ویتنامجنگ کے بعد امریکی ماہرین نے پیشن گوئی کی تھی کہ اب کے بعد دنیا میں بڑی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف چھوٹی اور بالواسطہ جنگیں لڑیں گی، کیونکہ براہ راست جنگ سے علاقائی اور عسکری اہداف حاصل نہیں ہوتے اورجو بدنامی ہوتی ہے وہ الگ۔ ایسا ہوا بھی، امریکہ اور رُوس نے ایک دوسرے کے خلاف افغانستان میں دس سالہ جنگ سعودی عرب اور پاکستان کی حمایت سے مجاہدین کے ذریعہ لڑی تھی۔ لیکن 2001میں ٹوِن ٹاورز پر حملوں کے بعدپھر ایک بار افغان ریگزاروں میںامریکہ نے خود کو پھنسا دیا۔
ویتنام جنگ کے وقت جواحساس پینٹاگون میں غالب تھا وہی گزشتہ برس سے ایک بار پھر امریکی پالیسی سازوںکی نیندیں حرام کررہا ہے۔ اسی پس منظر میں افغانستان امن عمل ترتیب پارہا ہے، اور اس عمل میں پاکستان کی مرکزیت اُبھر کرسامنے آرہی ہے۔ پاکستان کی اسی ضرورت کے پیش نظر فروری کے مہینے میں عالمی اقتصادی اداروں میںپاکستان کے لئے 12ارب ڈالر کی بیل آوٹ ڈیل پر مشاورت جاری تھی، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان دورہ بھی 40ارب ڈالر کی اُس مالی معاونت کو حتمی شکل دینے کیلئے تھا جو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی مشترکہ مدد سے تشکیل پایا ہے۔ فروری میں ہی فائنانشنل ٹاسک فورس کے تحت پاکستان کو دہشت گرد کا حمایتی ہونے کی پاداش میں گرے لسٹ سے ہٹاکر بلیک لسٹ میں ڈالنے کی کارروائیوں کی سماعت ہونی تھی، اور بھارت کے مبینہ جاسوس کلبھوشن یادو کی سماعت انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں طے تھی۔ پاکستان کی تذویراتی اہمیت کو دیکھتے ہوئے امریکہ، بھارت، ایران اور اسرائیل کے وہ منصوبے وقتی طور معطل ہوگئے تھے جن کامقصد پاکستان کو ڈی نیوکلرائز کرنا تھا۔ اب ٹرمپ بھی خاموش تھے،کیونکہ 18فروری کو طالبان کا وفد پاکستان میں امریکی ثالثوں کے ساتھ مذاکرات کرنے والا تھا۔
یہی وہ پہلودار پس منظر ہے جس میں پلوامہ کے لیتہ پورہ ہائی وے اور ایران کے جنوب مشرقی شہر سیستان میں خودکش بمباروں نے بھارت کے 49 نیم فوجی اہلکاروں اور ایران کے 27 فوجیوں کو ہلاک کرکے جنوب ایشیاء پر جنگ کی فضا طاری کردی۔ آناًفاناًامریکہ کا لہجہ بدل گیااوربھارت کے ساتھ ساتھ ایران نے بھی جوابی حملے کی دھمکی دی۔ ابھینندن کا جہاز گرنے سے اُن کی گھر واپسی تک اور پاکستان میں مسلح گروپوں کے خلاف سرکاری کاروائیوں سے مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دئے جانے کی قرارداد پر چین کے ویٹو تک جوکچھ بھی ہوا وہ ایشیا میں کھیلی جارہی ارضیاتی سیاست کی ہی کڑیاں ہیں، اور بدقسمتی سے بڑی طاقتوں کے درمیان ہورہی نئی سرد جنگ کا اکھاڑہ اب کشمیر ہی بن رہا ہے۔
مسعوداظہر کے معاملے میں چین کے موقف پر کئی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک علامتی سٹینڈ ہے جس سے بھارت کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ خطے میں امریکہ کی پشت پناہی سے داداگری نہیں کرسکتا۔ چین نے بھارت کی بحری حدود میں فوجی سرگرمیاں بھی تیز کردی ہیں، اور گوادر بندرگاہ کے قریب بحری بیڑوں کا ایک وسیع نیٹ ورک تشکیل دیا جارہا ہے جسکامقصد سی پیک کے ذریعہ بحیرۂ عرب اور بحرہند تک محفوظ رسائی کو ممکن بنانا ہے۔ ایسے میں ہندپاک کے درمیان کشیدگی سے جہاں امریکہ اپنے مفادات کی تکمیل چاہتا ہے، وہیں چین دہشت گردی یا دوسرے مسائل میں بھارت کے مؤقف کو چیلنج کرکے امریکہ کی سپرپاور حیثیت کو چینلج کرتا ہے۔
اس گنجلک عالمی منظرنامے میں کشمیر کا مسلہ انٹرنیشنلائز بھی ہورہا ہے، لیکن کشمیریوں کو نہ انصاف ملتا ہے، نہ ہی کوئی عبوری راحت ۔ جب چین مسعود اظہر کے کیس میں ویٹو طاقت کا استعمال کرتا ہے، تو اقوام متحدہ میں کشمیر میں ہورہی انسانی حقوق کی پامالیوں کے بارے میں پیش رفت رُکوانے کی خاطر امریکہ، بھارت اور دوسری قوتیں اعلانیہ اور خفیہ لابیٔنگ کرتی ہیں۔
کشمیرکو اب ایک طرف عالمی ارضیاتی سیاست کا چارہ بنایا جارہا ہے، اور دوسری طرف عالمی صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت کے پالیسی ساز کشمیر یوں کو زیر کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس میں کشمیرکو قومی سطح کے سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے، اور یہ اتحاد تب تک ممکن نہیں جب تک یہاں کی سیاست شخصیات اورخانوادوں کی جاگیر بنی رہے گی۔ انتخابات کشمیریوں پر تھوپے جاتے رہیں گے، چاہے کشمیری الیکشن سے بیزار رہیں یا مجبوری میں ووٹ ڈالیں۔ اس صورتحال پر نہ صرف غیرجانبدار حلقوں بلکہ حریت کانفرنس اور سبھی سیاسی سٹیک ہولڈرس کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کے لئے یہ آخری موقعہ ہے کہ وہ اپنے ماتھے پر لگی ابن الوقتی کی لیبل ہٹادیں۔ کشمیری عالمی حالات کو بدل نہیں سکتے، تاہم اگر قومی شعور کا مظاہرہ کیا گیا تو کشمیر پر اُن حالات کے مضراثرات کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر