال ہے کہ فرض کریں کے ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات میں اگر بی جے پی اور کانگریس کو با لترتیب ۱۵۰؍اور ۱۲۵؍ سیٹیںمل جائیں اور دونوں مل کر حکومت بنا لیں توملک کے عوام پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟یہی کچھ کشمیر میں’’قطبین کے اتحاد ‘‘ سے بھی ہوا۔ حکومت اور اقتدار پر قابض ہونے کے لیے بی جے پی نے آگے پیچھے نہیں دیکھا اور ایک طرح سے آگ میں کود گئی۔ ظاہر ہے اس کا نتیجہ خراب ہونا تھا، سو وہی ہوا۔ مفتی کے انتقال کے بعد ان کی بیٹی محبوبہ مفتی سے بھی کم و بیش تین ماہ تک حکومت سازی کے لئے گفت وشنید جاری رہی اور ایک بار پھر مخلوط حکومت بن گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ ریاستی عوام کی خواہشات کے بر خلاف تھا۔ یہ بات دوسروں نے بھی محسوس کیا کہ بی جے پی جموں ہی کو مکمل کشمیر سمجھنے کی غلطی کر رہی ہے۔ حالانکہ جموں کشمیر صرف جموں نہیں ہے،بڑی آبادی وادی اور لداخ میں بھی بستی ہے۔ لداخ کی بات آئی تو یہ بھی جان لیں کہ مودی جی نے ہمیشہ لیہہ کو ہی ترجیح دی۔ یہی سبب ہے کہ سوشل میڈیا پر ایک کشمیری نے لکھا کہ لیہہ ہی لداخ نہیں ہے۔ اسی سے ساری بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ لداخ میں کرگل بھی آتا ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی ۹۵؍فیصد ہے۔ اپنی حکومت کے آخری سفر میں مودی جی سری نگر بھی گئے لیکن وہ صرف جانے بھر تک کا ہی معاملہ تھا۔ مودی جی کو کشمیر میں حکومت بنانے سے پہلے ہزار بار سوچنا چاہئے تھا۔ پی ڈی پی وہاں کی مقامی پارٹی تھی ،وہ تو حکومت بنانا چاہتی ہی لیکن ایک قومی پارٹی کو جو اس سے مختلف رائے رکھتی ہو، دور رہنا چاہئے تھا۔ بعد میں کیا ہوا، وہ کہانی سب کو معلوم ہے۔ کس طرح محبوبہ کی حکومت کو بیک جنبش زبان گرایا گیا اور ان کی پارٹی میں بھی توڑ پھوڑ مچائی گئی، یہ سب کچھ بھی کشمیر میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔
موجودہ مرکزی حکومت یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہے کہ کہ اس سے کشمیر میں کوتاہی ہوئی ہے۔اگرچہ گورنر صاحب نے اعترافات کئے ہیں کہ دلی سے بھول چوک ہوئی ہے۔ لیتہ پورہ واقعہ کے تعلق سے بات کریں تو عام لوگ بھی یہی کہتے ہیں کہ ا تنی بڑی تعداد میں فوجیوںکا قافلہ ایک ساتھ سری نگر منتقل نہیں کیا جانا چاہئے تھا ۔ انٹیلی جنس کی ناکامی کو سرکاری عہدیدار بھی مانتے ہیں ۔ اتنا بڑا حادثہ کوئی ایک دن کا جادوئی کام نہیں ہوسکتاہے۔ اس کی پلاننگ میں کثیر رقم بھی لگی ہو گی،اسی طرح عسکری کارروائی میں مقامی اور غیرمقامی عساکر کی شمولیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ سی آر پی ایف بسوں پر گولیوں کے نشانات بھی دیکھے گئے ہیں۔ اِس کا یہ مطلب ہے کہ خودکش بمبار نے اپنی گاڑی کو ٹکرانے سے پہلے گولیاں بھی چلائی ہیں ۔اس کام میں ایک سے بھی زیادہ جنگجوؤں کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔اگرچہ متعلقین کو اپنے ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی لیکن ایسا نا ممکن بھی نہیں ہے۔
مابعد لیتہ پورہ سانحہ اب گیند مودی جی کے کورٹ میں ہے۔ اگر وہ پاکستان پر حملہ کرتے ہیں تو ممکن ہے الیکشن کے لئے کوئی موضوع پا لیں، جسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جائے گالیکن جنگ اتنا آسان آپشن بھی نہیں ہے جتنا ٹی وی کے اینکر اسے سمجھتے ہیں یابتاتے ہیں۔پاکستان کے ساتھ چین کھڑا ہے اور مسعود اظہر پر اس کا موقف پہلے جیسا ہی ہے۔ اس لئے کوئی بھی قدم اُٹھانے سے پہلے حکومت کو چین کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ چین کو بھی اس سے انکار نہیں ہے کہ عسکری کاروائی انجام دی گئی ہیں جس میں جوانوں کی زندگیاں تلف ہوئی ہیں۔ ۔۔بہر حال حکومت اگر صرف بیان بازی اور وار ہسٹریا سے ہی سے کام چلانا چاہتی ہے ، تووہ بھی اصل مرض کا موثر علاج نہیں ہے۔خاصا کیچ ۲۲؍پوزیشن ہے۔اسی لئے بالغ نظر اور دُوراندیش دانش ور اور تجزیہ کار لیتہ پورہ سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کشمیر کا مسئلہ چونکہ سیاسی ہے ، اسے میدان جنگ کے بجائے بات چیت کی میز پرہی حل کیا جا سکتا ہے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں رابطہ9833999883)