خطہ چناب کے بالائی علاقے پچھلے ڈیڑھ ماہ سے زائیدعرصہ سے بھاری برف تلے دبے ہوئے ہیں جہاں نہ ہی رسل و رسائل کی سہولت میسر ہے اور نہ ہی بجلی سمیت زندگی کی دیگر ضروریات ۔ رواں برس 21جنوری کو ہوئی طوفانی برفباری کے بعد سے یہ علاقے پوری طرح سے باقی دنیا سے منقطع ہیں اور اس کے بعد کئی مرتبہ مزیدبرفباری ہوچکی ہے جس نے پہلے سے جمع سفید پرت میں اضافہ کیا ہے ۔ امسال برفباری نے پچھلے کئی برسوں کا ریکارڈ توڑدیاہے اور ابھی بھی خطہ کے بالائی علاقوں میں کئی کئی فٹ برف جمع ہے، جس کی وجہ سے خاص طور پر مڑواہ ، واڑون، دچھن، پوگل پرستان،کھڑی اور رام بن ، کشتواڑ و ڈوڈہ کے دیگر بالائی علاقوں میں زندگی کانظام پوری طرح درہم برہم ہوکر رہ گیاہے ۔گزشتہ روز جہاں پوری ریاست میں سرمائی زون کے سکول دو ماہ اور دس دن کی تعطیلات کے بعد دوبارہ کھل گئے وہیں ان علاقوں کے سکول نہیں کھولے جاسکے کیونکہ سکولوں تک جانے کیلئے کوئی راستہ ہی میسر نہیںہے اور حالیہ برفباری کی وجہ سے درجنوں سکولوں کی عمارتیں گر کر تباہ ہوچکی ہیں ،جن کے اندر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنا طلباء کی زندگیوں سے کھیلنے کے مترادف ہے ۔صرف کشتواڑ ضلع میں دس سے زائد سکولوں کی عمارتوں کو برفباری کی وجہ سے نقصان پہنچاہے جبکہ اسی طرح سے رام بن اور ڈوڈہ کے بالائی علاقوں میں بھی کئی اسکولی عمارتیں یا تو پوری طرح ڈھہ گئی ہیں یاپھر ان کی چھتیں اڑ گئیں اور دیواروں کو نقصان پہنچا۔ان علاقوں کو فراہم دیگر سہولیات کی اگر بات کی جائے تو لگ بھگ دو ماہ سے بجلی کا نظام منقطع ہے اور سڑکیں تو دور کی بات چلنے کیلئے راستے بھی نہیں ۔یوں حکام نے پہاڑی علاقوں کے لوگوں کو مکمل طور پر حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھاہے اور انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ لوگوں کو کیسی کیسیمشکلات کاسامناکرناپڑرہاہے ۔حکام کی طرف سے برف ہٹاکر سڑکیں بحال کرنے اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے بجائے برف پگھل جانے کا انتظار کیاجارہاہے جس سے ان کی سنجیدگی اور دعوئوں پر سوالات اٹھتے ہیں ۔جموں میںبیٹھے افسران کو ان حقائق کا قطعی کوئی ادراک نہیں کہ خطہ چناب کے بالائی علاقوں کے لوگ کس طرح کے مسائل کاسامناکرنے پر مجبو ر ہیں ۔ان علاقوں کے لوگوں کو انتظامیہ سے یہ شکایت ہے کہ ریاست کے پہاڑی علاقے ہر معاملے میں پوری طرح سے نظرانداز ہیں اور انہیں اس جدید دور میں بھی زندگی کی بنیادی سہولیات تک میسر نہیں ۔عام حالات میں تو مقامی لوگ کسی نہ کسی طرح سے زندگی کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں لیکن جب کوئی ہنگامی صورتحال پیش آئے تو انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ تا ہے اور ایسے حال میںان کا کوئی پرسان حال نہیںہوتا اور حکام انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ان علاقوں کی عوام کو صرف برفباری سے پیدا شدہ مسائل کاسامنا ہی نہیں بلکہ انہیں سال بھر کئی طرح کی پریشانیوں کاسامنارہتاہے اور جہاں بیماروں و مریضوں کا علاج نہیں ہوپاتاوہیں تعلیم ، سڑک ، بجلی ،پانی اور راشن و دیگر سہولیات کا بھی فقدان رہتاہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پہاڑی علاقوں کے تئیں برتاجارہا سوتیلا سلوک ترک کیاجائے اور ان علاقوں کے عوام کو بھی وہ تمام تر سہولیات فراہم کی جائیں جو موجودہ دور کی ضرورت ہیں ۔