اخبارات میں شائع ہونے والے افسانوں کو عام طور پر عامیانہ اور غیر معیاری تخلیقات سمجھنے کا رجحان ادیبوں میںعام ہے لیکن کبھی کبھار ان نظرانداز کئے جانے والے افسانوں میں کوئی ایسا افسانہ بھی ہوتا ہے جو اپنی تاثیر، آفافیت اور مقصدیت کے اعتبار سے خصوصی توجہ اور پذیرائی کا مستحق سمجھا جاسکتا ہے۔ طارق شبنم کا افسانہ ’’ٹھنڈا جہنم‘‘ بھی ایک ایسا ہی خاص اور قابلِ توجہ افسانہ ہے۔ یہ افسانہ شائد پہلے ’’کشمیر عظمیٰ‘‘ میں چھپ چکا تھا، بہرحال اب ایک بار پھر قند مکرر کے طور پر اسی روزنامے کی مورخہ 3تاریخ مارچ 2019والی اشاعت میں شائع ہوکر سامنے آگیا ہے۔ اس افسانے کی خوبیوں اور تاثیر کی داد نہ دینا میرے نزدیک بخل اور مجرمانہ غفلت کے مترادف ہوگا۔ سو آیئے اس تخلیق کے کچھ محاسن پر بات ہوجائے۔
اس افسانے کا نام بے حد خوب صورت پُرمغز اور مناسب ہے۔ جہنم تو عموماً آگ اور آگ میں تڑپ تڑپ کے سزائیں بھگتنے کی تصویر ہی ذہن میں لاتا ہے لیکن طارق شبنم جس جہنم کی بات کرتے ہیں وہ انتہائی سرد اور برفیلا ہے۔ بظاہر یہ ہند و پاک کے درمیان کشیدگی کی آماجگاہ بنا سیاچن گلیشیر یا ایسی ہی کوئی کوہستانی جگہ ہے اور دو متحارب فوجوں کی ٹکڑیوں کے عذاب و عتاب سے متعلق ہے۔
متعدد فنی محاسن کا حامل ’’ٹھنڈا جہنم‘‘ برتی گئی صاف ستھری اور بے عیب زبان کے باعث اولین فرصت میں ہی قاری کو متاثر کرنے والا افسانہ ہے۔ طارق شبنم کا تعلق وادی کشمیر سے ہے اور جب ہم کشمیر کے معاصر افسانہ نگاروں کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے انہیں پڑھتے ہیں تو زبان و بیان پر اُن کی قدرت قابلِ تعریف نظر آتی ہے۔ کشمیر میں 1947کے بعد اردو افسانہ نگاروں کی بڑی کھیپ سامنے آچکی ہے اور ان میں سے کئی ضرورت سے زیادہ پُرجوش اور عجلت پسندہیں، جو اس عجلت پسندی کی وجہ سے زبان و بیان کے تخلیقی استعمال سے ہی کیا عام نثر کے لئے لازمی قواعد کی پابندی سے بھی قاصر لگتے ہیں۔ مثال کے بعد پر ایک سرکردہ افسانہ نگار کے ایک افسانے میں موجود ان جملوں کو ہی دیکھ لیجئے؛
’’اس کے بعد ہم باتیں کرتے رہے۔۔۔۔ کشمیر کے ان لوگوں کی باتیں جو جھیل وُلر کی وسیع گہرائیوں میں خار دار سنگھاڑوں کے لئے غوطے لگاتے ہیں۔۔۔‘‘
توجہ طلب بلکہ اشتعال آمیز بات یہ ہے کہ موصوف جھیلوں اور جھرنوں کے وطن کا باشندہ ہوکر اتنا بھی نہیں جانتے کہ سنگھاڑے جھیلوں کی گہرائیوں میں اُگتے ضرور ہیں لیکن ان کی فصل سطح آب پہ ملتی ہے۔ پھرحصول فصل کیلئے ’’ وسیع گہرائیوں‘‘ میں اُترنے سے بھلا کیا مطلب لیاجاسکتاہے، کہنا تو چاہئے تھا کہ پانی کی گہرائیوں میں یا بہت گہری جھیل میں غوطے لگاتے تھے’’وسیع گہرائیوں‘‘ کا استعمال غیر رسمی، غیر منطقی اور مضحکہ خیز بھی ہے۔ ایک اور معاصر افسانہ نگار بھی زود گوئی اور زود نویسی میں مبتلا ہونے کے باعث ایک ریاستی سطح کی ادبی مجلس میں نظامت کا فرض نبھاتے ہوئے بہ تکرار ’’برائے مہربانی کرکے‘‘ بولتے پائے گئے تو اُنہیں لقمہ بھی دیا گیا لیکن موٹی چمڑی کے باعث اپنی غلطی سے باز نہ آسکے اور چھوٹے چھوٹے بچوں تک کو طنز و تضحیک کا موقع دیتے رہے۔ ایسے حالات میں طارق شبنم کی بے عیب اور پُرکار زبان یقیناً قابل تعریف ہے۔
جہاں تک اس افسانے کے متن و مواد کا تعلق ہے وہ بہت ہی دلچسپ اور بصیرت افروز ہے۔ اردو میں کچھ عرصہ سے ڈرامائیت اور افسانویت سے عاری عام زندگی کے بے لطف واقعات ہی پیش کئے جانے کا رواج عام ہوچکا ہے، جس کی وجہ سے پڑھنے کے ساتھ ہی اُنہیں بُھلا دیا جاتا ہے یا پھر پڑھاہی نہیں جاتا ہے۔ اسی طرح محض نئے پن کا تجربہ کرتے ہوئے پریشان خیالی کو زبان بخشی جاتی ہے۔ اس بات کا خیال کم ہی رکھا جاتا ہے کہ افسانہ کی سیاسی، سماجی یا اقتصادی معاملے یا واقعے کی راست، سپاٹ اور بے مطلب عکاسی کرتا ہو۔ دیرپااثرات نقش کرنے کے لئے لازمی ہوتا ہے کہ افسانہ نگار زندگی میں خوب سے خوب تر حالات کا خواہشمند اور ایک مثبت سوچ کا حامل بھی ہو، ساتھ ہی قارئین و سامعین (بلکہ ناظرین) کو بھی مسرت انگیز اور پرلطف انداز میں اسی مثبت سوچ کا حصہ بنادے۔ محض مسرت کا حصول ہی اچھے شعر و ادب کا مقصد نہیںہو سکتا، اِسے اصل میں تعمیری سوچ میں بھی ممدو مددگار ہونا چاہئے۔ اس اعتبار سے بھی ’’ٹھنڈا جہنم‘‘ ایک کامیاب اور بامقصد افسانہ ہے۔ اس میں کہانی اُس حالتِ زار اور زندہ درگور لوگوں کے حقیقی احساسات کی ہے جو قدرت کی وجہ سے نہیں بلکہ بااختیار انسانوں کی خودغرضی اور انانیت کی زائیدہ تصادم آرائی کے باعث اُن پر تھوپی گئی ہے۔برف سے ڈھکے پہاڑی علاقے میں دو متحارب فوجوں کو دکھایا گیا ہے۔ میجر وشال (جوبظاہر ہندوستانی فوج کا افسر ہے) دشمن فوجیوں کو بلا جواز سرحد کے اس طرف داخل ہونے اور قابض ہونے پر انہیں للکارتا ہے۔ دشمن فوجی( پاکستان کی فوج کا) ایک باریش آفیسر کو خیمے میں سنبھالے ہوئے ہیں اور زیر قبضہ علاقے سے نہ نکلنے پر بضد ہیں۔ مضروب پاکستان افسر اس موقعے پر میجر وشال سے ایک دشمن کی طرح نہیں بلکہ گوشت پوست والے ایک عام انسان کی طرح دل کی بات کہتا ہے اور ساتھ ہی کہتا ہے کہ مرتے وقت کوئی جھوٹ بول بھی نہیں سکتا۔ اس کی بات دل کو چھو جاتی ہے۔ وہ متحارب فوجیوں کو اس تیرا میرا علاقہ کہنے کو غلط اور بے معنی قرار دیتاہے۔ اُس کے لئے برف سے ڈھکی یہ جگہ فی الحقیقت انسانوں کے بود و باش کے لائق کوئی جگہ ہی نہیں بلکہ محض ایک ٹھنڈا جہنم ہے۔ انکی بات سیاسی مقاصد والی خون ریزی، جنگ و جدل اور آپسی نفرت سے باز آنے کی ایک بیحد پُرتاثیر دعوت ہے اور یہی طارق شبنم کی کامیابی اور سرخ روئی کا جواز بھی ہے۔
���
رابطہ؛بمنہ سرینگر،کشمیر