گزشتہ دنوں چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کے دورہ ریاست کےد وران سرینگر اور جموں میں ریاست کی کم و بیش سبھی مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کے ساتھ تبادلہ خیالات کے بعد یہ بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ جموںوکشمیر کی کلیدی سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس، کانگریس اور پی ڈی پی سمیت سبھی قومی اور مقامی سطح کی جماعتیں اس بات پر متفق نظر آرہی ہیں کہ ریاست کےا ندر پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات ساتھ ساتھ منعقد کرائے جانے چاہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ نئی دلی کے کچھ حلقے فی الوقت ریاست کے اندر صرف پارلیمانی انتخابات کرانے کے حق میں ہیں اور اس کےلئے حالات کی خرابی اور سیکورٹی معاملات کو بنیادی وجوہات کے طور پر جتلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر چہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے گزشتہ برس پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، لیکن اس کے بعد صدارتی راج کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے ریاست کے حوالے سے متعدد ایسے فیصلے لئے گئے ہیں، جنہیں ریاستی عوام کے حق میں قرار نہیں دیا جا رہا ہے اور گورنر انتظامیہ کے توسط سے بنیادی آئینی معاملات میں چھیڑ چھاڑ کی کوششوںکی بنا پر مین اسٹریم سیاسی خیموں میں یہ خیال گہراتا جا رہا ہے کہ ایک منتخب سرکار کی عدم موجودگی میں ریاست کے آئینی وسیاسی ڈھانچے کو متواتر خطرات و خدشات درپیش ہیں۔ این سی اور پی ڈی پی کی جانب سے گزشتہ برس کے انتخابی بائیکاٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسکی وجہ سے ریاست ، خاص طور پر ، کشمیر میں سیاسی مکانیت کے سکڑائو کا عمل شروع ہو چکا ہے اور مرکزی سرکار کے کچھ فیصلوں سے سیاسی مکانیت محدود کرنے کے اس عمل سے فروغ ملتا جا رہا ہے اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ معروف اور محفوظ سیاسی سپیس پر ایسے حلقے نمودار ہوتے جار ہے ہیں، جنکا نہ کوئی سیاسی پس منظر رہا ہے اور نہ کوئی خاص ریکارڈ۔ چیف الیکشن کمشنر نے یہ واضح کیا ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتیں بہ یک وقت پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات کرانے کے حق میں ہیں اور اس حوالے سے وہ سیکورٹی کے معاملات اور موجود ماحول کو مرکز کے ساتھ زیر بحث لائینگے۔ کمیشن نے اعتراف کیا ہے کہ سبھی سیاسی جماعتیں ریاست کے اندر ایک منتخب سرکار کی بحالی چاہتے ہیں اور اس کے لئے پنچایتی و بلدیاتی انتخابات میں رائے دہندگان کی شرکت کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریاست میں سیکورٹی کے مسائل ضرور درپیش ہیں تاہم جہاں تک انتخابات کا تعلق ہے تو ماضی میں بھی کم و بیش ایسے ہی حالات میں انتخابات کا عمل ہوتا رہا ہے، لہٰذا ظاہری طور پر الیکشن کمیشن کو اس کے پس منظر میں ایسا فیصلے لینے میں دقت پیش نہیں آنی چاہئے جو کلیدی سیاسی جماعتوں کے نکتہ نظر سے مطابقت رکھتا ہو۔ الیکشن کمیشن اورمرکزی وزارت داخلہ کے درمیان آئندہ چند دنوں کے اندر ہو نے والی میٹنگ میں ان تمام معاملات کا جائزہ لیا جائے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ18فروری کو دونوں کے درمیان منعقد ہ اجلاس میں مرکزی وزارت داخلہ اور ریاست کی گورنر انتظامیہ نے جموںوکشمیر میں بہ یک وقت پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سیکورٹی تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ انکا مؤقف ابھی واضح طور پر تبدیل نہیں ہوا ہے اور اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا ریاست کی سیاسی جماعتوں کے مؤقف اور منشاء کو کتنی اہمیت دیتا ہے، کیونکہ ان جماعتوں نے واضح طور پر بہ یک وقت انتخابات کرانے کی نہ صرف وکالت کی ہے بلکہ مطالبہ بھی کیا ہے ۔ اس طرح گیند اب الیکشن کمیشن کے پالے میں ہے اور رائے دہندگان کی طرف سے اُمید کی جارہی ہے کہ کمیشن مرکز میں برسراقتدار حلقوں کے سیاسی عزائم کے بجاے ریاست کی سیاسی تقاضوں کو اہمیت دیتے ہوئےایسا فیصلہ کریگا، جو سیاسی اکثریت کے نقطۂ نظر سے مطابقت رکھتا ہو اور جس سے کمیشن کے غیر جانبدارانہ مرتبے اور اہمیت کے اعتبار میں اضافہ ہوگا۔