اختلاف اگر ہے بھی تو یاترا کی مدت اور یاتریوں کی تعداد کے متعلق ۔ پہلے پہل یاترا کی مدت صرف ۱۵ ؍دن ہواکرتی تھی جسے پس پردہ سازش کے تحت ۲ مہینے تک بڑھا دیا گیا اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں یاتری امرناتھ گھپا کا درشن کرنے آتے ہیں جس سے قدرتی طور انتہائی حساس fragileماحول پر کافی منفی اثرات پڑھتے ہیں۔ اس حوالے سے ریاست اور ریاست سے باہر ماہرین اور دانش وروں نے اپنی تشویش کا بار بار اظہار کرکے حکومت وقت کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ پریت پال سنکھ نے کچھ عرصہ قبل لکھا ’’امرناتھ یاترا کی ماحولیاتی گنجائش (carrying capacity ) 7500 ہے، لیکن رواںسال 3 جو لائی کو 15813 یاتریوں نے اس راستے پر سفر کیا جس کے نتیجے میں پورا راستہ تباہی کی طرف دھکیلا گیا‘‘۔کشمیرکے مشہورکالم نویس ارجمند طالب لکھتے ہیں:’’کشمیر میں پینے کے پانی کا 80 فیصد حصہ لدر اور سندھ نالے سے آتا ہے۔ ان دونوں آبی ذخائر کا اصل منبع وہ گلیشئر ہیں جو یاترا کی راہ میں آتے ہیں۔ ماحولیاتی ماہرین کے مطابق یاتریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے نتیجے میں انسانی مداخلت ماحولیاتی اعتبارسے ان نازک مقامات پر بڑھ رہی ہے جس سے مذکورہ قدرتی وسائل مخدوش ہو رہے ہیں اور یوں مستقبل میں اس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ سیاست سے الگ یہ خالص ماحولیاتی خدشات بھی نظرانداز کیے جاتے ہیں‘‘۔مشہور صحافی و تجزیہ نگار افتخارگیلانی لکھتے ہیں: ’’ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جبکہ دنیا موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو بھی ریگولیٹ کر رہے ہیں۔ حکومت بھارت کو بھی چاہیے کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے امرناتھ میں یاتریوں کی تعداد کو ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطہ نگاہ کے بجائے سائنسی نقطہ نگاہ سے غورکرے‘‘۔ اس سلسلے میں ہندوستان کی عدالت عالیہ کے اس فیصلے جس میں عدالت نے پختہ سڑک بنانے کے احکامات جاری کیے تھے، پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہی عدالت دیگر کیسوں میں ماحولیات کو بچانے کے لیے سخت مؤقف اختیار کرتی ہے‘‘۔الغرض اربابِ حل و عقد کو چاہیے کہ اس نازک مسئلہ کو فرقہ واریت یا ساست کے بجائے خالص ماحولیات کے تناطر میں دیکھ کر امرناتھ یاترا کو ریگولیٹ کریں۔نمکین چائے کے گھونٹ بھرنے کے ساتھ اس مسئلہ پر غور و فکر سے مزاج میں لطافت محسوس ہوئی۔ برادر یونس صاحب نے ریاض صاحب کو پیسے دیے اور ہم واپس ہوٹل آئے۔
برادر نثار صاحب جو دفتری مشغولیات کی وجہ سے سنیچر وار کو ہمارے ساتھ نہیں آسکے تھے۔ اتوار کی صبح نماز فجر ادا کرنے کے ساتھ ہی گھر سے پہلگام کی طرف نکل پڑے تھے۔ ہم نے تقریباً نو بجے ان کو فون کیا تو ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے کہا کہ وہ اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ عرصہ دراز سے جو ہمارا آپسی تعلق و یگانگت ہے یہ اسی انس و محبت کا ہی تقاضا تھا کہ ہم سے جڑنے کو بے قرار تھے۔بہر حال جب تک وہ پہلگام پہنچ جاتے ہم دوسری تیاریوں میں مصروف ہوگئے اور ہوٹل چھوڑنے سے پہلے سامان پیک کردیا۔ کچھ دیر بعد نثار صاحب نے فون پر بتایا کہ وہ پہلگام کے مرکزی بازار میں ہمارا انتظار کررہے ہیں۔ ماجد بھائی نے اپنی گاڑی میں ان کو مین مارکیٹ سے ہوٹل تک پہنچایا۔ برادر نثار صاحب سے ہم نے معانقہ و مصافحہ کیا اور کچھ ضروری خریداری کرکے بے تاب ویلی کی طرف رواں دواں ہوئے۔ وادیٔ بیتاب کے متعلق ہم نے پہلے ہی مختصر تذکرہ کردیا ہے۔ یہ پہلگام سے تقریباً پندرہ کلو میٹر پیرپنچال اور زنسکار پہاڑیوں کے درمیاں ایک حسین وادی ہے۔ وہاں پہنچ کر حیرانی ہوئی کہ داخلہ ٹکٹ سوروپیے رکھی گئی ہے جو قدرے زیادہ ہے۔ بہر صورت ٹکٹوں کے دام میں کچھ رعایت کرنے کے بعد ہم اندر چلے گئے۔ اور وہاں سامنے ہی بڑا LCDسکرین لگا یا گیا ہے۔ جس پر کچھ اشتہارات دکھائے جارہے تھے۔ بے تاب ویلی کی خوب صورتی قدرتی ہے اور حکومت نے اس کی تزئین پر کچھ زیادہ کام نہیں کیا ہے۔ باغ کے بالکل درمیاں لیدر نالہ بہہ رہا ہے۔ پانی کا رنگ حیرت انگیز طور پر سبز ہے۔ جو آنکھوں کو طمانیت بخشتا ہے۔ ندی کے اوپر لکڑی کا پل بنایا گیا ہے جو دو اطراف کوآپس میں ملاتا ہے۔ ہم نے پل پر کچھ تصویریں لیں۔ اور باغ کے آگے چل پڑے۔ بچوں کے لیے کچھ جھولے رکھے ہوئے ہیں۔ ندی کا صاف و شفاف پانی ڈبکیاں لگانے کی دعوت دے رہا تھا۔ اور برادر یونس اور برادر ماجد ان موقعوں کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ انہوں نے کپڑے نکال کر دو چار ڈبکیاں لگائیں۔ پانی کافی ٹھنڈا تھا۔ زیادہ دیر تک پانی میں غوطے لگانا ناقابل برداشت تھا۔ لہٰذا وہ پانی سے باہر آئے اور اپنا لباس زیب تن کیا۔دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ ہم نے طے کیا کہ کھانا یہیں کھا کر پھر واپس پہلگام کی طرف چل دیں گے۔ یونس، ماجد اور نثار بھائی سالن گرم کرنے نذدیکی ہوٹل میں گئے۔ اتنی دیر برادر سلیم اور راقم السطور بینچ پر بیٹھ کر استراحت فرمانے لگے۔کھانا بے حد لذیذ تھا اور احباب انگلیاں چاٹنے لگے۔ اپنا سامان بند کرنے کے بعد ہم نکلنے کی تیاریاں کرنے لگے۔ بیتاب ویلی کی مین سڑک جو اُوپر پہاڑوں سے ہوکر جاتی ہے اورجو چندن واری روڑ کہلاتی ہے۔اس سڑک کی اونچائی سے پوری وادیٔ بیتاب کا منظر دیکھا جاسکتا ہے۔ ہم بھی اُس سڑک سے تھوڑا اُونچائی پر چڑھے۔ واقعہ یہ ہے کہ بیتاب ویلی کا منظر دل کو موہ لینے والا ہے۔ سر سبز پہاڑوں کے دامن میں وادیٔ بیتاب کی خوب صورتی بے مثال ہے۔ میری زبان سے بے ساختہ سبحان اللہ، اللہ اکبر کے کلمات ادا ہوئے۔ انسان سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ جب اس فانی دنیا میں اس طرح کے دل فریب مناظر رکھے ہیں تو بہشت بریں کا کیا عالم ہوگا جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ دل میں اس کا خیال گزرا۔لیکن جنت کا حصول ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ ممکن ہے۔ بہ ہر حال کچھ وقت وہاں پر لطف اندوز ہوئے اور خوب صورت تصاویر اُٹھائیں ۔ ہم گاڑی میں بیٹھے اور واپس پہلگام کی جانب گامزن ہوئے۔
پہلگام پہنچنے پر ہماری نظر (amusement park) کے بورڈ پر پڑی۔ آپسی مشورے کے بعد طے کیا کہ پارک میں جاکر وہاں پر موجود نو بہ نوجھولوں اور رولر کوسٹیرس(Roller coasters) کو دیکھ لیا جائے ۔ داخلے کی ٹکٹ اور تمام جھولوں کی سواری پر کم از کم فرد واحد کا ڈھائی سو کے قریب خرچہ بنتا تھا۔ ترنگ میں آکر ہم نے بھی سوچا کہ جب یہاں آہی گئے ہیں تو خرچہ کی پروا نہ کی جائے۔ بھائی سلیم کے توسط سے تھوڑی سی رعایت ملی ۔ تمام جھولوں (swings) پر عمومی نظر دوڑانے کے بعد دو رولر کوسٹرس ایسے لگے کہ بچوں کے علاوہ عمر میں بڑے لوگ ان کی سواری کررہے تھے۔ ایک (Dragon swing) کو ہم نے دیکھا کہ چار خانوں compartmentsکو ڈریگن نما مشین کے منہ میں رکھا گیا ہے۔ پہلے وہ آہستہ سے محور کے ارد گرد گھومتا، اس کے بعد دفعتہ اس کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔ اور ڈریگن کے منہ میں چار ڈبے ہیں جن پر بہ یک وقت چوبیس افراد سوار ہوتے ہیں۔ ڈریگن کی تیزی سے گھومنے اور سرعت سے اوپر نیچے کرنے کے دوران ڈر پوک افراداور خواتین چیخیں مار رہی تھیں۔ اُس پر سوار ہوکر میرا دل بھی وحشت محسوس کرنے لگا۔ میری بغل میں برادر سلیم صاحب تھے جو برابر مجھے دلاسہ دے رہے تھے۔ اس کے بعد جیسے ہی ڈریگن تیزی سے گھومنے لگا میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ ہم ہچکولے کھانے لگے۔ ڈریگن سوینگ پر سوار لوگوں کی چلانے کی آوازیں متواتر آرہی تھیں۔ کچھ منٹوں کے بعد جیسے ہی ڈریگن جھولہ رکنے لگا میری جان میں جان آگئی ۔ لیکن چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ بنائے رکھی کہ یار دوستوں کو لگے کہ ’’ہم بھی کسی سے کم نہیں۔۔!۔ وہاں ایک ملازم سے ہماری بات ہوئی تو انہوں نے کہاں کہ ڈریگن سونگ کو توپھر بھی انگیز کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں پر سب سے خطرناک جھولہ (Columbus swing) ہے جو اسے اسے پاس کیا وہی ہمت و حوصلہ اور جرأت کے پھریرے فضا میں لہراتے ہیں۔اور دل کی مضبوطی جانچنے کا یہ حتمی میٹر ہے۔ سلیم صاحب نے اس پر سواری کرنے کا اصرار کیا ۔ اور میں جی ہی جی میں کہنے لگا کہ اس ملازم صاحب نے تو ایک اور’’ مصیبت ‘‘ میں ڈال دیا۔ بہ ہر حال اپنی ’’نڈرتا‘‘ کا ثبوت دینا ہی تھا۔ لہٰذا بادل ناخواست میں اپنے ساتھیوں سمیت اس پر سوار ہوا۔ کولمبس سونگ ایک نائو کی شکل کی طرح ہے۔ جس کے ایک سرے پر دس بیس آدمی بیٹھتے ہیں اور دوسرے سرے پر دس بیس لوگ۔ پھر یہ پرانی گھڑیوں کے پینڈلیم(pandellum) کی طرح ایک جہت فضا میں اچھلتا ہے پھر نیچے آتا ہے اور پھر دوسرے سرے کو ہوا میں اچھالتا ہے۔ اس میں سوار لوگ دو انتہائوں کے درمیان جھولتے ہیں۔ شدیدگھبراہٹ کی وجہ سے برادریونس صاحب نے چیختے ہوئے منتظم سے جھولا روکنے کے لیے کہا۔ تاہم سب سے زیادہ برادر نثار صاحب کی حالت خراب ہوگئی ۔ وہ کچھ دنوں سے پہلے ہی بیمار چلے آرہے تھے۔ جھولے میں موجود باقی لوگ، جن میں کچھ خواتین بھی تھیں، چلا رہی تھیں ۔ چیخیں مار رہی تھیں۔ اور دہائی دے رہی تھیں کہ جھولے کو روکا جائے۔ بہر حال اس ’’بلا‘‘ سے نیچے اُتر کر ہم نے سر دست نثار بھائی کو سنبھالا۔ ان کے چہرے کی ہوئیں اُڑ گئی تھیں۔ چہرا بالکل زرد پڑگیا تھا۔ سارے وجود میں کپکپی طاری تھی۔ وہ سیدھے زمین پر دراز ہوگئے۔ کسی بھائی نے انہیں پانی دیا۔ تھو ڑی دیر آرام کرنے کے بعد اُنہیں آفاقہ ہوا۔ ان جھولوں نے ہمارا حال بے حال کردیا تھا۔ اس پر بات کرتے ہوئے سبھی برادران ہنسی میں لوٹ پوٹ ہوئے۔ پہلگام میں بنے چڑیا گھر اور دوسری جگہوں پر بھی جانے کا پروگرام تھا تاہم گھر جانے کا وقت آن پہنچا تھا۔ ہم زیادہ دیر یہاں نہیں رک سکتے تھے۔ پہلگام اور نالۂ لیدر کو الوداع کہا اور گاڑی میں سوار ہوکر گھر کی جانب محوِ سفر ہوئے۔ پہلگام سے گھر تک ہم تین جگہوں پر رکے۔ ایک مٹن کے قریب جہاں ہندو برادری کا بہت بڑااور قدیم مندر’’مارٹنڈ سورج مندر‘‘کے نام سے موجود ہے۔ ہم اسے دیکھنے اندر چلے گئے۔ مندر کا صحن کافی وسیع ہے۔ اور صحن کے درمیاں بڑے حوض بنے ہوئے ہیں۔ جن میں کافی مقدار میں مچھلیاں تیرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ مچھلیوں کی اس قدر بہتات کو دیکھ کرخوش گوار حیرت ہوئی۔ مندر سے بجن اور گنٹیوں کی آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی۔ کچھ وقت ٹھہرنے کے بعد ہم وہاں سے نکل پڑے۔ وہاں قریب ہی اہل حدیث مسجدہے ۔ ساتھیوں نے وہاں فراغت حاصل کی اور وضو بنایا۔عصر کی نماز اسی مسجد میں قصر ادا کرکے وہاں سے چل دیے۔ دوسرے کھن بل کے مین چوک میں جہاں ہم نے ’’مسلم نواز ہوٹل‘‘ میں نمکین چائے نوش کی۔ امر واقعہ یہ ہے کہ زندگی میں بہت کم ایسی لذیذ نمکین چائے پی ہے۔ چائے کے متعلق ساتھیوں کا تاثر بھی یہی تھا ۔ ہم نے دو کپ چائے منگوائی۔ محسوس ہوا کہ ساری تکان دور ہوگئی اور ذہنی و قلبی بشاشت حاصل ہوئی۔ تیسرے اسلام آباد کے ایک شوروم میں بہت ساری اشیاء رعایتی داموں پر دست یاب تھیں۔ ہم شو روم میں گئے۔ شو روم میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بہت معیاری چیزیں بھاری ڈسکائونٹ پر مل رہی تھیں۔ برادر سلیم صاحب اور ناچیز نے چپلیں خریدیں ۔ جن پر چالیس فی صد ڈسکائونٹ مل گیا۔ ہم گاڑی میں سوار ہو کر گھر کی اور گامزن ہوئے۔ نئی شاہراہ پر ماجد بھائی تیز رفتار سے گاڑی چلا رہے تھے۔ اندھیرا پھیل چکا تھا۔ شاہراہ کے بیچ میں لگی رہنما رنگ برنگ لائیٹیں چمک رہی تھیں۔دو تین گھنٹوں کے بعد ہم بفضل الٰہی گھر پہنچ گئے۔ اور اس طرح سے یہ محبت بھرا اور یادگار سفر اختتام کو پہنچ گیا۔ یقینا پوری وادیٔ کشمیر بالعموم اور پہلگام بالخصوص خوب صورتی میں لا مثال ہے بقول انگریز شاعر تھامس مورے یہاں کے پھسلتے جھرنوں میں قدرت کے نغمے ہیں، دہکتے پھولوں میں حُسن یوسفؑ کی مہک ہے،پرُ کشش مناظر میں ید بیضا کا اثر ہے، میٹھے پانی میں دَمِ عیسیٰؑ کی تاثیر ہے، پہاڑیوں کی بلندیوں میں عرفان کا درس ہے، درختوں کے تھرکتے پتوں میں ممتا کی ٹھنڈک ہے، مخمور فضا میں محبت کی مستی ہے، رسیلے پھلوں میں حوروں کے بوسے ہیں، پرندوں کی بولیوں میں زندگی کی بشارتیں ہیں، غرض قطرے قطرے اور ذرے ذرے میں خدائے واحد کی نشانیاں اور تجلیات پنہاں ہیں اور معرفت کے دفاتر مخفی ہیں۔
٭٭٭٭