گزشتہ دنوںپلوامہ ضلع کے لیتہ پورہ گاؤں میںفدائی حملہ ہوا جس میں تادم تحریر50 انسانی جانوں کا زیاں ہوا۔ ہلاک شدہ گان سنٹرل ریزرو پولیس کے اہل کار تھے ۔ چاہے کوئی بھی انسان لقمہ ٔ اجل بنے ہر ذی حس فرد اس کا درد محسوس کرتا ہے۔انسانی جانوں کی زیاں کاری کا نشانہ کسی بھی مذہب،کسی بھی فرقے،کسی بھی رنگ و نسل سے مناسبت رکھنے والے بنیں ،اسے انسانیت کی عینک سے دیکھا جانا چاہیے اوراس میں کوئی بھید و بھاؤ کرنا خود انسانی ا قدار سے ماوارء چیز ہے۔جہاں یہ حقیقت اپنی جگہ دُرست ہے، وہی یہ بھی ایک بھیانک حقیقت ہے کہ تاریخ کے سفر نے ہی نہیں بلکہ چشم ِفلک نے بھی ہر زماں و مکاں میںسیاسی مقاصد اور معاشی مفاد کے لئے انسانی خون کی ہولیاں دیکھی ہیں۔تاریخ کے یہ لہو لہاں اوراق بتاتے ہیں کہ طاقت ور قومیں روزِاول سے کمزوراقوام پر مسلط ہونے کے جنون میں مصروف کار رہی ہیں اوراس دائمی کشمکش میں کہیں کمزوروں کانام ونشان مٹ گیا ا ور کہیں ان کی قومی شناخت ختم ہو گئی۔ یونانی قوم500 ق م ایک ترقی یافتہ،مہذب او دانا انبوہ ِآدم کی حیثیت سے تاریخ میں اپنا نام اور مقام رقم کرگئی،یہ سقراط،بقراط،افلاطون اور ارسطو کا زمانہ تھا مگریونان اپنی فہم و فراست کو سنبھال نہ سکا اوراس کے بطن سے سوفسطائیوں نے جنم لیا۔سوفسطائی بحث و مباحثے میں اتناڈوب گئے کہ سوال و جواب کے چکر میں مبارزہ ان کا ایک قومی مشغلہ بن گیا ۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں ع
ہر چند کہ عقل کل شدہ بے جنوں مباش
شاعر مشرق کا اشارہ اس حقیقت کی جانب ہے کہ عقل کا کل ہونا یعنی دانائی کے دعوے میں جنوں کو ہاتھ سے چھوڑ دینا قوموں کے زوال کا سبب بن سکتا ہے ۔جنوں کو قومی سلامتی (نیشنل سیکورٹی ) سے تشبیہ دی جا سکتی ہے( گر چہ’ جنوں ‘عشق کی علامت ہے) ۔عشق کی ایک صورت وطن سے محبت بھی ہے۔مبارزت کی انتہاء میںاہل یونان اپنی قومی سلامتی تک کو بھول گئے۔انجام کار یہ ذہین قوم رومیوں کی غلام بن گئی ۔طوق غلامی یونانیوں کے نصیب میں ایک ایسے دور میں آیا جب یہ کہا جاتا تھا کہ ہر سڑک روم کو جاتی ہے (All roads lead to Rome)۔مدعا و مفہوم یہ کہ روم اقوام عالم پہ اِس حد تک حاوی ہو چکا تھا کہ ہر شاہراہ کے راہی کی اختتامی منزل روم ہی مانی جاتی تھی۔جہاں یہ صحیح تھا ،وہاں یہ بھی کہا جاتا تھا کی روم فن سے نا بلد ہے (Rome knows no art)یعنی سیاسی طاقت کے حصول کے باوجوداس میں فن کا فقدان تھا۔فن کی اس کمی کو یونانی غلاموں نے پورا کیا۔ چناںچہ کہا جاتا ہے کہ روم کے فن میں یونانیوں کی فن کاری چھلکتی ہے۔ یونانی اپنی عقل و دانش اور فنی صلاحیتوں کے باوجود رومیوںکے غلام بن گئے، کیونکہ وہ قومی سلامتی کے ا مور سے غافل ہوئے۔ دیکھا جائے تو کئی معنوں میں من حیث القوم کشمیری یونانیوں سے مطابقت رکھتے ہیں ۔علامہ اقبالؒ اس ضمن میں واویلا کرگئے ہیں ؎
آہ! یہ قوم ِنجیب چرب دست و تر دماغ
ہے کہاں روز مقافات اے خدائے دیر گیر
تر دماغ و چرب دست یعنی عقل و دانش ،فہم و فراست اور فنی صلاحیتوں سے لیس ہونے کے باوجودکشمیری مکافات کے جال میںپھنس چکے ہیں۔تاریخ کے ایک تاریک دور میں ہم ساز و ہم آواز کے چکر میں اپنی قومی سلامتی سے غافل ہو گئے۔علامہ اقبالؒ کا فرمانا ہے:
میں تم کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول،طاؤس و رباب آخر
یوسف شاہ چک نے طاؤس و رباب کو شمشیر و سناں پہ فوقیت دی اور نوبت یہ آئی کہ مغل اعظم اکبرکے قیدی بن گئے۔1586ء میں کشمیر اپنی آزادی کھوبیٹھا اور تاریخ کی تنگ و تاریک گلیوں میں گرفتار ہوکر اپنی شناخت بچائے رکھنے کے لئے اب بھی صف آراء ہے۔تاریخ جہاں بے رحم ہے، وہیں یہ سبق آموز بھی ہے، بشرطیکہ تاریخ کے در پر فریادی سبق لینے کی تڑپ اور تجسس کے ساتھ طالب علمانہ دستک دے۔ ابن خلدون جنہیں تنقیدی تاریخ کا موجد مانا جاتا ہے، اپنے’’ مقدمہ‘‘ میں کہہ گئے ہیں کہ تاریخ ماضی کی کہانیوں کا دفینہ ہے اور مستقبل کی ضامن بھی ہو سکتی ہے اگر ماضی کے حوالے سے جہاں بھی کچھ مثبت اشارے ملیں ، اُنہیں مثبت تر بنانے کے ساتھ ساتھ منفی پہلوؤں کو حذف کیا جاسکے۔ مطالعہ ٔ تاریخ کی روشنی میں ہم اپنے حال کو جانچنے پرکھنے کی سعی کر یں تویہی دیکھیں گے کہ گھپ اندھیرے میں یہاںدور دور تک روشنی کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔
اب لیتہ پورہ پلوامہ کی طرف پلٹئے۔اس حملے کے بعد کشمیری نہ اپنی وادیٔ گلپوش میں محفوظ ہیں، نہ ہی وادی سے باہر بھارت کی دیگر ریاستوں میں، جہاں کشمیر ی دست کاریوں کے تاجر سرما میں آذوقہ کما نے جاتے ہیں ، طلبہ تعلیم حاصل کر نے جاتے ، بیمار علاج ومعلالجہ کے لئے جاتے ہیں ، کئی ایک سیر سپاٹے کے لئے گھومتے پھرتے ہیں ، بعضے وطن میں سر ماکی شدت سے بچنے کے لئے کی عارضی سکونت اختیار کر تے ہیں جیسے گرمیوں میں لاکھوں مزدور ، کاریگر ، ہنر مند ا، یاتری اور دوسرے لوگ واردِ کشمیر ہو تے رہتے ہیں اور حالات کی نامساعدت کے باوجودکشمیر کی روایتی مہمان نوازی کا لطف اٹھاتے ہیں ۔ اس عموم کے بالکل برعکس پلوامہ واقعہ کے بعدجموں سے لے کر کولکتہ اور دہردون سے لے کر مدھیہ پردیش تک کشمیری ناکردہ گناہوں کی پاداش میں ہر اساں و پریشاں کئے گئے اور تادم تحریر یہ سلسلہ جاری ہے۔ پلوامہ میں پچاس سی آرپی اہل کاروں کا زیاں ہوا۔ ایک ہی وقت میں اتنی ساری جانوں کے زیاں نے اس واقعہ کو گھمبیر سے گھمبیر تر بنا لیا لیکن یہ بھی ایک تلخ وتند حقیقت ہے کہ وادی کشمیر گزشتہ اٹھائیس سال سے ہر روز اپنے جانی نقصانات اور املا ک کی بر بادیوں پر ماتم کناں ہوتی ہے۔اتنے برسوں سے ہر روزکہیں نہ کہیں انسانی جانوں کا زیاں ایک معمول سا بن گیا ہے بلکہ جس پوری دنیا میں لوگ موسمی حالات سے آگاہ رہنے کیلئے نیوز رپورٹیں دیکھتے رہتے ہیں، اسی کے مثل کشمیری اس بات کی آگاہی حاصل کر نے کے متجسس رہتے ہیں کہ آج کتنے پیروجواں کی جانِ عزیز مسئلہ کشمیر کے گرانڈیل دیو نے چٹ کر دیں ،کتنے گھر نذر آتش ہوئے ، کتنے بچے اور بچیاں یتیمی اور بیوگی کا داغ لئے بے کیف زندگی کا بوجھ لئے مجبوری کے بحر بیکراں میں ڈوب گئے ، کتنوں کے جسم زخموں سے چھلنی ہوئے ۔یہ ایک ناگفتہ بہ سلسلہ ٔجاریہ بن چکا ہے، ایک ایسا معمول جس سے انسانی احساسات پر مردنی سی چھا گئی ہے اورجہاں احساسِ مروت ہی مر جائے، وہاں حالات کی مناسبت سے ایک نارمل رد عمل کی توقع رکھنا احمقانہ سوچ ہے۔کشمیر ی اپنی تاریخ کے تاریک ترین دور سے گذر رہے ہیں ،جہاں بقول شخصے ہمیں بھی ہماری کچھ خبر نہیں ہوتی!
اپنی تاریخ کے تاریک ترین جان گسل دور میں جب ہم پلوامہ حملے پر ایک سر سری نظر ڈالتے ہیں تو یہی ا خذہوتا ہے کہ بر صغیر کی دو جوہری طاقتیںرقابت وعداوت میں کہاں پہنچی ہوئی ہیں ۔ حملے کے فوراً بعد بھارت سرکار نے اس کے لئے پاکستان کجو موردِالزام ٹھہرا دیا۔ اگرچہ سرکاری الزام تراشی کے پیچھے یہ سطور لکھنے تک کوئی تحقیقاتی سند سامنے نہیں آئی لیکن گودی ٹیلی ویژن چنلوں اس حملے پر وار ہسٹریا پیدا کر نے والی خبروں کی ایک ایسی ہوا چلادی جہاں بدلے میں کچھ بھی کر گذرنے کی مانگ عوامی سطح پر شروع ہوئی۔ بھارت کی جانب سے الزام تراشیوں کے چکر کے جواب میں پاکستانی انکار اسی طرح سامنے آیا جیسے پہلے بھی ایسے کئی مواقع پر روایتاً سامنے آتا رہا ہے۔ اسی بیچ دلی نے اسلام سے ناراضگی جتلانے کے لئے اپنے سفیر کو ’’مشاورت ‘‘ کے لئے دلی واپس بلایا ،اس کے دوایک روز بعد پاکستان نے بھی اپنے ہائی کمشنر کو دلی سے ’’مشاورت‘‘ کے لئے وطن طلب کیا ۔ اُدھر شمالی انڈیا میں ایک مخصوص ذہنیت کے لوگ پاکستان کو ’’سبق سکھانے ‘‘ کے لئے اُس پر جنگ چھیڑنے کی مہم چلاتے رہے۔ اس ضمن میں جموں میں رہ رہے عام کشمیری مسلمانوں سمیت کشمیری ملازمین کے خلاف ہندوتو وادیوں کی شر پسندانہ کارروائیاں ہوا کا رُخ بتارہی تھیں کہ یہ طبقے کس طرح کا غیر انسانی ردعمل دکھا کر بے قصوروں کی تنگ طلبی کے لئے کہاں تک جاسکتے ہیں ۔ عسکریت میں ایک نئے ٹرینڈ کی آمد ، جموں کی کئی مسلم بستیوں میں ان لوگوں کی طرف سے توڑ پھوڑ اور مار پیٹ کے واقعات ، شہر میںکئی روز تک کرفیو کانفاذ، کشمیر میں بند کال اور جموں کی کئی مساجد بالخصوص جامع مسجد بھٹنڈی میں ہراساں کئے گئے جموی اور کشمیری مسلمانوں کا پناہ گزیں ہوکر اپنی صبحیں اور شامیں وہیں گزارنا، اس ساری کہانی کے وہ مناظر ہیں جو کشمیر حل کی ضرورت پہلے سے زیادہ اجاگر کر تی ہے ۔ بہر حال و زیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں دلی کے الزام کو صاف لفظو ںمیں نکارا اور ڈائیلاگ کی ضرورت پر پھر زورد یا۔ بہر کیف آر پار کی بیان بازی میں جو آوازگم ہو گئی وہ کشمیریوں کی آواز تھی جن کے دیس میں دو نوں طاقتیں اپنی نقطہ نظر ا ور بیانیہ کو حرف ِ آخر سمجھتے ہیں۔کشمیر میں آزاد الیکٹرونک میڈیا کا فقدان ہے ،پرنٹ میڈیا کی پہنچ ریاست کے چار کونوں تک محدود ہے، سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس سیکورٹی اداروں کی نظر میں ہیں ، یہاں احتمال یہی رہتا ہے کہ نہ جانے کس پوسٹ کو یہ ادارے اَنٹی نیشنل ہونے کے رنگ میں رنگ لیں۔چناںچہ حالیہ دنوں میں کئی پوسٹ ’’اَنٹی نیشنل‘‘ قرار دئے گئے اور یہ ایف آئی آر کے نرغے میں لا ئے گئے۔باہر کی ریاستوں میں کئی طالب علموں پر اَنٹی نیشنل ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔اپنی اصل بات منظر عام پہ لانے پر لانے کی محدودیت نے کشمیری قوم کو سیاسی و سفارتی شطرنج کی اُن پیادوں کی سطح پر لایا ہے، جنہیں آسانی سے اِدھر اُدھر کیا جا سکتا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ اپنی بات کہنے کے لئے کشمیری قوم کے پاس سیاسی سپیس کا فقدان ہے اور یہ بات کسی المیہ سے کم نہیں۔
کشمیری چاہے اپنی وادی گلپوش میں رہ رہے ہوں چاہے وادی سے باہر کی ریاستوں میں ایک نرغے میں پھنس چکے ہیں جہاں نہ آرام سے جینے کی سپیس ہے نہ راحت و سکوں سے سانس لینے کا امکاں ہے۔ وادی میں کہیں تلاشیاں ہیں کہیں گھیراؤ اور تلاشی لو کی صورت حال ہے۔اس کے علاوہ انکاونٹر زکم و بیش روز مرہ کا معمول بن گئے ہیں۔ابھی پلوامہ حملہ کو چند ہی روز گذرے تھے کہ اِسی ضلع کے ایک گاؤں پنگلنہ میں تین جنگجو اور سیکورٹی فورسز کے پانچ افراد کے علاوہ ایک سویلین بھی جاں عزیز سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ سیکورٹی فورسز کے کئی افسر اور سپاہی زخمی ہوئے۔یہ سانحہ بھی جلتی پہ تیلی کا کام پلوامہ حملہ کے پس منظر میں ریاست جموں و کشمیر میں کئی طرح کے رُحجانات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ا ن میں کہیں ڈویژنل کہیں سب ڈویژنل،کہیں فرقہ وارانہ،کہیں ذات و پات پر فروغ دئے جارہے منفی رحجانات شامل ہیں جن کو بنیاد بنا کر کچھ غرض مند عناصر ریاست کا بٹوارہ چاہتے ہیں، یا یوں کہئے کہ متوازی بیانیہ کی تراکیب سے ریاست کی اکثریت مطلق کی آواز دبانے کی نامسعود کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس متوازی بیانہ کو خاص کر ووٹ بنک سیاست کی تعمیرو ترغیب کے سانچوں میں ڈھالا جا رہا ہے۔ ریاست کی اکثریت مطلق مسلٔہ کشمیر کے ایک پُر امن اور حتمی حل کیلئے کوشاں ہے جب کہ متوازی بیانہ کی ترکیب ہیتی کا مدعا و مقصد حالات کو جوں کا توں رکھنا ہے اور کشمیر حل ٹالنا ہے۔
غور طلب ہے کہ ٹیلی ویژن چنلوں میں قوم پرستی کے نام پر ایک ایسے زہر یلے رحجان کو فروغ دیا جا رہا ہے جو کسی بھی صورت میں بر صغیر کیلئے مجموعی طور نحوست آمیز ہے ۔ کیا یہ بکاؤ میڈیا نہیں جانتا کہ یہاں آر پار ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں اور کوئی اشتعال انگیز کارروائی ایسے حالات پر منتج ہوسکتی ہے جو ہیروشیما اور ناگا ساکی کو بھی قصۂ پارینہ بنا سکتے ہیں ۔، لہٰذا یہاں سیاسی مسائل کے حل میں جنگ کوئی آپشن نہیں بلکہ عقل وفہم اور بر صغیر کے ساتھ ساتھ امن عالم کا مفا داسی میں ہے کہ کشمیر مسئلہ کے لئے ایک پُر امن مذاکراتی راہ پہ گامزن ہو کر حل کی منزل تلاشی جائے ۔ یہی طریق کار برصغیر کیلئے سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ جہاں تک کشمیر ی عوام کا تعلق ہے ، وہ ستر سال سے انتہائی کشیدہ صورت حال کے نرغے میں تو ہیں ہی لیکن بر صغیر کے عوام بھی اس وجہ سے سُکھ چین نہیں پاسکتے ہیں۔ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ہی کسی ملک کو پیش رفتہ نہیں بناتا۔ یہ صحیح ہے کہ بھارت کی اقتصادی صورت حال پاکستان سے کافی بہتر ہے اور کئی معنوں میں بھارت عالمی سطح پر بھی خود کوایک اقتصادی طاقت منوانے کی کوشش کررہا ہے۔ جہاں یہ سچ ہے، وہیں یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ بھارت میں غربت، بے روزگاری ، مہنگائیا ور بدعنوانی کا یہ حال ہے کہ یہاں کے کسان قرضوں میں مبتلا ہونے کے بہ سبب خو د کشیاں کر رہے ہیں،کیونکہ قرضے اُتارنے کیلئے اُن کے پاس پیسہ نہیں۔ پاکستان ا س وقت نازک اقتصادی صورت حال سے دو چار ہے ۔اسی پس منظر میں سعودی ولی عہد نے پاکستان میں بیس ملین ڈالرکی سرمایہ کاری کر کے اس مملکت کو سہارا دینے کی پیش قدمی کی ہے ۔ ان تلخ حقائق کے باوجود آر پار کے دفاعی بجٹ کو پرکھا جائے تو یہی نظر آئے کہ دونوں ملکوں کی آمدنی کا بیشتر حصہ فوجی اخراجات کی نذرہوتا ہے۔ بالفاظ دیگرمسلٔہ کشمیر کی وجہ سے دونوں ایک ودسرے کو پچھاڑنے اور نیچا دکھانے کے شغل میںعوامی فلاح وبہبود مثلاً تعلیم ، صحت، روزگار کے بجائے باہم دگر وناش کاری کوہی اپنا کعبہ ٔ مقصود بنائے ہوئے ہیں ۔ اس لئے اگر ہم یہ کہیں کہ کشمیرنے پورے بر صغیر کو گونا گوں مسائل کے گرداب میں لے ڈوبا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ زیر بحث مسئلے کے کئی رُخ ہیں جن کا یہاں احاطہ نہیں کیا جاسکتا ۔ موٹے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مسلٔہ کشمیر نے پورے خطے کی سیاست ، معیشت، تجارت، معاشرت اور پرواز ترقی کو بری طرح بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ افسوس کہ آج بھی کئی ایسی تجارتی شاہراہیں ہیں جو ترقی کی ضامن ہیں مگر مسئلہ لاینحل رہنے سے بند پڑی ہیں ۔اقتصادی ماہرین کی متفقہ رائے یہ ہے کہ جنوبی ایشیا ئی خطے کی تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اگر دور کیا جائے تو یہاں اقتصادی ترقی اور خوش حالی میں خاطر خواہ تیزی آ سکتی ہے، لیکن اس کے لئے لازم وملزوم یہ ہے کہ جنوب ایشائی خطے کے ان دو ممالک میں باہمی اتفاق اور ہم آہنگی اوردوستی کی فضا پیدا ہو ۔ اس کے لئے ا نہیں سارک پلیٹ فارم کو عملاً جنوب مشرقی ایشائی ممالک کی تنظیم آسیان (ASEAN)یا یورپین یونین (EU) میں تبدیل کر نے کی مثبت سوچ سے کام لینا ہوگا۔ ان خطو ط پر نہ سوچا جائے تو جہاں مستقبل میں نئے پلواموں کا ا مکان رد نہیں کیا جاسکتا،وہاںبر صغیر کی ان دوجوہری طاقتوں کی پالیسیاں وہ ٹیلی ویژن اینکر بناتے ہیں جنہیں نہ اپنے پیشے کی سدھ بدھ ہے اور نہ ملکی مفاد اور عالمی صورتحال کی کو ئی بصیرت حاصل ہے ، جو رائے عامہ کو جنون اور دیوانگی کی شراب پلاپلاکر کچھ اس طرح بگاڑتے ہیں کہ لوگوں کو کشمیر حل اچھا نہیں لگتا بلکہ لیتہ پورہ جیسے جنگ کے میدان سجے دیکھنے میں مزا آتا ہے ۔ یہ ٹی وی چنل اپنے ریٹنگ (TRP) بڑھانے کے لئے بھارت سرکار جنگ کی ترغیب ہی نہیں دیتے ہیں بلکہ عوام کو بھی جذباتیت کی رو میں بہکاکر اُکساتے ہیں ۔ ا س وقت دلی کو خاص کر ایسے سیاسی مدبرین ، پالیسی سازوں اور سفارت کاروں کی ضرورت ہے جو امن کی پُروائیاں چلاکر مسائل حل کر نے میں ہی کوشاں نہ رہیں بلکہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ساتھ بر صغیر کے عوام کو بھی راحت اور سکون کی سانس لینے کا موقع دینے کی مثبت پہل کریں۔
Feedback on: [email protected]
������