پلوامہ فدائین حملے کے بعد جموں میں رونما ہونے والی پرتشدد صورتحال اور گاڑیوں و املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات پر پہلے تو پولیس کا رویہ افسوسناک رہا لیکن بعد میں ملوث عناصر کے خلاف کیس درج کرکے ان کی گرفتاریوں کے دعوے کئے گئے اور پولیس کے مطابق 150سے زائد افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی جبکہ مزید قصورواروں کوبھی گرفتار کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔ اس حوالے سے ریاستی گورنر نے بھی متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔تاہم حکام کی طرف سے اس پیشرفت کے بعدتجارتی انجمنوں سمیت جموں کی متعدد تنظیموں کا بلوائیوں کی حمایت میں کھل کر سامنے آنا اور ان کے خلاف درج کئے گئے کیسوںکو خارج کرنے کا مطالبہ کرنانہ صرف انصاف کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی ایک دانستہ کوشش ہے بلکہ شرپسندوں کے حوصلے کو بلند کرنے کی سعی بھی، جس کے نتیجہ میں ان عناصر کو آئندہ پھر سے ایسے حالات پید اکرنے کا حوصلہ ملے گا جو ریاست میں امن او ربھائی چارے کیلئے ایک تشویشناک بات ہوگی۔15فروری کو جموں بند کی کال کے دوران اور اسکے بعد ایک مخصوص طبقہ کو نشانہ بناکر اس کی املاک کو نقصان پہنچانے اور پولیس کی موجودگی میں انکی گاڑیوں کو نذر آتش کرنے سے شرپسند عناصر نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ریاستی عوام میں خلیج پیدا کرکے ایک نہایت ہی خطرناک ماحول کو جنم دیا ہےاور اگر انہیں اپنے کئے کی سزا نہ دی گئی توایک تو اس سے یہ خلیج ختم ہونے کے بجائے مزید گہری ہوجائے گی اور دوسرے انتظامیہ اور پولیس پر سے بھی عوام کا اعتمادمکمل طور پر ختم ہوجائے گا۔موجودہ حالات کے تناظر میں جموں چیمبر کے مؤقف میں یکا یک تبدیلی بھی کئی طرح کے سوالات کو جنم دیتی ہے کیونکہ 15فروری کی شام کو چیمبر نے پریس کانفرنس میں حملہ آوروں کی کڑی مذمت کرتے ہوئے ان واقعات کو جموں کیلئے شرمندگی کا باعث قرار دیاتھالیکن اس کے کچھ روز بعد دی گئی پریس کانفرنس میں چیمبر نے اپنا بیانیہ بالکل ہی بدل ڈالا اور اس پورے معاملے کو کچھ اور ہی رنگ دینے کی کوشش کی گئی جس پر کشمیر چیمبر اور تشدد کے واقعات کا نشانہ بننے والوں کو سخت مایوسی ہوئی ۔اسی دوران کچھ ایسی نام نہاد تنظیمیں بھی سامنے آئیں جنہوں نے انسانیت کو شرمندہ کرتے ہوئے حملہ آوروں کی کارروائیوں کی خوب ستائش کی اور ان کی پیٹھ تھپتھپائی ۔ڈیڑھ ہفتہ قبل جموںمیں پولیس کی موجودگی میں ہوئی تباہی کو کسی طرح سے بھول کر لوگ یہی امید کررہے تھے کہ قانون کو اپنے ہاتھوں لینے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہوگی اور انہیں ایسی عبرتناک سزا دی جائے گی کہ وہ آئندہ ایسی حرکت کرنے کی کوشش نہیں کرینگے لیکن اس تناظر میں کچھ تنظیموں کاان عناصر کی کھل کر حمایت کرنا اور ان کے خلاف کارروائی پر انتظامیہ کو احتجاج کی دھمکیاں دینا یہ ظاہر کرتاہے کہ حالیہ واقعات کو ایک الگ زاویہ سے دیکھاجارہاہے اورشائد کچھ سیاسی طاقتوں کا مفاد بھی اسی پر ٹکاہواہے ۔تاہم اس دبائوکے باوجود یہ توقع کی جانی چاہئے کہ گور نر انتظامیہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے گی اور متاثرین کو انصاف ملے گاکیونکہ اسی طرح سے پولیس کے اعتماد کو بحال کیاجاسکتاہے۔ایسے حالات میں جموں کے ذی شعور افراد کو بھی ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت میں کھل کر سامنے آناچاہئے ورگرنہ ان کی خاموشی سے بھی امن دشمن عناصر فائدہ اٹھاسکتے ہیں جس کی ریاست جموں وکشمیرپھر سے متحمل نہیںہوسکتی ۔انتظامیہ کےلئے عدالت عظمیٰ کی وہ ہدایت مشعل راہ ہونی چاہئے جس میں گیارہ ریاستوں کی سول و پولیس انتظامیہ کوہجومی تشدد روکنے اور ایسی حرکتوں کے مرتکب افراد کے خلاف سخت کاروائی کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ایسے حالات میں اگر ریاستی انتظامیہ کسی دبائو میں آتی ہے تو وہ ملک کے اعلیٰ ترین ایوانِ انصاف کی توہین ہوگی۔