حال ہی میں مرکزی حکومت نے ایک اہم فیصلے کے طور پر بین الاقوامی سرحد پر بس رہے لوگوں کو موبائل نیٹ ورک کی سہولت فراہم کرنے کے مقصد سے ہیرا نگر، کٹھوعہ اور سانبہ سیکٹروں میں آٹھ موبائل ٹاور تنصیب کرنے کو منظوری دی ہے لیکن ایک بار پھر حد متارکہ پر اسی طرح کی مشکلات کاسامناکررہی آبادی کو نظرانداز کردیاگیاہے، جس سے کئی اذہان میں پائے جارہے اس تصور کو تقویت ملتی کہ حد متارکہ اور بین الاقوامی سرحد پر بس رہے عوام کے تعلق سے الگ الگ پالیسی اپنائی جارہی ہے اور سہولیات کے نام پر دونوں کے درمیان واضح امتیاز برتا جا رہا ہے۔بین الاقوامی سرحد پر موبائل ٹاور نصب کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے اور اس سے جموں ، کٹھوعہ اور سانبہ اضلاع کے سرحدی علاقوں میں بس رہے لوگوں کی مشکلات کا کسی حد تک ازالہ ہوگا اور وہ موجودہ دور کی اہم ضرورت سے مستفید ہوسکیں گے تاہم حدمتارکہ کے قریب آباد لوگوںکے تئیں الگ رویہ اختیار کیاجانا افسوسناک ہی نہیں بلکہ شکوک شبہات کو جنم دیتا ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ سرحدی علاقوں میں دفاعی اقدامات کے طور پر نہ ہی تو موبائل ٹاور نصب کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی مواصلاتی کمپنیاں ٹاوروں کی تنصیب کیلئے آمادہ ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں مقامی عوام کو روابط کے حوالے سے بہت مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ خاص کر ہندوپاک افواج کے درمیان کشیدگی کے مواقع پر، جب لوگوں کو مال و جان کے نقصان کا سامنا رہتا ہے، لوگوں کو رابطوں کی سخت ضرورت پڑتی ہے لیکن ایسے واقع پر لوگ اس جدید دور میں بقیہ دنیا سے کٹ کررہ جاتے ہیں ۔ حدمتارکہ پر آبادلوگوں کو ڈبلیو ایل ایل فون فراہم کئے گئے تھے لیکن چند ماہ قبل حکام نے اس سروس پر بھی بندش عائد کردی، جس سے پریشانیوں میں دوگنا اضافہ ہوگیاہے۔بنکروں کی تعمیر سے لیکر مواصلاتی سہولیات کی فراہمی تک ہر ایک معاملے میں بین الاقوامی سرحد کے مکینوں کو حد متارکہ کے مکینوں پر ترجیح دی گئی ہے اور سرحدی کشیدگی میں تباہی کے بعد مرکزی رہنمائوں کے دورے بھی بین الاقوامی سرحد تک محدود رہتے ہیں ۔بین الاقوامی سرحد پر بس رہی آبادی کو حال ہی میں حکومت کی طرف سے ریزرویشن سے بھی نوازاگیاہے جبکہ حد متارکہ کے لوگوں کے ساتھ صرف ایسے وعدے کئے جاتے ہیں جو کبھی پورے ہی نہیں ہوتے ۔ گزشتہ سال مرکزی وزیر داخلہ نے راجوری کے نوشہرہ علاقے کا دورہ کرکے یہ وعدہ کیاتھاکہ بنکروں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ سرحدی متاثرین کو محفوظ مقامات پر زمین فراہم کی جائے گی لیکن اس کے بعد کسی نے مڑ کردیکھا اور نہ ہی وزیر موصوف کو اپنا یہ وعدہ یاد رہا ۔دیگر معاملات میں بھی حد متارکہ کے عوام ناانصافیوں کاشکار ہیں۔ باوجود اس حقیقت کے کہ پچھلے چند برسوں سے ہندوپاک کے درمیان جاری غیراعلانیہ جنگ میں سب سے زیادہ متاثر حدمتارکہ کے مکین ہی ہوئے ہیں ۔سرحدی عوام چاہے جہاں کے بھی ہوں ، ان کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیاجاناچاہئے اور اپنے ووٹ بنک و عقائد کی بنیادایک علاقے کو دوسرے پر ترجیح نہ دی جائے کیونکہ حدمتارکہ کے لوگ بھی انہی مصائب و آلام سے گزر رہے ہیں جو بین الاقوامی سرحد پر بس رہی آبادی کو درپیش ہیں ۔امید کی جانی چاہئے کہ بین الاقوامی سرحد کی طرح حد متارکہ پر بھی موبائل ٹاوروں کی تنصیب عمل میںلاکر سرحدی خطوں کے عوام کو موبائل نیٹ ورک خدمات فراہم کی جائیں گی ۔