آج کل ہندپاک جنگ کے خلاف اقوام متحدہ بھی کھل کر بول رہا ہے اور بہت سارے دوست ممالک بھی اپنی فکروتشویش ظاہر کر رہے ہیں ۔ہر گوشے سے نئی دلی اور اسلام آبا دپر یکساں طور زور دیا جارہاہے کہ جارحانہ آویزش کا سلسلہ مختصر کرکے افہام وتفہیم سے اپنے اختلافات سلجھاؤ مگر کون ہے ان کا سننے والا ؟ واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت اور پاکستان نے جنگ بازی میںمیں اُلجھنے کا بیڑا اُٹھایا ۔ ا س سے پہلے بھی انہوں نے ایک دوسرے کو پچھاڑ کر اپنے ا پنے انداز سے مسئلہ کشمیر حل کرنے اور اپنی روایتی دشمنیوں اور کدورتوں کا حساب چکانے کےلئے میدان ِ جنگ کا انتخاب کر کے برصغیر کی تاریخ کو لہولہاں کر کے رکھ دیا۔ تاریخ شاہدعادل ہے کہ دونوں جانب سے روایتی دشمنی میں بہک کر ہی۴۷ء کی تاریخ خون آلودہ کردی گئی ، اپنی ا س دیرینہ رقابت کا بوجھ ہلکاکر نے کے لئے ہی انگریزوں سے گلوخاصی پاتے ہی کشمیر کو میدان ِ جنگ بناڈالا گیا، ۶۵ء میں دوبارہ جنگ کی مشکیں کس لی گئیں، چھ سالہ وقفے سے۷۱ء کی جنگ میں ایک دوسرے کاآمنا سامنا میدان جنگ میں کیا جس کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی حصہ اپنے مغربی بازو سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بنا۔ اس کے بعدکرگل کی یلغار سے یہ دونوں ملک تاریخ کو نئے انسانی المیوں سے خوںبار کر گئے۔ مختصر یہ کہ گزشتہ سات دہائیوں میں اگر ان دوغریب ملکوں نے کچھ کیا بھی تو صرف ایک دوسرے سے جنگیں کیں اوراگر سمجھوتے بھی کئے تو انہیں صرف توڑنے کے لئے ، اگر ایک دوسرے کو دوستی ومفاہمت کے بڑے بڑے وعدے دئے بھی تو پیٹھ پیچھے دشمنی کے نت نئے تجربے کر نے کیلئے۔ اس نامبارک مشن میں کشمیر ہمیشہ دوطرفہ توپ کا ایندھن بنا رہا۔ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے ہندوپاک کو اپنے اپنے قومی بجٹ کازیادہ ترحصہ دفاعی ساز و سامان کی بھاری بھر کم خریداری میں اُڑانا پڑا ،بلکہ انہیں کئی ایک سود خوروں سے قرضے لے لے کر جنگی طیارے ، ٹینک ، میزائل ، بم باروداور دیگر حربی سوغات ذخیرہ کر نا پڑیں ۔اس فضول خرچی کے سبب مدرسے ، شفاخانے،کارخانے ، کھیت کھلیان ، جدید تحقیقی ادارے وغیرہ اگرثانوی اہمیت بھی حاصل نہ کر پائیں تو حیرت کی کیا بات ؟ ملکی دفاع اور سا لمیت کے نام پر جہاں ا یسی شاہ خرچیاں ہوں، وہاں عام آدمی کی حسرتیں دل میں دل ہی دل میں دب کر کیوں نہ رہ جائیں ؟ کہنے کوعام آدمی’’ آزاد‘‘ کہلایا مگر اُسے جدید تعلیم کا نور نہ ملا، اُسے صحت کا پروانہ نہ ملا، اُسے باعزت روزگار نہ ملا، اُسے مہنگائی سے چھٹکارا نہ ملا، اُسے استحصال سے نجات نہ ملی تو یہ کاہے کی آزادی ہوئی ؟ افسوس کہ وہ خوشنما دِ کھنے والے جمہوری حقوق ملنے کے باوجود غریب سے غریب ترہوگیا، جب کہ اس کے خون پسینے کی کمائی دیارِ مغرب میں مہلک ہتھیاربنانے والے ا میروں کی تجوریاں بھر نے کے کام آئی ۔ یہی کاروبارِ سلطنت آج سترسال گزرنے کے بعد بھی بتمام وکمال جاری ہے۔ باوجودیکہ آر پار کے غرباء کے یہاں بھوک ، بیماری ، ناخواندگی اور حسرتیں مشترکہ طور ڈیرہ ڈالے ہوئی ہیں پھر بھی شاہانِ جمہور جنگوں کا شغل شوق سے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دونوں ملک اس حقیقت حال سے واقف ہونے کے باوصف عوام کودرپیش سلگتے مسائل کی جانب اولین توجہ نہیں دیتے، بلکہ سال بہ سال اپنا اپنادفاعی بجٹ بڑھا کر مفلسی سے نڈھال برصغیر کو ہتھیاروں کے ذخائر سے اتنامالامال کر رہے ہیں کہ اگر کرہ ٔارض کے اس حصے میں کبھی خدانخواسہ مکمل جنگ چھڑگئی تو چند ہی ثانیوں میں جنوبی ایشیاء راکھ کے ڈھیر میں بدل جائے گا ۔ ان تلخ وتند حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب نگاہیں گزشتہ کئی دن سے جاری اس دوطرفہ جنگ پر مرکوز کیجئے جو آسمان کی وسعتوں سے لے کر زمین کی پہنائیوں تک بڑی بے فکری کے ساتھ لڑی جارہی ہے ، دل پر ہاتھ رکھ کرخود سے سوال کیجئے یہ جنگی جنون بجز تباہی وبربادی کسی درد کا درماں ثابت ہوگا ؟کسی مسئلے کاحقیقی حل دے گا ؟ کسی غریب کے خواب کو شر مندہ ٔ تعبیر کرے گا ؟ کیاا س سے کشمیر میں عسکریت خا تمہ ہوگا؟ کیا ا س کے زور پرپاکستان کشمیر پر اپنے قومی موقف سے دستبردار ہوگا؟ کیا جنگ سے دلی مسئلہ کشمیر حل کر نے کی ذمہ داری سے ہمیشہ کے لئے مکتی پائے گی؟ کیا اقوام متحدہ کی کشمیر قراردادیں ختم ہوں گی ؟ کیا کشمیری قوم اپنی انمول قربانیاں بھول جائے گی؟ ضمیر کی روشنی میں جوابات ڈھونڈیئے تو ہرسوال کا جواب نفی میں ہوگا ۔ تازہ محاربے کی شروعات کس نے کی، اس کا انجام کیا ہوگا، دوطرفہ جھڑیوں کی تان کن بدترین نتائج پر ٹوٹ جائے گی، ان تیکھے سوالات سے بچتے ہوئے یہ بات طے ہے کہ دونوں جانب نقصانات اور خسارے آخرکار غریب عوام کے کھاتے میں ہی جمع ہوں گے۔ یہ بھی ایک عام مشاہدہ ہے کہ جنگ کے دوران زیادہ تر سیاست دان اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی غرض سے جوشیلی تقریریں کرتے ہیں اور حکمران جیت کے لئے قربانی یا بلیدان کی راگ اَلاپ کر ہر خسارے کو عوام کے سر ڈال دیتے ہیں ۔ یوں اُن لوگوں سے ہی تاوان ِ جنگ وصول کیا جاتاہے جن کا جنگ شروع کرنے میں کوئی کردار ہوتاہے اور نہ اسے ختم کر نے میں کوئی رول ہوتا ہے مگر ظلم یہ کہ جنگ کا سارا خمیازہ صرف محنت کشوں، مزدوروں ، کسانوں ، تاجروں اور کمزوروںکو چارو ناچار اُٹھانا پڑتا ہے۔اصولی طور آج تک جنگ سے کوئی مسئلہ حل ہو انہ آگے اس سے کوئی سیاسی گتھی سلجھنے کی توقع کی جاسکتی ہے ۔ اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ آرپار کے سیاست دان اور حکمران بخوبی جانتے ہیں کہ دلی اور اسلام آباد کے لئے مسائل کے دلدل سے نکل باہر آنے کے ضمن میں جنگ کوئی راہ ِفرار نہیں دیتی بلکہ یہ اُلٹا مسائل کو مزید اُلجھا نے کا باعث بنتی ہے، مگرہر بار کی طرح اس مرتبہ بھی کوئی قومی لیڈر اس پاگل پن کو فوراً بند کر نے کے لئے ملکی قیادت سے کوئی مانگ کررہاہے نہ کوئی مضبوط جنگ مخالف آواز کہیں عوامی حلقوں سے سنی جارہی ہے ۔ وجہ ظاہر ہے کہ ہمارے یہاں حُب الوطنی کو ایسے معانی پہنائے گئے ہیں اور کچھ ایسے دیگر مفروضے قائم کئے گئے ہیں کہ اگر کوئی سیانے سے سیانا فرد یاادارہ بھی یہ کہے کہ براہ ِ کرم محاربہ نہیں مکالمے سے معاملہ حل کرو تو نہ جانے انتہا پسند عناصر اور یک چشمی میڈیا اسے کون کون سی گالیاں دے اور کیا کیا گل کھلائے۔ کڑوی بات ہے مگر سوفی صد سچ کہ ہندپاک جنگوں کی وہی پرانی تاریخ آج بھی دہرائی جارہی ہے جب دونوں ملک عادتاًبھی ارادتاً بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے گھرپھونک تماشے سے بھی نہیں کتراتے ۔ بایں ہمہ وقت آن پہنچا ہے کہ نئی دلی اورا سلام آباد برصغیر میں امن وامان کے وسیع ترمفاد میں جنگ وجدل کو فی الفور خیر باد کہیں اور کوئی ایسا مہذبانہ اور شریفانہ طریق کار اپنائیں جس کو اپنانے سے جنگ کے بادل ہی نہ چھٹ جائیں بلکہ حالات بھی معمول پر آئیں اور مکالمت کی مثبت راہیںاستوار ہوں۔