سرینگر//وفاقی تفتیشی ایجنسی’این آئی اے‘نے لیتہ پورہ حملہ کی تحقیقات ریاستی پولیس سے حاصل کرکے جانچ کا سلسلہ شروع کردیا ہے،جبکہ گزشتہ برس سرینگر کے ایک تاجر سے ز ائد از14لاکھ ضبط شدہ رقومات واپس کردی۔حکام کے مطابق جانچ ایجنسی نے اس سلسلے میں کیس درج کیا اور تحقیقات کیلئے ٹیم تشکیل دی ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نیشنل انویسٹی گیشن کے ڈائریکٹر جنرل وائی سی مودی نے دیگر سنیئر افسران کے ہمراہ حملے کی جگہ کا معائنہ کیا،جہاں انہیں سی آر پی ایف اور پولیس افسران نے جانکاری فراہم کی۔ ریاستی پولیس نے پہلے ہی لیتہ پورہ حملے سے متعلق ایک کیس پولیس تھانہ اونتی پورہ میں درج کیا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی نے پہلے ہی لیتہ پورہ میں مقام حملہ پر بارود کے نمونے حاصل کئے ہیں،جبکہ پولیس کی طرف سے اس حملے کی پاداش میں گرفتار شدہ نصف درجن مشتبہ افراد سے بھی پوچھ تاچھ کی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی کے افسران نے سنیئر پولیس افسران،خفیہ ایجنسیوں اور فوجی افسراں سے بھی ملاقی ہوکر تبادلہ خیال کیا،اور انکی طرف سے جمع شدہ شواہد و ثبوتوں کو بھی حاصل کیا۔اس دوران قومی تحقیقاتی ایجنسی نے عدالت کے خصوصی جج کی ہدایت پر سرینگر کے ایک تاجر عمران کائوسہ کی ضبط شدہ14لاکھ13ہزار روپے کی رقم واپس کی۔ معلوم ہوا ہے کہ عدالت کی طرف سے یہ حکم نامہ عمران کائوسہ کے وکلاء ایڈوکیٹ گگن دیپ شرما اورایڈوکیٹ مستحسن متو کی طرف سے جموں این آئی ائے کی خصوصی عدالت میں ایک عرضی پیش کرنے کے بعد صادر کیا۔عرضی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ رقومات عمران کاوسئہ کی قانونی تجارتی آمدنی تھی،جبکہ اس بات کے ثبوت بھی پیش کئے کہ اس رقم کی جی ایس ٹی بلیں اور دیگر دستاویزات بھی موجود ہیں۔ عرض گزار جو کہ کائوسہ اینڈ سنز کا ملک ہے، کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ رقومات اس لئے گھر میں رکھی تھی تاکہ وہ سپلائروں کی بقایاجات کو ادا کریں۔این آئی اے نے اپنے جواب میں کہا کہ انہیں تحقیقات کیلئے رقومات کی مزید ضرورت نہیں ہے،اور یہ رقم کائوسہ کے حق میں واگزار کی جائے۔ عدالتی حکم نامہ میں کہا گیا’’ این آئی اے کے خصوصی وکیل نے کھلی عدالت میں کہا کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی کو کوئی بھی عذر نہیں ہے،کہ اگر کیس سے متعلق ضبط شدہ رقومات اس کے اصل مالک کے حق میں معاوضہ بانڈر اور انڈٹیکنگ مرتب کرنے کے بعد واگزار کی جائے۔2016کے فنڈنگ کیس میں یہ پہلا مواد ہے جس کو واگزار کیا جا رہا ہے،جبکہ اس کیس میں کئی تاجروں سمیت دیگر لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ستمبر2017میں این آئی اے نے کشمیر،نئی دہلی اور گڑھ گائوں ہریانہ سمیت27مقامات پر چھاپہ مارے تھے،اور تاجروں کے علاوہ دیگر لوگوں سے رقومات سمیت دستاویزات اور دیگر مواد ضبط کیا تھا۔دریں اثناء میڈیا رپوٹوں کے مطابق قومی تحقیقات ایجنسی حملے میں مبینہ طور ملوث مدثر احمد خان نامی جنگجو کے رول کی تحقیقات کررہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حملے میں استعمال کئے گئے آر ڈی ایکس جیش سے منسلک گروپ نے بین الاقوامی سرحد سے دراندازی کرتے ہوئے اس پار لایا ہے۔ ماروتی سوزوکی کے ماہر انجینئروں کی خدمات بھی طلب کی گئی ہیں ۔خفیہ ذرائع سے معلوم ہو اہے کہ حملے میں استعمال کی گئی گاڑی بارودی مواد پھٹنے کی وجہ سے مکمل طور پر تباہ ہوئی ہے اور تحقیقات کے لیے سیکورٹی ایجنسیوں کو کوئی شئے بھی دستیاب نہیں ہورہی ہے۔ انہو ں نے کہا کہ خود کش حملے میں استعمال کی گئی ’’ایکو وین‘‘ گاڑی کی مکمل تفصیلات کا پتہ لگانے کے لیے ماہر انجینئروں کا تعاون حاصل کیا جائیگا۔ جائے واردات سے سیکورٹی ایجنسیوںنے مسخ شدہ نمبر پلیٹ برآمد کیا ہے اور اسی سلسلے میں گہرائی سے چھان بین کے لیے سوموار کو وارد ہوچکی ماہر انجینئروں کی ٹیم سیکورٹی ایجنسیوں کو تحقیقات میں مدد فراہم کریں گے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ ماہر انجینئروں کی ٹیم گاڑی کی منوفیکچرنگ تاریخ کا پتہ لگانے کے علاوہ گاڑی مالک اور شوروم جہاں سے گاڑی کو خریدا گیا ہے کا پتہ لگانے کے لیے سیکورٹی ایجنسیوں کی مدد کریں گے۔انہوں نے بتایا کہ خود کش بمبار عادل احمد ڈار کی ویڈیو کلب جو حملے کے فوراً بعد جاری کردی گئی تھیں کا جائزہ لینے کی خاطر چندی گڑھ کی فارنسک لیبارٹی سے ماہرین کی خصوصی ٹیم کام پر لگی ہوئی ہے۔