یا خوف سے در گزریں یا جان سے گزر جائیں
مرنا کہ جینا ہے، اک بات ٹھہر جائے
گیارہ اپریل سے شروع ہونے والے پارلیمانی الیکشن ۲۰۱۹ء کا شیڈول جاری کیا گیا ہے ۔ انتخابی عمل ۲۳؍ مئی کو نتیجہ سامنے آنے کے دن تک جاری رہے گا، لیکن ’’سیکورٹی وجوہات‘‘ کو لے کر الیکشن کمیشن آف ا نڈیا جموں کشمیر کے عوام کو اسمبلی چنائو کا شیڈول دینے سے فی الحال گر یز اں ہے۔ بالفاظ دیگر یو ں بھی کہہ سکتے ہیں کہ کشمیر کو دیش سے اور بھی زیادہ دور کردیا گیا ہے ۔ اس بارہ میں کوئی کشمیر ی زبان کھولنے والی کی بھول کر ے تو اُسے بی جے پی کے کرم فرما اور بھی گلا پھاڑ پھاڑ کر دیش ورودہی قرار دیں گے ، پھر دیش بھر میں جہاں کہیں کوئی بچا کھچا کشمیری نظر آئے، بے چارے کے ساتھ وہی کچھ ہوسکتا ہے جو حال ہی میں لکھنومیں ایک کم نصیب کشمیری خوانچہ فروش کے ساتھ کسی زعفرانی سینا نے کیا ۔ یہ مار پیٹ اور غنڈہ گردی ان کی دیش بھگتی ہے۔ بہر صورت ریاست میں الیکشن کی بجا نہ آوری سے متعلق الیکشن کمیشن کی جانب سے اس طرح کا فیصلہ لینے کا کوئی ٹھوس جواز نظر نہیں آتا ہے۔ ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے لئے بھی ووٹر وہی لوگ ہیں جن کو پارلیمنٹ الیکشن میں حصہ لینے کا حق ملا ہے۔ ہر کسی ووٹر کو دونوں صورتوں میں ایک ہی وقت، ایک ہی پولنگ بوتھ پر حاضر ہونا ہے، ایک ہی پولنگ پارٹی کے آگے اپنی شناخت کا ثبوت پیش کرنا ہے اور ایک اُسی کمرے میں دستیاب الگ الگ دو ووٹنگ مشینوں کے بٹن دبانا ہے۔ سیکورٹی مسئلے کی حساسیت سے کوئی منکر بھی ہو ، مگر پارلیمنٹ اور اسمبلی کے لئے چنائو ساتھ ساتھ کئے جانے کے نتیجے میںیہ حساسیت کیسے بدل سکتی ہے؟ کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ دونوں چنائو بیک وقت عمل میں لانے کی صورت میں سیکورٹی کے اضافی جوانوں کو تعینات کرنا پڑتا ہے؟ ضرور ایک فرق یہ ہوسکتا ہے کہ اسمبلی الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو بھی ذاتی حفاظت کیلئے سیکورٹی مہیا کرنا پڑتی ہے لیکن وہ کتنے اضافی سیکورٹی اہل کار ہوسکتے ہیں؟ مان لیں کہ ۸۵؍ یا ۸۷ ؍نشستوں کیلئے کل ملاکر ۵۰۰ ؍امیدوار اسمبلی انتخابات میں حصہ لیں گے اور ہر کسی کو تین یا چار حفاظتی اہل کار دئے جانے مطلوب ہوں گے۔ ۵۰۰؍ کی اس تعداد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو پہلے سے ہی سیکورٹی حصار میں رہتے ہیں اور ذاتی حفاظت کیلئے پہلے سے ہی متعلقہ اداروں میں رجسٹرڈ ہیں۔ اس طرح سے پوار حساب جوڑ کر کہا جا سکتا ہے کہ دو ہزار کے قریب اضافی سیکورٹی اہل کاروں کی ضرورت ہوگی۔ بھارت ایسے قد کے بڑے ملک کے لئے دوہزار اضافی اہل کاروں کو میسر کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ خاص کر جب اس وقت جموں کشمیر ریاست میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں سیکورٹی اہل کار تعینات ہیں اور حال ہی پلوامہ حملے کے بعد سی آر پی الف ،بی ایس ایف اور دیگر فورسز ایجنسیوںکی درجنوں اضافی کمپنیاںبھی کشمیر میں درآمد کی گئی ہیں۔ توقع ہے کہ پارلیمانی انتخابات کے سلسلے میں ہر کسی مقام پر الیکشن عمل سے وابستہ ووٹران ، الیکشن پارٹیوںاور محا فظین کو سلامتی نصیب ہو گی۔ پھر بھی یہ سوال باقی رہتا ہے کہ سیکورٹی کے جوا سکارڈ پارلیمانی الیکشن کی عمل آوری کیلئے مقرر ہونے ہیں، کیا وہ ہر جگہ اور ہر کسی کی مکمل سلامتی کیلئے کافی ہیں اور نا قابل تسخیر بھی ہوں گے؟ اگر اس سوال کا جواب اثبات میں ہے، تو پھر اسمبلی انتخابات منعقد نہ کرانے کا جواز کیا ہوسکتا ہے؟ چند ایام کے بعد ہی مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ اُمیداوار اور اُن کے نمائندے اس ریاست کے ہر کسی ووٹر سے حصول ووٹ کے لئے رابطہ کرنے نکل آئیں گے تواُن کو ووٹروں کی جانب سے اسمبلی انتخابات منعقد نہ کرائے جانے سے متعلق طرح طرح کے سوالات کے جواب دینا ہوں گے۔’’سیکورٹی‘‘ کا عذر تراشا جانا کس حد تک ایک ووٹر کو تسلی دے سکتا ہے؟ ووٹر تو وہی ہے، جو بقول کسے جان پر کھیل کر ۲۰۱۴ء کے اسمبلی الیکشن میں شمولیت کرنے پولنگ بوتھ پر حاضر ہوا تھا۔ کیا وہ ووٹر اب بدل گیا ہے؟ بدل گیا ہے تو اس بدلائو کیلئے ذمہ داری کن لوگوں کے شانوں پر ڈالی جا سکتی ہے؟ پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ سیکورٹی عملے کی کمی کے بہانے سن کر اس بار ووٹر پر دہشت طاری ہوجائے اور کسی دوسرے میجر گگوئی کا خوف کھائے پارلیمنٹ کیلئے ووٹ ڈالنے گھر سے باہر ہی نہ نکلے۔ اس طرح سے کہا جا سکتا ہے کہ ووٹروں کو خوف زدہ کرنے میں الیکشن اتھارٹی خود ذمہ دار ٹھہرتی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا اور ریاست کے چیف الیکشن آفیسر اسمبلی انتخابات کو التواء میں ڈالنے سے متعلق اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کریں۔
قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کو موخر کرنے کے فیصلے کو سیکورٹی کے نظریہ کے سا تھ جوڑنا کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پچھلی بار جب وادی میں خالی پڑی اسلام آباد( اننت ناگ ) اور سرینگر کی پالیمانی نشستوں کے لئے ضمنی انتخابات عمل میں لانے کا فیصلہ لیا گیا تھا، تب واقعی سیکورٹی کی صورت انتہائی غیر تسلی بخش تھی ۔ اس وقت باقی سیکورٹی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ فوج کی کئی ٹکڑیوں کو بھی میدان میں اُتارا گیا تھا۔ سرینگر؍ بڈگام پارلیمانی حلقے میں جوں توں کرکے اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا تھا لیکن امن و قانون کی انتہائی ناگفتہ بہ صورت حال میں بھی اسلام آباد کانسٹی چیونسی کیلئے تا ہنوز چنائو نہیں کرایا جا سکا تھا۔ اس طرح کے حالات پر اب بھی پہلو بدل بدل کر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب پارلیمنٹ میں اسلام آباد کو نمائندگی ملے بغیر بھی کام چلایا جاسکا تھا، اب دوبارہ جموں کشمیر کی چھ سیٹوں کیلئے الیکشن کو ملتوی کرنے کی صورت میں بھی پارلیمنٹ کا کام کاج رُک نہیں سکتا ہے۔ جو لوگ اس خیال کے ساتھ متفق نہیں ہیں، اُن کو بھی ماننا پڑے گا کہ تب سرینگر میں چنائو عمل مکمل ہونے دیا گیا تھا، ویسے ہی اب کی بار اسمبلی انتخابات کا عمل بھی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ جب وہ اسلام آباد حلقے میں چنائو نہ ہونے کیلئے سیکورٹی حالات کا حوالہ دیتے ہوں، تو موجودہ ابتر حالات کے ہوتے ہوئے پارلیمانی انتخابات کیسے منعقد کئے جاسکتے ہیں؟ الیکشن تاریخ کا ایک اور واقع جموں کشمیر اسمبلی انتخابات ۲۰۱۴ء سے وابستہ ہے۔ تب ستمبر کے مہینے میں وادی کشمیر اپنی تاریخ کے سب سے بھیانک سیلاب اور شدید ترین تباہ کاری سے گزررہی تھی اور اللہ کے فضل و کرم سے ہی سیلابی مصیبت میں گھری کشمیری عوام کو نئی زندگی ملی تھی، اگرچہ مرکزی سرکار نے کشمیر کی متاثرہ آبادی کو تب بھی بے یار و مددگار چھوڑدیا تھااور متاثرین کی امدادی خاطرداری کے بارے میں جتنا کچھ بھی وعدہ دیا گیا تھا، وہ سب کاغذی گھوڑوں کی دوڑ تک ہی محدود رہا۔ عقل اک تقاضا تھا کہ سیلاب سے متاثرہ آبادی کو پھر سے زندگی میں پٹری پر آنے کے لئے کچھ وقت کی مہلت درکار تھی،تب کے وزیر اعلی عمر عبداللہ نے بھی مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن کو اس بارے میں بار بار آگاہ کیا تھا، لیکن کشمیریوں کے دُکھ درد کو دلی والوں نے محسوس ہی کب کیا ہے جو تباہ کن سیلاب سے سنبھلنے کیلئے مہلت دیتے۔ تب بھی ریاست میں گورنر راج نافذ کیا گیا تھا اور تب سے آگے کچھ وقت تک پہلے مفتی سعید اور پھر محبوبہ مفتی کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بٹھانے اور موخزالذکر کو ہٹانے کے بعد اب یہاں گورنر راج نافذ العمل ہے، لیکن سیلاب کے بعد مطالبہ کئے جانے کے باوجود بھی الیکشن کو التواء میں ڈالنے کی مانگ منظور کی گئی تھی نہ اس کی کوئی شنوائی ہوئی۔ اب کی بار محض دو چار ہزار سیکورٹی اہل کاروں کی تعیناتی کو ہمالیائی مسلٔہ بناکر ساری ریاست کی آبادی کو جمہوری عمل میں حصہ دار بننے سے دانستہ طور روکا جارہا ہے۔ حال ہی دو بڑی سیاسی جماعتوں پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس نے پنچایت وبلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کر نے کے باوجود اور زمینی سطح پر سیکورٹی خدشات اور ضرورتوں کو نظر انداز کرکے بلدیاتی و پنچایتی انتخابات کرائے گئے اور آج جب ریاست کی رائے عامہ بیک وقت پارلیمانی واسمبلی الیکشن کے ھق میں ہے ،ان کی خواہش کے آگے گھاس نہیں ڈالی جارہی ہے۔ محبوبہ سرکار گر جانے کے ساتھ ہی ریاست پر پھر سے گورنر راج نافذ کیا گیا، لیکن گورنر ستیہ پال ملک نے فلور کراسنگ کیلئے دروازہ کھلا رکھنے کیلئے اسمبلی کو تحلیل نہیں ہونے دیا تھا۔ پھر جب سجاد غنی لون کی پی سی کو ساتھ لے کر نئی سرکار قائم ہو جانے کا راز بازارِ سیاست میں کھلنے لگا تھا ، تو اس پر بریک لگانے کیلئے متبادل اقدام کے تحت پی ڈی پی، کانگریس اوراین سی نے مشترکہ طور مخلوط سرکار بنانے کا اعلان کیا تو گورنر صاحب نے ہارس ٹریڈنگ کی تھیوری گھڑ کر اور نئے انتخابات عمل میں لانے کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے بیک جنبش قلم اسمبلی کو تحلیل کرنے کا حکم صادر فرمادیا۔ ابھی ملک میں سب کچھ معمول کے مطابق رواں دواں ہے۔ سرحدوں پر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جارہا ہے۔ فوجیوں کاmorale (منوبل )اُونچا ہے۔ بقول وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ(ممبئی، ۱۲ اپریل ۲۰۱۷ء) اگر بقول ان کے کشمیر کوایک سال میں بدلنا تھا،ابھی مارچ ۲۰۱۹ء گزرتا جارہا ہے اور حال یہ ہے کہ دلی سرکار ریاست میں اسمبلی انتخابات کا انعقاد کرانے کی تاب نہیں رکھتی ہے۔ یوں تو کسی کو کوئی جلدی بھی نہیں ہے، البتہ موجودہ غیر نمائندہ ریاستی انتظامیہ کی آئینی حد ودسے متجاوزکارگزاری کے نتیجے میں ایک مخصوص آبادی کو نشانہ بنانے کی زور آزمائیاں متواتر ہورہی ہیں۔ ان وجوہات کو لے کر کوئی کہہ نہیں سکتا ہے کہ حالات کب بدلیں گے اور تب تک کبھی بھارت کی اس ’’خصوصی ریاست‘‘ کی کھوکھلی کی گئی خصوصیت کا کیا حال ہوگا؟ شایداسی وجہ کو لے کر ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں نے اسمبلی الیکشن کا انعقاد نہ کرانے کے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے فیصلے کے خلاف اظہار برہمی کیا ہے ۔اس سلسلے میں نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کی نیت پر شک کا اظہار بھی کیا ہے۔ ا س وقت الیکشن مبصرین کے دورہ ٔریاست کا پروگرام طے ہوجانے کے بعد پھر سے اُمید جاگی ہے کہ شاید فیصلہ بدل دیا جائے اور اسمبلی انتخابات بھی پارلیمانی الیکشن کے سنگ سنگ ہی ہوں گے۔ بی جے پی والوں کا الیکشن عمل کو فوج کی ہمت کے ساتھ جوڑنے کے پس پردہ کچھ الگ مقاصد ہیں۔ ملک کے بکائو میڈیا پر اب فوج کی ہمت کی باتیں کرنا ایک فیشن بنتا جارہاہے۔ کانگریس نے بھی پاکستان کے خلاف نصف درجن سے زائدلڑائیاں لڑی ہیں لیکن بھارت بھر میں فوج کی ہمت کو بنیاد بنا کر کسی بھی کانگریسی حکمران نے نہ ہوائی قلعے تعمیرکئے تھے اور نہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے حوالے سے افسانے تراشے تھے لیکن اب کی بارنہ جانے یہ کیسی ہوا ئیں چلائی جارہی ہیں کہ جے مودی نعرہ لگائے بغیر کسی کو کچھ اور سوچ لینے بھی نہیں دیا جارہا ہے۔ اگرچہ مودی کے حق میں تادم تحریر ۰۱۴ ء کی طرح کو کوئی لہر نہیں چل رہی ہے مگر بکاؤ مودی کو وشال دیش کا واحد جادوئی کمانڈر ، قوم کا بہادر نیتا اور قومی قیادت کا واحد اُمیدوار جتلانااب بکاؤ میڈیا کاایک ہی موضوع رہاہے جب کہ ریاست میں پارلیمانی ا ور اسمبلی انتخابی بیک وقت کرا نا اسے اس کے لئےgrave security concern بناہوا ہے ۔