یاور نسیم صاحب ۔۔ ’’ آپ نے حقوق نسواں کے لئے جتنا کام ہماری سوسائٹی میں کیا ہے اتنا شائد ہی اور کوئی کرسکے ‘‘ مسز ناظمہ نے یاور نسیم کے کام کی تعریف دل کی گہرائیوں سے کرتے ہوئے بر ملا اظہار کیا ۔
دوسری طرف ان کی شہرت اور کام سے متاثر ہوکر ناظمہ جو خود بھی حقوق نسواں کے لئے ایک تنظیم چلاتی تھی، نے یاور نسیم کو شادی کا پیغام دے دیا اور مختصر وقت میں یہ شادی ہو گئی ۔ دونوں میاں بیوی مل کر حقوق نسواں کیلئے جلسے جلوس کرتے۔ اس طرح دونوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا ۔
پچھلے چند سالوں سے یاور نسیم نے اپنی سرگرمیاں بہت کم کردی تھیں اور اب اُن کی سرگرمیاں بالکل نہ کے برابر رہ گئی تھیں ۔ اس لئے خواتین کی شہری و بلدیاتی انجمنوں، جو ہمیشہ اُن سے مدد کی طالب رہتی تھیں، کو اُن کا تعاون حاصل کرنے کے لئے اُن کے گھر رُخ کرنا پڑتا تھا ۔ لیکن مسز ناظمہ کی سرگرمیوں میں مزید تیزی آرہی تھی۔ اور اُن کی سر گرمیوں میں دن بدن اضافہ ہوا تھا ۔
اس بیچ یاور نسیم کی’’ حقوق نسواں ‘‘پر جو پریس کانفرنس ہوئی اس نے الیکٹرانک میڈیا میں کا فی دھوم مچا دی ،چاروں طرف شور برپا ہوا تھا ۔ہر نیوز چینل میں بس یہیں خبر چل رہی تھی ۔ ٹی والے کیمرے اُٹھا اُٹھا کر یاور نسیم اور مسز یاور نسیم کے پیچھے پڑے ہوئے تھے ۔ کیوں کہ پریس کانفرنس کے دوران حقوق نسواں کو لے کر یاور نسیم نے جو باتیں کی تھیں وہ ایسی دھماکہ خیز تھیں کہ ہر کوئی سوچنے پر مجبور ہورہا تھا ۔ہر کسی کے ذہن میں حقوق نسواں کو لے کر طرح طرح کے شکوک و شبہات جنم لے رہے تھے۔ کیونکہ پریس کانفرنس میں یاور نسیم کے دعوے ہی ایسے تھے۔
انہوں نے اس پریس کانفرنس میں حقوق نسواں پر کہا کہ میں نے اپنی زندگی کے تیس قیمتی سال خواتین کے حقوق کو لے کر آواز بلند کرنے اور اُن کی بازیابی کو ممکن بنانے میںکوئی کسر نہ چھوڑی اور ظلم و ستم کا شکار خواتین کو انصاف دلانے میں کبھی کسی قسم کی کاہلی کا مظاہرہ نہیں ہونے دیااور جب میری شادی ناظمہ جی، جو خود بھی ایک متحرک رکن ہیں، سے ہوئی تو حقوق ِ نسواں کی بازیابی کی اس مہم میں مزید تیزی آئی اور ہم نے بہت سارے مثالی کام کئے اور ہمیں بہت ساری کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں ۔
لیکن رفتہ رفتہ میں میں کمزور پڑ گیا ،مجھ میں حوصلہ نہ رہا، لہٰذا میں پیچھے ہٹ گیا ۔میری شریکِ حیات مسز ناظمہ نے کبھی ہمت نہ ہاری۔ اس میدان میں مثالی کارنامے انجام دے رہی ہیں۔ آج میں نے ہمیشہ کیلئے اس کا م کو الوداع کہنے کا عزم کر لیا ہے ۔ اب اس کام کو جاری رکھنے سے میں قاصر ہوں ۔
’’ میں حوصلہ ہار گیا اس کارِ خیر کو جاری رکھنے میں اس میں قصور میرا نہیں ہے ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ میں اب ضعیف ہو گیا ہوں یا مجھ میں سکت نہ رہی ہو بلکہ میری حوصلہ شکنی کی وجہ بھی وہی عورت ہے، جس کے حقوق کے لئے کبھی میں نے اپنی زندگی دائو پر لگا دی تھی ۔
زندگی کے اس موڑ پر آکر مجھے احساس ہوا کہ مظلوم یا حقوق سے محروم اس سماج میں صرف خواتین ہی نہیں ہوتی ہیں،اس سماج میں بہت سارے مرد بھی اپنے حقوق سے محروم زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ فقط مظلوم عورتیں ہی ظالم مردوں کے ظلم کے شکار ہوتی ہیں بلکہ بہت سارے مظلوم مرد بھی خواتین کے ظلم کا نشانہ نہ بنے ہوئے ہیں ۔ گھر کی چار دیواری کے حصار میں صرف عورتیں ہی گھٹ گھٹ کر نہیںجیتی ہیں بلکہ بہت سارے مرد بھی اسی گھر کی چہار دیواری کے اندر نہ صر ف گھٹ گھٹ بلکہ خون کے آنسوپیتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں اور اس کی سب سے بڑی مثال میں خود ہوں ۔ ‘‘ (تھوڑا توقف کرنے کے بعد )
’’ میری عورت مسز ناظمہ خوبصورت مردوں کی رسیا ہے ، اُس پر امیر مردوں کا بھوت سوار ہے ، اور جب رات گئے پارٹیوں میں جانے اور ان سب بُر ی باتوں سے میں اُسے منع کرتا ہوں تو وہ مجھ سے مار پیٹ کرتی ہے ، اس لئے آج میں اُن کو طلاق دینے اور اُن سے طلاق لینے پر مجبور ہوں ۔ ‘‘
���
دراس کرگل لداخ
موبائل نمبر؛8082713692