دورِ جاہلیت میں انسان درندوں سے بھی پست تر سفلی زندگی گزارتے تھے ۔انسانیت نام کی چیز خواب وخیال تھی۔اس گھور اندھیرمیں عورت سب سے زیادہ محکوم و مجبور تھی،اسے جنسی تسکین کا سامان سمجھا جاتا تھا، اس کے صنفی حقوق سلب اور شخصی آزادیاں مفقود تھیں، لوگ بیٹی پیدا ہونے کو اپنے لیے ذلت و رسوائی تصور کرتے تھے۔ چنانچہ سورہ نحل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :جب ان میں کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پرکلونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گونٹ پی کر رہ جاتا ہے، لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لئے رہے یا مٹی میں دبا دے دیکھو کیسے حکم ہیں جو یہ خدا کے بارے میں لگا تے ہیں‘‘ تاریکی کےاس دور کو اسلام کی روشنی سے بدلتے ہوئے زندگی کی کایا پلٹ ہونے کے ساتھ ساتھ عورت کو اپنا مقام ومرتبہ ملا کہ کسی مذہب یا ازم میں بنت حوا کو یہ درجہ ٔعالیہ حاصل ہی نہیں ۔ نبئ رحمت ﷺ نےجہاں بیٹی کو گھر کی رحمت کا لقب دیا ، وہیں اولاد کو ماں کے قدموں تلے جنت کی نوید سنائی ۔ اسلام میں عورت کی عزت وتکریم کا اندازہ اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ جب بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر تشریف لاتیں تو رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس ان کےا ستقبال کے لئے اُٹھ کھڑے ہو جاتے اور اپنی دختر ذی وقار کا دست مبارک پکڑ کر اپنی نشست گاہ کے قریب بٹھاتے۔اسلام کی آغوش میں آنے کےبعد بنتِ حوا کارگہہ ٔ زندگی میں عظیم المرتبت مقام پر فائز ہوئی ۔ ا س بارے میںمولانا مودودی اپنی شاہکار کتاب ’’پردہ‘‘ میں رقم طراز ہیں: یہ وہ حالات تھے کہ مکہ کے پہاڑوں کی پر نور کرنیں پورے جاہ و جلال کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں اور نہ صرف قانونی اور عملی حیثیت سے بلکہ ذہنی حیثیت سے بھی اسلام ایک عظیم انقلاب برپا کر دیتا ہے ۔اسلام ہی نے مرد اور عورت دونوں کو بدلا ہے ۔ عورت کی عزت اور اس کے حق کا تخیل ہی انسان کے دماغ اسلام کا پیدا کیا ہوا ہے۔آج حقوق نسواں، تعلیم نسواں اور بیدارئ اناث کے جو بلند بانگ نعرے پردئہ سماعت سے ٹکرا رہے ہیں، 'یہ اسی انقلاب انگیز صدا کی بازگشت ہے جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بلند ہوئی اور جس نے افکار انسانی کے رُخ کا دھارا پھیر دیا ' ، آپؐ ہی ہیں جنہوں نے دنیا کو بتایا کہ عورت بھی ویسی ہی انسان ہے جیسا مرد‘‘(پردہ ۱۸۹)
نام نہاد حقوق نسواں کے مغرب زدہ علمبردار آج کل مسلم خواتین کے پردے اور دیگر نسوانی احکامات پر اُنگلیاں اٹھاتے ہیں ،یہ لوگ بنت حوا کو ’’آزادی کی نیلم پری‘‘ کا نام دے کر بازاری اشتہاروںاور جنسی ہیجان بڑھانےو الے رسائل کی زینت بناتے ہیں اور اس چیز کو’’ آزادئ نسواں‘‘ اور ’’مساوات مردوزن‘‘ کا الٹانام دیتے ہیںلیکن اصل میں یہ عورت کے لئے زنجیروں اور سلاخوں کے پیچھے والے غلامی سے بھی بد تر غلامی ہے ۔اسلام نے کو عظمت خواتین کودی ہے ، اس پر انگلی اٹھانے والے خود اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہیں وہ آسمان کو تھوک تو نہیں رہےہیں ۔آیئے ہم ایک نظر ان ممالک پر ڈالیں جو نام نہاد حقوق نسواں اور آزادیٔ نسواں کے علمبردار بنے پھرتے ہیں مگر آیا یہ لوگ ان کی عزت وعصمت کو بچا پائے ہیں۔ ۲۰۰۷ کو بی بی سی نے ایک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا کہ برطانیہ میں ہر سال ۸۵۰۰۰ ؍عورتیں زنا بالجبر کا شکار ہوتی ہیں۔۲۰۰۹ میں این سی سی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۸ ؍ برس سے کم عمر کی ۲۵۰۰۰۰ لڑکیاں، جب کہ سولہ سے انسٹھ برس کے درمیان کی ۴۰۰۰۰۰ ؍خواتین ہر برس مردوں کی ہوس رانی کا جبری شکار ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں زیر بحث ممالک میں جنسی جرائم گمبھیر روپ اختیار کرچکے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق اس سال جو بھی جنسی زیادتیوں سے متاثر ہوئے ان میں سے ۸۵فی صداپنا مقدمہ پولیس میں درج ہی نہ کراسکیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کی مہیلایاعورت محکومیت و مظلومیت کے کس درجہ پر کھڑی ہے۔ اس مدت کے دوران ۲۰۰۳ ئ تک۵۰۰۰۰ ؍خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات پیش آئے جن میں صرف ۱۱۸۶۷ ا؍پنا مقدمہ درج کروا سکیں ۔ حد یہ کہ صرف ۶۲۹ ؍کو سزا ہوئی۔ امریکہ میں اس وقت خواتین کے خلاف وحشت ناک مظالم کی شرح برطانیہ سے بھی ۲۰ فیصد زیادہ بتائے جاتے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شعبہ انصاف کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۰ میں۵۵۶۰۰۰ جنسی جارحیت کے دردناک واقعات پیش آئے جب کہ ۱۹۹۵ میں اس کی تعداد ۲۷۰۰۰۰تھی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ان جرائم کی شرح کتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۵ میں صرف ۱۹۱۶۷۰ ریپ کے مقدمات کا اندراج ہوا، ۲۰۰۵-۲۰۱۰ کے درمیانی عرصے میں صرف ۳۶ فی صدجنسی جرائم کے مقدمات کو درج کیا گیا اور ۶۴فی صد نے ان مقدمات پر عدالتی کاروائی نہ کرنے کے نتیجے پر اپنی متعلقہ اداروں میں رپورٹ درج کرنے سے اجتناب کیا ۔ ان حقائق کو تجزیے کی بنیاد بناکرخود ہی بتایئے کیا بنت حواکو ’’آزادی ‘‘ کی آڑ میں اس کے اصل حقوق شب خون مارا گیا کہ نہیں۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر روز امریکہ میں ۴۵سیکنڈ بعد زندہ بالجبر کا ایک واقعہ پیش آتا ہے۔گویا عصر حاضر عصرمیں حواکی بیٹی کی حالت زمانہ ٔ جاہلیت سے بھی بدتر ہے ۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے بھارت میں آئے روز عورتوں پر جنسی زیادتیوں کے واقعات بلا ناغہ رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ا س وشال دیس میں جہاںایک عورت کو دیوی کہہ کر اسےپوجا جاتا ہے ،وہاں دوسری طرف ا س کے اردگرد بھیڑئے دیکھے جاتے ہیں جو اس کی عصمت وعزت کو نوچ دالتے ہیں ۔ بنابریں انڈیا میں وحشت ناک جنسی زیادتیوں کی شرح روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جنسی زیادتیوں،اغواءکاریوں، خواتین پر گھریلو تشدد، شوہر کے مظالم کے حوالے سے۳ لاکھ ۷۰ ہزار سے زائد شکایتیں متعلقہ ادراوں میں درج کروائی گئیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق سال ۲۰۱۴ میں ۳۳۷۰۷ جنسی جرائم کے مقدمات درج ہوئے ۔ اپنے تو اپنےاس دھرتی پر غیر ملکی خواتین سیاح بھی محفوظ نہیں ۔
دنیا بھر میں آج بھی حقوق نسواں اور آزادی نسواں کا اصل علمبردار اسلام ہے ۔ دین حق ایک مکمل ضابطہ حیات ہونے کے ناطے نہ صرف مرد کو بلکہ عورت کو بھی ہر حال میںعدل و انصاف فراہم کرتا ہے۔باطل افکار و نظریات میں عورت کو آزادئ نسواں کے نام پر استحصالی فریب دیا جاتا ہے لیکن دین اسلام میں عورت کو گھر کی شہزادی اور خاندان کی ملکہ کا درجہ دے کر اسے سماج میں ہر گند اور غلاظت سے پاک رکھنے کا پوار اہتمام کیا گیا ہے ۔یہی آزادئ نسواں اور حقوق ِنسواں کا دیباچہ ہے۔اس حوالے سے مولانا اشرف علی تھانوی کیا خوب لکھتے ہیں :’’ریل میں انسان اپنے پیسوں کو ظاہر نہیں کرتا بلکہ اندر کی بھی اندر والی جیب میں رکھتا ہے، اسی طرح عورت کو پردہ میں رکھنا چاہئے اور غیرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عورت پردہ میں رہے۔‘‘
{9596597568}