2 فروری 2019ء کی صبح کو میں باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجو ری (جموں وکشمیر)کے مولانا آزاد ہوسٹل کے کمرہ نمبر 105میں بیٹھا لکھنے پڑھنے میں مصروف تھا کہ اسی دوران جناب پروفیسر قدوس جاوید نے مجھے یہ مایوس کن خبر سنائی کہ پروفیسر ظہورالدّین صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے!مجھ پہ لمحہ بھر کے لیے سکتہ سا طاری ہوگیا۔دل میں غم کی اک ہوک سی اُٹھی۔یہ احسا س رگ رگ میں اُتر گیا کہ بے شک ہم اللہ ہی کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔میں نے اپنے بہت سے دوست واحباب کو یہ مایوس کن خبر سنائی ۔ دہلی سے ڈاکٹر مشتاق قادری صاحب کا فون آیا، انہوں نے بھی استاد محترم پروفیسر ظہورالدّین کے گزرجانے پر دُکھ کااظہار کیا۔ میری اہلیہ نے مجھے فون پہ اطلاع دی کہ جنازہ پانچ بجے ریہاڑی قبرستان (جموں )میں رکھا گیا ہے ۔میرے دوست ڈاکٹر عبدالحق نعیمی سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئی کہ جنازہ پانچ بجے ہوگا۔میں نے جنازے میں شرکت کی غرض سے گاڑی کی رفتار تیز کردی اور پورے چار بج کر دس منٹ پر ریہاڑی قبرستان پہنچ گیا۔ وہاں لوگوں کا ایک ہجوم موجود تھا ۔نماز عصر پڑھنے کے بعد نماز جنازہ پڑھی گئی اور پھر اُستاد محترم کوسپردخاک کیا گیا!وہ ہم سب کی نظروں سے دور چلے گئے ،نہ ختم ہونے والی جدائی کے ساتھ! میں نے اپنے استاد محترم پروفیسر ظہورالدین کے ساتھ اٹھائیس سال کا طویل زمانہ گزارا ہے ۔وہ ایک قابل ترین ،محنتی،اصول پرست اور خوش مزاج انسان تھے۔گزشتہ اٹھائیس برسوں پر جب دھیان دیتا ہوں تو کئی یادیں مجھے بے چین کردیتی ہیں۔1985ء میں جب میں گورنمنٹ ڈگری کالج بھدرواہ میں بی اے فائنل کا امتحان دے رہا تھا، تو میں نے پروفیسر ظہورالدّین صاحب کو پہلی بار دیکھا ۔ ان کے ساتھ پروفیسر وی پی سُوری شعبہ تعلیمات جموں یونیورسٹی کو بھی بحیثیت معائنہ کار بھیجا گیا تھا۔امتحان میں نقل کی روک تھام کے لیے انھیں جموں یونیورسٹی کی طرف سے بھدرواہ بھیجا گیا تھا۔مجھے اچھی طرح یاد ہے بی اے فائنل کے پہلے پرچے سے لے کر آخری پرچے تک تقریباً ایک سوکے قریب نقل کرنے والے طالب علموں کو تین سال کے لیے امتحان سے برطرف کیا گیا تھا ۔
1986ء میں نے جموں یونیورسٹی کے تحت اردو میں ایم اے کرنے کا پروگرام بنایا ،فارم بھرا توسیٹ مل گئی ۔اس زمانے میں زیادہ تر شعبہ جات اور یونیورسٹی انتظامیہ کی عمارت کنال روڈ کے قریب ہواکرتی تھی ،اسے اولڈ کیمپس کہا جاتا تھا۔میرے بہنوئی پروفیسر محمد اسداللہ وانی صاحب مجھے اردوشعبے میں لے گئے اور پروفیسر ظہورالدًین صاحب سے میری ملاقات کروائی۔ پروفیسر منظر اعظمی صاحب ،پروفیسرظہور الدًین صاحب ،پروفیسر خورشید حمرا صدیقی صاحبہ او رپروفسیر نصرت آراء چودھری صاحبہ ایک ہی کمرے میں بیٹھا کرتے تھے۔پروفیسر شیام لعل کالرا المعروف عابد پیشاوری صدر شعبہ ہوا کرتے تھے اور پروفیسر جگن ناتھ آزاد کاؔ اپنا ایک مخصوص کمرہ تھا۔شعبے کے یہ تمام اساتذہ بہت اچھے تھے خاص کر پروفیسر ظہورالدّین صاحب کا طریقہء درس وتدریس بالکل منفرد تھا ۔ان کی پُر وقار اور بارعب شخصیت میں یہ بات شامل تھی کہ جونہی وہ کلاس میں داخل ہوتے تو طلبہ وطالبات بالکل خاموش ہوجاتے۔بڑی روانی کے ساتھ زبانی لیکچر دیتے تھے اور آخر پر طلبہ کی تشفی کے لیے انھیں اس بات کا موقع دیتے تھے کہ وہ ان سے سوالات پوچھیں۔اردو ہی کی طرح انھیں انگریزی پر بھی کافی عبور حاصل تھا ۔ پہلے سمسٹر ہی میں انھوں نے مجھے اپنے افسانوں کا مجموعہ ’’کینی بلز ‘‘ دیا تھاجسے میں نے چنددنوں میں پڑھ ڈالا تھا۔سنسکرت شعریات سے متاثر ہوکر انھوں نے ’’تفکرات‘‘کے نام سے ایک کتابچہ تیار کیا تھا ،جو میں نے ان سے مانگ کے لیا ۔اس کتابچے میںانسانی جذبات کی قسمیں بیان کی گئی تھیں۔
1987ء میں جب میں اسکول ٹیچر بھرتی ہوا تو بادل ناخواستہ اردو شعبے سے دور ہوگیا ۔مجھے لکھنے پڑھنے کا شوق بہت زیادہ تھا، اس لیے 1988ء میں اردو میں ایم اے کرنے کے فوراً بعد میں نے پی ایچ ڈی کرنے کا پروگرام بنایا لیکن ملازمت کی مدت تین سال نہ ہونے کی وجہ سے مجھے اپنے محکمے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا اجازت نامہ نہیں مل سکا۔1990ء میں ، میں نے پی ایچ ڈی کا فارم بھرا ، ساتھ ہی ڈائر یکٹر اسکول ایجوکیشن سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا اجازت نامے کے حصول کے لئے فارم بھردیا ۔ تقریباً چھ ماہ سے زائد عرصہ گزرجانے کے بعد مجھے اجازت نامہ موصول ہوااور پروفیسر شیام لعل کالرا صاحب کی نگرانی میں ’’تلوک چند محروم :حیات اور ادبی خدمات‘‘ کے موضوع پر تحقیق کرنا طے پایا۔یہ موضوع چودہ ابواب پر مشتمل تھا۔1991ء میں یہ موضوع کسی اور امیدوار کودیا گیا۔میں نے ہمت نہیں ہاری ۔ 1993ء میں ،میں نے دوبارہ پی ایچ ڈی کا فارم بھرا اور اب کی بار میں نے یہ مصمم ارادہ کیا کہ پروفیسر ظہورالدًین صاحب کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کروں گا۔میں ان کے پاس آیا اور اپنی خواہش کا اظہار کیا ۔ وہ اس زمانے میں صدر شعبہ تھے۔ میں نے انھیں کہا:’’ سر۔۔میں آپ کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں‘‘۔انھوں نے کہا:’’ اچھی بات ہے لیکن یہ بتائیے کہ آپ کا ذہنی میلان ادب کی کس صنف کی طرف ہے؟‘‘میں نے کہا: ’’فکشن ‘‘پھر بولے ’’ہاں اگر یہ بات ہے تو دوآدمی اب تک ایک موضوع چھوڑ چکے ہیں ،میں اس پہ کام کروانا چاہتا ہوں ۔کیا آپ اس کے لیے تیار ہیں؟‘‘
میں نے کہا’’ہاں سر میں تیار ہوں ۔موضوع بتایئے‘‘
انھوں نے کہا’’ موضوع ہے ’’تقسیم کے بعد اردو ناول میں تہذیبی بحران‘‘کل میرے پاس آیئے اور اس موضوع کا خاکہ مجھ سے لے جایئے۔‘‘میں نے بہت خوشی محسوس کی۔دوسرے دن جب انھوں نے مجھے مذکورہ موضوع کا خاکہ دکھایا تو میں پریشان ہوگیا ۔موضوع واقعی بہت زیادہ مشکل تھا ۔میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے پوچھا: ’’سر! یہ لفظ ’بحران‘میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے ۔یہ بحران کیا ہوتا ہے؟ ‘‘ ظہور صاحب تھوڑا سا مسکرائے ،پھر بولے: ’’ایک ایسی اُتھل پتھل اور تشویش ناک ماحول کا پیدا ہونا کہ اس سے نکلنے کی کوئی صورت نظر نہ آئے، اسے بحران کہتے ہیں اور انگریزی میں اسے Cricisکہتے ہیں،یا یوں سمجھ لیجیے کہ اگر کوئی کشتی سمندر میں کسی طوفان کی زد میں آجائے تو اس میں سوار لوگوں کی جو ذہنی کیفیت رہے گی، اسے بحران سے تعبیر کیا جا ئے گا۔آپ کو اردو ناولوں میں تہذیبی بحران کی نشاندہی کرنی ہے‘‘میرے اس موضوع کو پانچ ابواب میں منقسم کیا گیا تھا ۔پہلے باب کا تعلق جدید تہذیبی بحران سے تھا۔دوسرے باب میں اقوام عالم میں تہذیبی بحران کو شامل کیا گیا تھا۔تیسرے باب میں یہ ثابت کرنا تھا کہ اردو ناول میں جدید تہذیبی بحران کی عکاسی ذہنی،سیاسی، سماجی، تعلیمی،اقتصادی،مذہبی اور ازدواجی اعتبار سے کس حد تک نظر آرہی ہے۔چوتھے باب کا تعلق موضوعاتی اور ہئیتی اعتبار سے تہذیبی بحران کا اردو ناول پر اثر سے تھا اور پانچویں باب میں محاکمہ رکھا گیا تھا۔ان چاروں ابواب میں بہت سے ذیلی عنوانات رکھے گئے تھے جن تک میری ذہنی رسائی اور مواد کی فراہمی مجھے مشکل نظر آرہی تھی لیکن اس کے باوجود میں نے اللہ کا نام لے کر اس موضوع سے متعلق مضامین اور کتابیںخرید کر پڑھنا شروع کیا۔پارٹ ٹائم ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے مجھے یہ کام اور بھی مشکل نظر آرہا تھا۔ان دنوں میں ایک پرائمری اسکول کا ٹیچر تھا ۔مجھے پری پی ایچ ڈی کا کورس کرنے کے لیے چھٹی لے کر جموں آنا پڑا ۔غالباً اپریل 1994 ء میں میرا نام پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹرڈ ہوا۔پہلا باب لکھنے سے پہلے میں ایک روز ظہور صاحب کے پاس آیا اور ان سے کہا : ’’سر۔۔میں چاہتا ہوں آپ مجھے اُ ن ناولوں کے نام بتائیں جو تہذیبی بحران کے زُمرے میں آتے ہیں‘‘وہ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود میری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے’:’دیکھٔے جب ہم اردوناول میں تہذیبی بحران کی بات کرتے ہیں تو اس کے ابتدائی نقوش ہمیں پنڈت رتن ناتھ سرشار ؔکے ناول ’’فسانہ آزاد‘‘میں نظر آنے لگتے ہیں ۔گویا تقسیم ہند سے قبل بھی کچھ ناول ایسے ضرور ہیں جن میں تہذ یبی بحران کی جھلکیاں موجود ہیں۔ آپ کچھ ناولوں کے نام نوٹ کیجیے‘‘انہوں نے پنڈت رتن ناتھ سرشارؔ کے ناول ’’فسانۂ آزاد‘‘ سے سفر شروع کیا اور الیاس احمد گدی کے ناول ’’فائر ایریا‘‘تک 19ناول لکھا لیے۔میں نے ایک ٹھندی آہ بھری ، ظہور صاحب کی طرف حسرت بھری نظروں سے دیکھا ۔انھوں نے بھی میری طرف مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا : ’’مجھے اُمید ہے آپ اس موضوع پہ کام کریں گے‘‘ پہلے باب سے متعلق جب میں نے بہت سی کتابیں خرید کرپڑھیں اور نوٹس لیے تو ذہن لکھنے پر آمادہ ہوا۔تقریباً دو ماہ کے بعد جب میرا پہلا باب مکمل ہوا تو میں اپنے گاوں مانتلائی سے چنہنی آیا ۔ ایس ٹی ڈی سے ظہور صاحب کو فون کیا ،جموں ان کے گھر میں لینڈ لائن فون ہوتا تھا۔اس زمانے میں آج کی طرح موبائل فون اور انٹر نیٹ کی کوئی بھی سہولت نہیں تھی ۔ میں نے اپنا پہلا باب چیک کروانے کے بارے میں ان سے بات کی تو انھوں نے فوراً حامی بھرلی اور مجھے اتوار کے دن شعبۂ اردو میں آنے کو کہا۔وہ اکثر اتوار کے دن بھی چند گھنٹوں کے لیے شعبے میں آتے تھے۔مقر رہ تاریخ پر جب میں اپنا کام لے کرشعبئہ اردو میں پہنچا تو ظہور صاحب اپنے کمرے میں بیٹھ چکے تھے۔علیک سلیک کے بعد جب میں نے اپنی فائل اُن کے سامنے رکھی تو کام چیک کرنے سے پہلے کہنے لگے:’’میں ریسرچ اسکالر کو محنت سے کام کروانے کا عادی ہوں ۔تحقیق کاکام نہایت صبر آزما اور دقّت طلب کام ہوتا ہے۔مطالعہ وسیع اور مشاہدہ گہرا ہونا چاہیے۔آپ ڈگری کے لیے کام نہ کیجیے بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اس کام سے ادب میں آپ کی ایک شناخت قائم ہو‘‘۔میں نے دھیان سے ان کی باتیں سنیں اور ان پر عمل کرنے کی ٹھان لی۔بہ فضل اللہ میرے تحقیقی کام میں انھیں بہت کم غلطیاں نظر آتی تھیں، جن کی وہ سرخ قلم سے نشاندہی کرتے تھے۔تقریباً پچاسو صفحے وہ ایک ہی نشست میں پڑھ لیتے تھے۔زبان کی باریکیوں پر خاص دھیان دیتے تھے، تحقیق کے اصولوں پر سختی سے پابندی کراتے تھے۔عالمانہ زبان وبیان کو بہت پسند کرتے تھے۔ساڑھے تین سال میں ،میں نے تین باب مکمل کردیے اور جب چوتھے باب پر آیا تو اس پر اٹک گیا۔اس باب میں مجھے تہذیبی بحران کا ا ردو ناول پر موضوعاتی،ہئیتی اور زبان و بیان کے اعتبار سے اثرات کی نشاندہی کرنا تھی۔پہلی بار چوتھا باب لکھنے کے بعد جب میں نے اسے ظہور صاحب کو دیکھا یا توآدھاگھنٹہ پڑھنے کے بعد انھوں نے کہا’’اس میں تو وہ بات آئی نہیں جو میں چاہتا ہوں۔اسے دوبارہ لکھ کے لے آیئے۔پہلے اس موضوع کے بارے میں پڑھئے،پھر سوچئے اور اس کے بعد لکھئے:۔‘میں تھوڑا سامایوس ہوا۔مرحوم ظہور صاحب ریسرچ اسکالر سے یہ اُمید رکھتے تھے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنے ذہن کا استعمال کرے۔کاتا اور لے دوڑی والی بات انہیں ناپسندتھی۔تقریباً بیس دن کے بعد جب میں دوبارہ ان کے پاس لکھ کے لے گیا تو انہوں نے پھر وہی بات دہرائی : ’’ وہ بات نہیں بن پارہی ہے جو میں چاہتا ہوں۔اسے دوبارہ لکھ کے لے آئیے‘‘ میری مایوسی میں حیرت شامل ہوگئی۔میں اٹھا اور بوجھل قدموں سے ظہور صاحب سے رخصت ہوگیا ۔تیسری بارپھر اس اُمید کے ساتھ لکھ کے لے گیا کہ اب یہ قابل قبول ہوگا لیکن انھوں نے جونہی کوئی دو صفحے پڑھے تو ان کے چہرے پہ ناگواری کے آثار اُبھر آئے ، کہنے لگے:’’آپ موضوع سے باہر جارہے ہیں ،ہمیں موضوعاتی اور ہئیتی اعتبار سے اردو ناول میں تہذیبی بحران تلاش کرنا ہے۔بیان بازی سے کام نہیں چلے گا ۔ معتبر حوالے دیجیے‘‘ میرے ماتھے پہ پسینے کے قطرے جم گئے۔ اب کی بارمیں کافی مایوس ہوا۔انہوں نے فائل میرے حوالے کی ۔میں ان کے کمرے سے باہر نکل آیا اور ذہنی کوفتوں سے مغلوب ہوکر دل نے چاہا کہ میں پی ایچ ڈی نہیں کروںگالیکن دوسرے ہی لمحے میں نے اس احمقانہ خیال کو ذہن سے نکال دیا۔گھر پہنچا تو دیکھا کہ گھر میں ڈاکیہ نے لکھنو کے پبلشر کی ارسال کردہ میرے نام ایک فہرست کتب ڈال دی تھی۔میں نے اس فہرست کتب پر نظریں دوڑائیں تو جدید نال کے فن پر چند کتابیں نظر آئیں۔میں نے فوراً بذریعہ ڈاک یہ کتابیں منگوالیں۔کوئی دس دن کے اندر مجھے یہ کتابیں موصول ہوئیں ۔میں نے ذہنی یکسوئی کے ساتھ لفظ لفظ انہیںپڑھا ،بہت سی نئی معلومات حاصل ہوئیں۔جب مجھے اس بات کا اطمینان ہوا کہ اب مجھے کیا لکھنا ہے اور کیا نہیں لکھنا ہے تو میں نے ذہن میں پھر سے ایک خاکہ تیار کیا ۔معتبر حوالوں کا انتخاب کیا اور لکھنے سے پہلے دو رکعت صلوٰۃ الحاجات پڑھی اور اللہ کا نام لے کر لکھنے بیٹھ گیا، تقریباً اٹھارہ دن میں ،میں نے چوتھا باب مکمل طور لکھ ڈالا۔میں نے ظہور صاحب سے فون پہ رابطہ قائم کیا، انھوں نے اتوار کے دن شعبے میں آنے کی اجازت دے دی۔اس روز میں ظہور صاحب کے آنے سے پہلے ہی شعبے میں پہنچ گیا ۔کچھ ہی وقت کے بعد مجھے ان کی گاڑی آتی نظر آئی ۔میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔وہ گاڑی سے اُترے تو میں نے سلام کیا۔ڈرتے ڈرتے ان کے کمرے میں داخل ہوا۔وہ کرسی پر بیٹھ گئے ، چپراسی سے پانی منگوایا۔پانی پینے کے بعد مجھ سے فائل مانگی، اُدھر میرا کام چیک کرنے لگے او ر ادھر میں ذکر الٰہی میں لگ گیا ۔کوئی دوگھنٹے گزرجانے کے بعد انھوں نے کہا:’’اب آپ راہ راست پر آگئے ہیں ‘‘اس کے بعد وہ مسلسل باقی کام دیکھتے رہے ۔ پورا باب چیک کرنے کے بعد انھوں نے مجھے فائل پکڑاتے ہوئے کہا:’’بہت اچھا یہ لیجیے‘‘مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے آج میرے سر سے منوں بوجھ اُتر گیا ہو۔پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھنے کے بعد میں نے اس کی کتابت خود کی تھی۔اس طرح پورے ساڑھے چار سال کے بعد مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ اس تحقیقی مقالے میں میری محنت ولگن،ذوق وشوق اور صبر آزمائی کے علاوہ میرے شفیق استاد محترم پروفیسر ظہورالدّین کی دیاتندارانہ رہنمائی شامل تھی، اس لیے یہ مقالہ محنت شاقہ اور ادبی معیار کا حامل قرار پایا ۔ یہی وجہ رہی کہ 2002ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی جیسے اردو کے ایک بڑے ادارے نے مجھ سے یہ فرمائش کی کہ ہم اسے کتابی صورت میں شائع کرنا چاہتے ہیں۔452صفحات پہ مشتمل میرے اس تحقیقی مقالے کو اردو ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔مجھ جیسے ناچیز کی یہ کتاب یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں حوالہ جاتی کتب میں شامل ہے۔
میرا یہ ماننا ہے کہ والدین اپنی اولاد کے روشن مستقبل کے لیے کیاکچھ نہیں کرتے لیکن جہاں تک ایک بہترین استاد کی استادی کا تعلق ہے وہ منارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے ۔پروفیسر ظہورالدّین صاحب ایک اچھے انسان تو تھے ہی ایک بہترین استاد بھی تھے۔بہت زیادہ نفاست پسند ،سلیقہ شعار،اردو زبان وادب کے ماہر اور خیرخواہ ، تہذیب وشائستگی کے دلدادہ۔متانت وسنجیدگی کی ایک مجسم صورت تھے ۔وہ 27مئی 1942ء کو ایک دور دراز گاوں کھنیڈ،تحصیل رام نگر،ضلع ادھم پور ،صوبہ جموں میں پیدا ہوئے تھے۔ان کے والد صاحب خواجہ خضر دین پولیس میں تھانیدار تھے اور والدہ کانام تاج بیگم تھا۔ظہورالدّین صاحب کی ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے آبائی گاوں کھنیڈکے پرائمری اسکول سے ہوالیکن دوسری جماعت کے بعد ان کے والد صاحب کا تبادلہ بسوہلی ضلع کٹھوعہ ہوگیا ۔بعد میں اعلیٰ تعلیم جموں میں حاصل کی ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پروفیسر ظہورالدّین صاحب پولیس میں سب انسپکٹر کی ملازمت چھوڑ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں لگ گئے تھے۔پروفیسر گیان چند جین ان کے اُستاد رہ چکے تھے ،جن کی علمی وادبی صلاحیتوں سے موصوف بہت زیادہ متاثرتھے۔کتابیں پروفیسر ظہورالدّین صاحب کی زندگی کا اہم سرمایہ تھیں۔کئی علمی،ادبی اور لسانی مباحث پر ان کی کتابیں ان کی قد آور علمی وادبی شخصیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔وہ شاعر بھی تھے، ماہر عروض بھی، افسانہ نگاربھی،اعلیٰ پایہ کے محقّق وناقد بھی اور ایک قابل اعتماد مترجم بھی۔ان کی یادگار تصنیفات سے اردو کی نئی نسلیں مستفید ہوتی رہیں گی۔حق پرستی،خودداری،بے با کی اور غیر مصلحت پسندی یہ تمام خوبیاں ان کی شخصیت میں بدر جہ ٔ اتم موجود تھیں۔آیئے ان کی تصنیفات پر ایک نظر ڈالتے چلیں:
رابطہ 9419336120
(بقیہ منگل کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)